ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ سوال ’’اچھا کالم کیسے لکھا جائے‘‘
کے پوچھنے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے حالانکہ ہم نے اپنے دس درجن
دوستوں کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا کہ ہم بھی اچھا کالم لکھتے ہیں۔یہ ہمارے
دوست کی شادی کی تقریب تھی ہمارا کالج فیلو کئی سالوں بعد وہاں مل گیا۔کہنے
لگا پتا چلا تم کالم نگار بن گئے ہو یار تم بتاؤ گے تو نہیں لیکن پھر بھی
پوچھنے میں کیا حرج ہے ’’اچھا کالم کیسے لکھتے ہیں؟ میں بنیادی طور پر
چونکہ ’’یاروں کا یار‘‘ ہوں سو میں نے اسی وقت جیب میں سے قلم نکالا اور
میز پر پڑے کاغذ پر موٹے حروف میں ’’اچھا کالم‘‘ لکھ کر اپنے دوست کو
تھمادیا۔سمجھ میں نہیں آتا بجائے میرا شکریہ ادا کرنے کے وہ دوست وہاں سے
پیر پٹختا ہوا اور منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا کیوں چلا گیا۔خیر یہ باتیں سنا
کر میں زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتاپہلے بھی عرض کیا تھا ،پھر کیے دیتا
ہوں میں چونکہ ایک عظیم انسان ہوں اس لیے چاہتا ہوں کہ جو ’’فیض‘ ‘ میرے
پاس ہے اسے اپنے تک محدود نہ رکھوں بلکہ اسے آگے تقسیم کروں اوراس سلسلے کو
آگے بڑھاؤں۔اس غرض سے میں اچھا کالم لکھنے کے چند طریقے بتارہا ہوں کالم
نگاروں کی کوئی انجمن اس کالم کی فوٹو کاپیاں عوام الناس میں تقسیم کرنا
چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔سب سے پہلے میں ویب سائٹس پر لکھنے والے
بلاگرز اور کالم نگاروں کی راہنمائی فرماؤں گا۔تو سنیے !اگر آپ کسی ویب
سائٹ پر کالم لکھتے ہیں اور کبھی ویب سائٹ ایڈیٹر نے آپ کی تحریر کی تعریف
نہیں کی تو تھوڑا سا قریب آجائیں اب وہ وقت دور نہیں جب ان کی نظر میں صرف
آپ ہی ایک اچھے رائٹر ہوں گے۔سب سے پہلے تو اپنے ذہن میں سے قوم کا وہ درد
نکال دیجیے جو آپ کو اٹھتے بیٹھتے،سوتے ،جاگتے چین نہیں لینے دیتا اورآپ ہر
تحریر میں قوم کا دکھ اور درد کالموں کے ذریعے کم کرتے نظر آتے ہیں۔یقین
کیجیے آپ کی اس طرح کی تحاریر سے ’’درد‘‘ میں اضافہ ہی ہورہا کمی نہیں
ہورہی۔اب ایسا کیجیے پہلی فرصت میں ’’منٹو کے متنازعہ افسانے‘‘خرید کر اپنی
الماری میں رکھ لیجیے(ابھی پڑھنے کی ضرورت نہیں)۔ اب ٹائٹل کے چناؤ کی طرف
آئیے یہ سب سے اہم مرحلہ ہے دیکھیے بہت ہوگئے یہ موضوعات، سیاست کا اونٹ کس
کروٹ بیٹھے گا،نئی حکومت کے لیے چیلنجز،پاکستان ترقی کی راہوں سے کتنا دور
،کیا عمران خان حکومت بنا پائیں گے،بہادر باپ کی بہادرر بیٹی،جماعت اسلامی
کا زوال،ایم کیو ایم پھر سے زندہ، وغیرہ وغیرہ یاد رکھیے ٹائٹل ایسا ہونا
چاہیے کہ پڑھنے والے کے رونگٹے کم ازکم ضرور کھڑے ہوں۔مثال کے طور پر’’
25دن جنوں کے ساتھ‘‘، میں زندہ کیسے ہوا،میں نے عزت کیوں قربان کی،صحافیوں
کے کالے کرتوت،سیاست دانوں کے سکینڈلز،خوبصورت رات کی بھیانک کہانی،دردناک
غلطی نے زندگی جہنم بنادی، جب اس نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا،وہ درندہ میری
عزت کا قاتل نکلا،ہم جنس پرستی کیوں اچھی لگتی ہے،ایک رات وہ سب ہوا،
میں نے یہ گناہ کیوں کیا، یہ عنوانات ویب سائٹس والے نہ صرف باآسانی قبول
کرلیتے ہیں بلکہ آپ کی ذہانت کی داد بھی دیتے ہیں۔اب پریشان ہونے کی ضرورت
نہیں تحریر چاہے کچھ بھی ہو،عنوان پڑھ کر اور موقع کی مناسبت سے لگائی گئی
تصویر دیکھ کر قاری آپ کی آرٹیکل کی طرف کھنچتا چلا آئے گا اور جیسے ہی لنک
پر کلک کرے گا ویب سائٹ کو اطلاع مل جائے گی ۔اس کے بعد بے شک وہ تحریر نہ
پڑھے مگر ویب سائٹ والے آپ کی تحریر پر کیے گئے کلکس کی تعداد گن کر آپ کو
شاباش ضرور دیں گے۔اب آجائیں اخباری کالم کی طرف یہ دنیا ذرا مختلف ہے۔یہاں
آ پ کوقومی نوعیت کے عنوانات دینا ہوں گے۔ مثال کے طور پر،عمران خان کو
وزیراعظم کس نے بنایا؟،الیکشن میں دھاندلی کس نے کروائی،نواز شریف جیل میں
کیا کرتے ہیں،مولانا فضل الرحمن آگ بگولا کیوں ہوئے،مصطفی کمال نے سب بتا
ددیا،ڈاکٹر فاروق ستار نے کچا چٹھا کھول دیا،نعیم الحق تنہائی میں کیا کرتے
ہیں،جہانگیر ترین کی اصل طاقت کیا ہے،پنجاب کا نیا وزیر اعلی وہ ہوگا،عمران
خان حلف اٹھانے کے بعد پہلا کام کیا کریں گے،وغیرہ وغیرہ۔اب آئیے کالم کی
طرف کالم لکھتے وقت اطمینان کرلیں کہ آپ کا نیٹ ٹھیک چل رہا ہے کالم چاہے
کچھ بھی ہو گوگل پر Great sayings لکھ کر سرچ کریں اور کالم کے شروع ،درمیان
اور آخر میں یہ فٹ کر دیں اسے پڑھنے والے کو یہی لگے گا آپ انٹرنیشنل قسم
کے کالم نگار ہیں۔ہر کالم میں اس طرح کے واقعات ضرور شامل کریں ’’ کل ٰٓخ
ؓٓ
ایک بااثر شخصیت نے ملاقات میں بتایا کہ سیاست دانوں کے گرد شکنجہ کسا جانے
والا ہے‘‘ پرسوں حکومتی پارٹی کے اہم رہنمامیرے گھر پر چائے پیتے ہوئے بتا
رہے تھے کہ کابینہ میں کون لوگ شامل ہوں گے‘‘، شام جم خانہ میں جنرل (ر) نے
میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کچھ دن میں سب بدلنے ولا ہے‘‘یہ واقعات
بار بار کالم میں دہرائے بھی جا سکتے ہیں۔ اس کے کئی فائدے ہیں پڑھنے والے
پر آپ کی دھاک بیٹھ جائے گی کہ آ پ ایک بااثر شخص ہیں دوسرا یہ ایسی عام
باتیں یہ ہمارے ہاں ہوتی ہی رہتی ہیں اگر اگلے چند دنوں میں ایسا کچھ
ہوجائے تو فورافیس بک پر سٹیٹس ڈال دیں ’’خاکسار نے چند دن پہلے ہی بتادیا
تھا مگر تب مجھے گالیاں دی گئیں اب وقت نے ثابت کر دیا کہ میں ایک بہادر
اور سچا انسان ہوں‘‘ ساتھ ثبوت کے طور اس کالم کی تصویر لگادیں۔بالفرض ایسا
کچھ نہیں ہوتا تو خاموشی اختیار کیجیے یہاں کون یاد رکھتا ہے۔اچھے کالم
لکھنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں لیکن وہ پھر کبھی۔ |