کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا پائے گی؟؟

ملک کے سب سے بڑے صوبت پنجاب کی وزارت اعلی ٰ کا تاج متوقع طور پر چکوال انتہائی پڑھے لکھ اور شریف گھرانے کے سپوت یاسر سرفراز کے سر سجنے والا ہے ، راجہ یاسر سرفراز پنجاب کے متوقع عبوری وزیر اعلیٰ ہو سکتے ہیں تاہم ان کی شخصیت کے اعلیٰ اوصاف کے پیش نظر یہ تعیناتی مستقل بھی ہو سکتی ہے، مگر یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں کیوں کہ لاکھ میرٹ میرٹ کی گردان کی جائے اور تبدیلی کا جتنا مرضی واویلا کیا جائے ایسا ہونا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے کیوں کہ یار لوگوں نے سیاسی پارٹیوں پہ اربوں روپے کی انوسیٹمنٹ کر رکھی ہوتی ہے اور پی ٹی آئی میں بھی دو نام ایسے ہیں جنہیں عمران خان چاہیں بھی تو نظر انداز نہیں کر سکتے ان میں ایک نام محترم حاجی جہانگیر ترین صاحب کا اور دوسرے ہمارے محترم دوست علیم خان ہیں جنہوں نے روز اول سے پارٹی کی ایک ایک تبدیلی پر نظر رکھی ہوئی ہے ادھر شاہ محمود بھی صوبے سے ہار جانے کے باجود لنگوٹ کسے بیٹھے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے ان سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے آج کا کالم توقعات پر مبنی ہے کہ اگر ایسا ہو یعنی یاسر سرفراز وزیر اعلیٰ پنجاب ا تو کیا تاریخ اپنے آپ کو دوہرائے گی ،1934میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب سر خضر حیات کے دور میں راجہ سرفراز خان رئیس آف چکوال قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ چکوال کا اقتدار کوٹ سرفراز کے راجہ خاندان کے ارد گرد گھومتا تھا،یہ راجہ یاسر سرفراز کے آباء اجداد ہی تھے جنہوں نے موجودہ کالج کی سینکروں کنال اراضی تعلیم کے لیے وقت کر دی تھی، اب82سال کے بعد تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دوہرایا اور راجہ سرفراز خان کا پوتا راجہ یاسر ہمایوں سرفراز حلقہ پی پی21پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوا ہے اس کے علاوہ ان کا شمار متوقع وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے ،2012میں کوٹ سرفراز چکوال میں عمران خان کی آمد ہوئی تو اس وقت راجہ یاسر نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں تبدیلی لانے کیلئے مجھے راجہ یاسر جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ پنجاب کیوزارت اعلیٰ کیلئے راجہ یاسر سرفراز فیورٹ بتائے جا رہے ہیں۔ راجہ یاسر سرفراز امریکہ کی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور تعلیم کے حوالے سے بڑی دور کی نظر رکھتے ہیں۔ ضلع چکوال میں او لیول اور اے لیول کی جدید تعلیم کے بانی ہیں۔ جبکہ ان کے دادا راجہ سرفراز نے1948میں موجودہ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کے لیے ناصرف اپنی 104کنال اراضی حکومت کو فراہم کی بلکہ شرط کے مطابق ایک لاکھ روپے اس وقت نقد بھی پنجاب حکومت کو دیا جس کے نتیجہ میں تحصیل ہیڈ کوارٹر کی سطح پر قیام پاکستان کے بعد قائم ہونے والا واحد ڈگری کالج تھا اور اسی کالج کی بدولت یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء وطالبات نے ملک بھر میں اہم عہدوں تک رسائی حاصل کی ۔ جنرل عبدالمجید ملک، جنرل عبدالقیوم، خواجہ بابر سلیم محمود، سابق چیف سیکرٹری افضل کہوٹ اور کئی دیگر نامور شخصیات اس کالج سے فیض یاب ہوئی ہیں اس کے علاوہ بھی بے شمار لوگ اس کالج سے نکل کر زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی اعلیٰ خدمات سرانجام دے ہیں،میرے دوست جانتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کا زبردست ناقد ہوں ،تاہم میں ایک چھوٹی س غلط فہمی دور کرتا چلوں کہ میں پی ٹی آئی پہ تنقید بے جا نہیں کرتا میں ان کی پالیسیوں اور تمام کرپٹ لوگوں کا بے دریغ پی ٹی آئی کا پلیٹ فارم استعمال کرتے دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کیا کہ وہ تمام لوگ جو کل تک ان پارٹیوں میں تھے جنہیں ہم کرپشن کا گڑھ کہتے ہیں آج وہ سارے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو کر پوتر ہو چکے ہیں میں عمران خان کے خلاف نہیں ان کی اس پالیسی کے خلاف ہوں کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے کوئی معیار اور اصول و ضابطہ وضع نہیں کیا گیا،، میں اس لیے پی ٹی آئی پر تنقید کرتا ہوں اور کھل کر کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا اس وقت جب تک اس کی سمت درست نہیں ہو جاتی ،اس تنقید کا یہ مطلب یہ بھی نہیں کہ میں ن لیگ کاحامی ہوں ن لیگ اگر آج اس انجام سے دوچار ہے تو اس میں کسی کا بھی قصور نہیں سوائے میاں صاحب کے کہ انہوں نے بھی مشرف کی باقیات میں سے کسی ایک کو نہیں چھوڑا جسے اپنی پارٹی میں نہ صرف شامل کیا بلکہ اعلیٰ عہدوں سے بھی نوازالیکن اس کو کیا کہیے کہ جب طلال چوہدری،دانیا ل عزیز ،حنیف عباسی اور خورشیدشاہ ونوید قمر جیسے نابغوں سے بدظن ہو کر پی ٹی آئی کی طرف رخ کریں تو آگے سے نذر گوندل،فردوس عاشق اعوان اور ندیم افضل چن جیسے ہیرے نظر آتے ہیں پھر تنقید نہ کی جائے تو اور کیا کہا جائے یقین کریں اگر ملک میں صدارتی نظام ہو تا اور انتخابات ہوتے تو میرا ووٹ سب سے پہلے صرف عمران خان کے لیے کاسٹ ہوتا، میں آج تک کسی جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد دینے گیا ہوں نہ ہارنے والے کے پاس افسوس کے لیے گیا اور نہ ہی ایساکوئی ارادہ ہے کیوں کہ کسی بھی ڈیرے پر پہنچ کر اپنے اوپر لفافے کی چھاپ لگوانے سے بہتر ہے کہ دیور بھیا لنڈیر ے ہی بھلے ،کتناہی اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف میں اعلیٰ عہدوں پر نئے لوگ اور سارے کے سارے راجہ یاسر سرفراز جیسے خو ب صورت و سیرت لوگ ہوتے،یہ مرقع دور سے ہی لوگوں کو اپنی جانب کھینچتااور ہم جیسوں کے پاس کہنے کو کوئی ایک بھی بات نہ ہوتی،خیر وقت آگے بڑھنے کا ہے تلخیاں بھلا کر کچھ نیا کرنے کا لوگوں نے اگر تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے توانہوں نے عمران خان سے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں،عمران خان نے اگر راجہ یاسر سرفراز جیسے شخص کو پنجاب جیسے اہم ترین صوبے کی وزارت اعلیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ اچھائی کی جانب پہلا قدم ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے مگر خان صاحب یاد رکھیں کہ یہاں پر ٹانگیں کھینچنے والے پیاروں کی بھی کمی نہیں وہ کبھی بھی نہیں چاہیئں گے کہ ایک ایسا شخص اتنے اہم منصب پر بیٹھ جائے جو اس کا اہل ہے ،جو خود میرٹ کا پابند اور دوسروں کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہے،سب سے برابر کا سلوک الیکٹیبلز کو کسی صورت بھی گوارا نہیں ہو گا اور اس کے علاوہ وہ لوگ بھی زمین آسمان ایک کر دیں گے جنہوں نے اربوں روپے اس امید پر لگا رکھے ہیں کہ انہوں نے حکومت بننے کے بعد دس گنا وصولی کرنی ہے،عمران کان نئے اور ساف شفاف لوگوں کو سامنے لا کر اس پر ڈٹ جاتے ہیں تو وہ دو نئی ایک پاکستان کے خواب کو عملی تعبیر دے سکیں گے اور اگر ایسا نہ ہو ا کہ پھر وہی پرانے آزامئے ہوئے اور سرمایہ دار لوگوں کی گردنوں پر سوار ہو گئے تو صاف چلی شفاف چلی کہیں دور گم ہو جائے گی اورپیچھے کی طرف سفر تیز بلکہ تیز ترین ہو جائے گا،اس ترین کا حاجی جہانگیر ترین سے کوئی تقابل نہیں،،،اﷲ پاکستان پہ اپنا کرم کرے اور عمران خان کو اچھے فیصلے کرنے اور ان پر استقامت کی توفیق دے۔