معراج انسانیت

ہم ایک ایسے معاشرے کے اندر رہ رہے ہیں جہاں پر حصولِ اقتدار اور مفا دا تِ عاجلہ کے بطن سے جنم لینے والی معرکہ آرائیاں اور دشمنیاں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ جہاں پر کمزوروں اور بے کسوں پر جبر کے قانوں کا نفا ذ عمل میں لایا جا تا ہے۔ جہاں پر جا گیر دار اور سرما یہ دار اپنے اپنے علا قے میں فرعونیت کا مظا ہرہ کرتے رہتے ہیں۔ جہاں پر کمزوروں اور بے کسوں کو آوا ز اٹھا نے اور حصولِ انصاف کا حق حا صل نہیں ہے۔ جہاں پر طا قت ور کی کلا ئی مروڑنے والا کو ئی نہیں ہے۔ جہاں پر مذہبی شدت پسند اپنے مخا لفین پر مختلف نوع کے جھوٹے اور تو ہین آمیز الزا مات لگا کر انھیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ انھیں رسوا کرتے ہیں اور ان کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات ، جھو ٹی گوا ہیاں جھوٹے الزامات اور ان سارے ا فعال پر من پسند سزا ئیں ملک میں ہر جگہ دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہیں۔

برداشت تحمل برد باری اور احترامِ انسا نیت کا وہ جذ بہ جو ا سلام کی حقیقی روح ہے مذہبی جنو نیت کے سامنے سرنگوں ہو تا جارہا ہے۔ مذ ہبی پیشوا ئیت خونخوار بن کر ہر اس فرد کو جو ان کی فکر اور سوچ سے اختلاف کرتا ہے حرفِ غلط کی طرح مٹا د ینا چاہتی ہے ۔ا نسا نوں کے بنا ئے ہو ئے قانوں کی بنیاد پر اپنے مخالفین کو عبر تناک انجام سے دوچار کر دینا انکا محبوب مشغلہ ہے جس میں رحم و کرم اور در گزر کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے۔ اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے وا لوں کو برداشت کرنا یا معاف کرنا انکی لغت میں نہیں ہے ۔ اپنی جبلی انا نیت کی تسکین کی خا طر وہ مذہب کا لبا دہ اوڑھ کر عوامی جذبات سے کھیلتے ہیں لوگوں کو ورغلاتے ہیں تا کہ انکی دھشت سے خوف زدہ ہو کر لوگ سچا ئی کا دامن چھوڑ کر انکے سا منے سر نگوں ہو جا ئیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ کہ نفرت ظلم فساد اور بربریت کے مقدر میں جیتنا اور پنپنا نہیں لکھا گیا بلکہ اس کا مقدر سدا کی ہار ہے۔

لوگوں پر کفر کے فتوے جاری کرنا انھیں کافر کاذب اور گمراہ کہہ کر واجب القتل قرار دینا مذہبی پیشو ائیت کے با ئیں ہا تھ کا کھیل ہے اور وہ یہ کھیل صدیوں سے کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن با عثِ حیرت ہے کہ ان کی فکر اور سوچ کو کبھی بھی عوامی پذیرائی حا صل نہیں ہو سکی بلکہ انھیں ہمیشہ شکست سے ہی دوچار ہو نا پڑا ہے اور عوامی حمائت کی یہی محرومی ان میں سفاکیت کو ہوا دیتی ہے ۔ مذہبی پیشوا ئیت خود کو ایک ایسے خول میں بند کر لیتی ہے جہاں پر وہ نفرت تعصب ضد ہٹ دھرمی بے رحمی کے سوا کسی بھی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہو تی ہے۔ ایک انسان کا قتل انسا نیت کا قتل ہے لیکن وہ فرمانِ خدا کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہو ئے لوگوں کو قتل پر اکساتے ہیں، فتوے دیتے ہیں اور معا شرے میں فساد اور نا ہموا ریا ں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ گوجرا نوالہ کے واقعات اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جس بے دردی سے جھو ٹے الزا مات کے تحت لوگوں کو مارا گیا اور ان کے گھروں کو جلا یا گیا وہ مذہبی جنو نیت کو سمجھنے کےلئے کافی ہے۔ پاکستانی عوام مذہبی قیادت کے اس اندازِ فکر کو پسند نہیں کرتے اور انھیں ترقی امن اور خو شحا لی میں رکا وٹ تصور کرتے ہیں۔۔

معاشرے میں عریا نی فحا شی جنسی بے راہ روی زنا با لجبر کرپشن لوٹ کھسوٹ رشو ت ستا نی ملاوٹ اور بد دیا نتی کے خلاف جہاد کرنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی بجا ئے مذہبی پیشوا ئیت انسا نوں کے بنا ئے ہو ئے قانون کو بنیاد بنا کر مخالفین کے قتل کے فتوے جاری کر کے انھیں اپنی راہ سے ہٹا نے کے معرکے میں جٹی ہو ئی ہے اور پو رے معاشرتی ڈھانچے کو مفلوج اور زمین بوس کر نے کی سا زش کر رہی ہے جسکی تازہ ترین مثال پنجاب کے گو ر نر سلمان تا ثیر کا ہیہما نہ قتل ہے۔ سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور سلمان تا ثیر بھی مسلمان ہو نے کے ناطے اس محبت میں گرفتار تھے۔ اس کے خاندان کے علامہ اقبال سے بڑے قریبی مراسم تھے سلمان تا ثیر کے وا لد ایم ڈی تاثیر علامہ اقبال کے خاص معتقدین میں شمار ہو تے تھے لہٰذا عشقِ رسول کا وہ شعلہ جس نے اقبال کی شا عری کو شہرتِ دوام بخشی ہے اس سے خاندانِ تاثیر بھی مستفیض ہو ا تھا ۔ علامہ اقبال نے سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے اپنی محبت کو جس خو بصورت انداز سے اشعار کے پیکر میں ڈالا ہے وہ انتہا ئی پر اثر اور ایمان افروز ہے۔ سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ کے بارے میں انکا یہ شعر ہر مسلمان کی دلی کیفیت کا حقیقی آئینہ دار ہے کیونکہ ہر مسلمان اپنی جان سے زیا دہ سر کارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے محبت کرتا ہے۔۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔۔۔۔یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح و قلم تیرے ہیں۔۔( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

تحریک ِ پاکستان میں عاشقانِ رسول ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کے لئے اپنی جا نوں کے نذرانے دے رہے تھے لیکن مذہب پرست طبقہ ہندﺅوں کی گود میں بیٹھ کر قیامِ پاکستان کے سر فروشوں کی تضحیک میں مصروف تھا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علا مہ اقبال پر کفر کے فتو ؤں کے نشتر چلا رہا تھا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور انکے رفقا ئے کار نے ان فتوؤں کو پرِ کاہ سے زیا دہ اہمیت نہ دی اور قیامِ پاکستان کو حقیقت کا جامہ پہنا کر دم لیا۔ لیکن ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ وہ لوگ جنھوں نے قیامِ پاکستان کے لئے سب کچھ قربان کیا اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے ا پنی ہر متاع کو قربان کیا انہی کی اولاد کو مذہبی پیشوا ئیت نے اپنی مذہبی جنو نیت کا نشانہ بنا کر پاکستان کے خود ساختہ ٹھیکے دار بن گئے ہیں حا لا نکہ اس ملک کے قیام میں انکا نہ کو ئی کردار ہے اور نہ ہی کو ئی قربا نیاں ہیں بلکہ ان کا فریضہ تو مسلما نوں کی قیادت کو نیچا دکھا نا تھا اور اس فرض کو انھوں نے بڑی دیانت داری سے سر ا نجام دیا تھا۔ علامہ اقبال انکی اس ذہنی کیفیت سے بخو بی آگا ہ تھے لہٰذا انھوں نے اس طبقہ کے بارے میں جا بجا اپنی فکر کے دل آویز پھول کھلا ئے ہیں۔
مکتب و ملا و اسرارِ کتاب۔۔۔۔کورِ ماد ر زاد و نورِ آفتاب
دینِ کا فر فکر و تد بیرِ جہاد۔ ۔ د ینِ ملا فی سبیل ا للہ فساد ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

مذہبی پیشوا ئیت کے امام (جمعیت العلما ئے اسلام ہند کے امیر)مولا نا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے درمیان دین اور وطن کے نام سے جو شہرہِ آفاق بحث چھڑی تھی اسے اہلِ نظر اور اہلِ علم لوگ کبھی فرا موش نہیں کرسکتے۔ مذہبی پیشوا ئیت کا گروہ وطن کی بنیاد پر تشکیلِ وطن چا ہتا تھا جب کہ علامہ اقبال اور انکے معتقدین عشقِ رسول کی بنیاد پر تشکیلِ امت کا علم بلند کئے ہو ئے تھے اور طوفان انگیز لمحوں میں وہ لوگ جو عشقِ رسول ﷺ میں علامہ اقبال کے شانہ بشا نہ کھڑے تھے اس میں ایم ڈی تا ثیر بڑے نما یاں تھے۔ علامہ اقبال کو مذہبی پیشوا ئیت کی اس با طلانہ سوچ سے اتنا رنج پہنچا کہ عشقِ رسول میں ایک ربا عی آہ بن کر ان کے دل سے نکلی اور اس نے مذہبی پیشوا ئیت کے طلسم کدہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ یقین کیجئے توہیں رسالت کی مرتکب مذہبی پیشوا ئیت ہے نا کہ اس ملک کے وہ شہری جو عشقِ رسول میں مکمل ڈوبے ہوئے ہیں ۔
عجم ہنوز ندا ند رموزِ دین ورنہ۔۔ ز دیو بند حسین احمد ایں چہ بو العجبی است۔۔
سرور بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است۔۔۔چہ بے خبرز مقا مِ محمدِ عربی است
بمصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ او است۔۔اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

ذوا لفقار علی بھٹو نے ۷۶۹۱ ا میں پاکستان پیپلز پا رٹی کی بنیا دیں رکھیں اور مذہبی پیشو ائیت کے ظلم و جبر کی تحلیق شدہ ان کی خدائی کو چیلنج کیا تو مذہبی پیشوا ئیت نے ذوا لفقار علی بھٹو پر کفر کے فتوؤں کی بو چھاڑ کر دی لیکن بھٹو صاحب نے مذہبی پیشوا ئیت کو جسطرح سے چاروں شا نے چت کیا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف شاہی مسجد کے امام کا فتو یٰ بھی لوگوں کے اذہان میں ابھی تک تا زہ ہے۔

مذہبی پیشوا ئیت کا روزِ اول سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ یہ نفرت انگیز فتوے جاری کرتی ہے لیکن سچا ئی کے پروانے انسا نیت کے احترام کی شمعیں اپنے لہو سے روشن کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پار ٹی کے چیر مین ذوا لفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا امتِ مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا تھا لیکن اسکو اتنی شاندار خدمات کا صلہ یہ دیا گیا کہ اس کے خلاف تحریک چلا کر اس کا عدالتی قتل کر ڈالا اور پھر اس قتل پر خوشیوں کا اظہار کیا گیا ۔ آج پی پی پی کے ایک اہم راہنما سلمان تا ثیر کو تو ہینِ رسا لت کے الزام میں دن دھا ڑے قتل کر دیا گیا۔ قادیا نیو ں کو غیر مسلم قرار دینا سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے محبت اور عقیدت کی انتہا ہے لیکن جنھوں نے ایسا کیا تھا ا نھیں ہی واجب القتل قرار دے کر انکی ساری خدمات کو نظر انداز کر دیا گیا یہ الگ بات ہے کہ تاریخ نے انھیں عوامی محبوبیت کی مسند عطا کر دی۔
ہما رے ہی خون سے چمن کے پھول مہکے۔۔۔ہمیں کو چن لیا صیاد نے شکار کے لئے ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

اگر ہم تاریخِ اسلام کا بنظرِ عمیق مطا لعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفےﷺ نے اپنے بد ترین دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا تھا۔ ابو سفیان کی بیو ی ہندہ کی سفا کیت تاریخ کے اوراق میں اپنی بے رحمی اور بر بریت کی ا یسی مثال ہے جس سے ہر انسان کا دل لرز اٹھتا ہے لیکن سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے اسے بھی معاف فرما دیا ۔ عکرمہ بن ابو جہل کی سازشوں اور تضحیک آمیز رویے سے کون آگا ہ نہیں ہے لیکن جب وہ معافی کا طلبگار ہوا تو سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے اسے بھی معاف فرما دیا حتیٰ کہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان کے گھر کو امن اور پنا ہ کے اعزاز سے نواز دیا ۔ سفرِ طائف میں چند اوبا شوں نے پتھروں سے سرکارِ ِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ کو لہو لہان کر دیا۔ سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے ایسے لمحات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا بلکہ عفو و در گزر کا ایسا نادر بے مثال اور بے نظیر مظا ہرہ کیا جو بلا شبہ انسا نیت کی معراج ہے۔ ایسے دلخراش لمحات میں جبرا ئیلِ امین حا ضر ہو ئے اور عرض کی اللہ تعا لیٰ کا پیغام ہے کہ اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو پہا ڑوں کو اس بستی پر الٹ کر تبا ہ و برباد ہ کر دیا جا ئے لیکن سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے ارشاد فرما یا کہ نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ انہی لو گوں کی نسل سے ا سلام سے محبت کرنے والے لوگ پیدا ہو جا ئیں۔ انسا نی جان کی قد رو قیمت اور حرمت کے پیشِ نظر سرکارِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے اہلِ طائف سے نہ انتقام لیا نہ ان سے کو ئی باز پرس کی اور نہ انکے قتل کا حکم دیا لیکن ہمارے ہاں ایک غاصب کی آئینی ترمیم پر جو اس نے چند سال قبل اپنے مخالفین کو پھا نسنے کےلئے کی تھی اس پر اظہارِ خیال کرنے پر پنجاب کے گو رنر کو قتل کر کے فتح کے شادیانے بجا ئے جاتے ہیں جو کہ سراسر اسلام کی روح کے منا فی ہے ایک آمر کے قانون پر اظہارِ خیال توہینِ رسالت کیسے بن سکتا ہے۔ سیرت ا لنبی ﷺ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ انسانوں کی زند گی کا چراغ گل کر نے کا اختیار کسی بھی شخص کو حا صل نہیں چا ہے وہ شخص مقبولیت کی معرا جِ ِ کبری پر ہی فا ئز کیوں نہ ہو۔

مقامِ افسوس ہے کہ رحمت للعالمین اور محبوبِ خدا کی امت آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں پر ملکِ خداداد پاکستان کی مذہبی پیشوا ئیت اپنے ہی مسلمان بھا ئیوں کو اپنی ذاتی انا کی خاطر قتل کرنے کے فتویٰ جا ری کر رہی ہے۔ کیا ہم پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ سرکارِ ِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺسے محبت کے لئے ہمیں مذہبی پیشوا ئیت سے سرٹیفکیٹ لینا پڑنا تھا۔ یاد رکھو سرکارِ ِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے ہمیں اس وقت بھی محبت تھی جب تو ہینِ رسا لت کا کو ئی قانون نہیں تھا اور اس وقت بھی ر ہے گی جب توہینِ رسالت کا کو ئی قا نون نہیں ہو گا۔ ہماری محبت قانون اور ضابطوں کی محتاج نہیں ہے بلکہ یہ عشقِ مصطفے ﷺ کی ایسی دلکش ڈوری میں بندھی ہو ئی ہے جو ا صلِ حیات بھی ہے اور جو ہرِ زندگی بھی ہے۔مذہبی پیشوا ئیت کے فتووں کی ہمارے لئے نہ کل کو ئی حیثیت تھی اور نہ آئیندہ کو ئی حیثیت ہو گی کیو نکہ ہمارے دلوں میں آقا ئے دو جہا ں ﷺ کی انمٹ محبت فتوؤں کی اس خود ساختہ دنیا سے بہت بلند اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہے۔۔۔
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب ۔۔۔ گنبدِ آبگینہ رنگ ،تیرے محیط میں حباب
شوق تیرا گر نہ ہو ،میری نماز کا امام ۔۔۔ میرا قیام بھی حجاب ،میرا سجود بھی حجاب ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.