مسلمان ملکوں میں بے چینی کے اسباب

اس وقت مسلمان دنیا کے کونے کونے میں عتاب کا شکار نظر آتے ہیں۔ آخر انہیں کے ساتھ ایسا کیوں ہے یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے دنیا کوسویلائیزیشن کا درس دیا آج اپنے ہاں کسی نظام کے اجراء سے معذور نظر آ رہے ہیں۔ مسلمان اس محمد ﷺ کی امت ہیں جو پوری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ انہوں نے دنیا کے لئے ایک مکمل دین اسلام دیا اور صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو ہر دور کے مسائل حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دین کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف اتارا جس میں مکمل ضابطہ اخلاق کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے کے مسائل کے لئے ہدایات موجود ہیں۔ دوسری نہایت اہم بات اللہ کا اس قرآن کی قیامت تک حفاظت کا زمہ لینا بھی ہے۔ اس لئے کفار کے تمام ترین حربوں کے باوجود یہ اپنی ا صلی حالت میں موجود ہے ، اور رہے گا، یہ کلام دنیا کے ہر کونے کے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلا رہا ہے۔

لیکن جب بھی مسلمانوں نے اللہ کے احکامات سے بے رخی اختیار کی انہیں اللہ کی مدد بھی حاصل نہ رہی اور وہ زلیل و خوار ہوئے۔ جیسا ہم آج پوری اسلامی دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے دشمن ان پر حاوی ہو گئے ان کا خوف انکے دلوں پر بیٹھ گیا۔ وہ زلت آمیز غلامی میں گرفتار ہو گئے۔ پوری اسلامی دنیا کے حکمران اپنے ملک میں اسلامی نظام کے اجراء کرنے میں بھی آزاد نہیں ہیں ۔ کوئی متفقہ موقف اختیار کرنے کی ہمت بھی نہیں کرتے۔ انہیں اپنی جان اور حکومت جانے کا خوف سوار ہو جاتا ہے۔ غیر ملکی ان کے اس اقتدار کی خواہش کے لالچ سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھ کر ان کی گردنوں میں غلامی کا سنہرہ پھندہ ڈال کر انکے پورے ملک کو اور اسکے وسائل پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں۔ کچھ کک بیکس کا کمال ہوتا ہے۔ جس پر ان حکمرانوں سے طویل مدتی معاہدے کر کے اپنے مفادات کے نام پر ان ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیتے ہیں۔ یہ ہر مسلمان ملک میں اپنے حمائتی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان ممالک میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لیں کہ مسلم ممالک میں حکومتیں بھی انکی مرضی سے بننے اور ٹوٹنے لگیں۔

آپ ۱۹۱۸ء کے بعد خلافت کے خاتمے میں مغربی ممالک اور امریکی حکمرانوں کے مسلما ن خطہ میں عملی مداخلت کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں ۔ عربی عجمی کا ہوا کھڑا کر کے آپس میں کدورت اور نفرت پیدا کی گئی اس پر عربوں کو خلافت کا وارث قرار دے کر انہیں ترکوں کے خلاف صف آرا کر خلافت کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں ۔ عربوں سے اپنے مفادات اور اسکے اجرا کی دستاویزات پر دستخط کرا لئے جس میں یہودی ملک اسرائل کے قیام کی منظوری بھی تھی۔ لیکن خلافت قائم نہ ہونے دی گئی ۔ آپ عربوں کا رویہ دیکھیں کہ خلافت کے اجراء کے لئے صہونیوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔ لیکن ان عربوں کو دھوکا دے کر اپنی غلامی پر مجبور کر دیا ۔ پہلے تو وہ عرب ان کا ساتھ دیتے رہے لیکن جب انہوں نے احتجاج شروع کیا تو پھر دنیا گواہ ہے کہ کس طرح ایک ایک کر کے خلافت کے متمنی افراد کا خاتمہ کیا جاتا رہا کتنے حکمران معزول کئے گئے کتنے مسلمان حاکموں کا سیاسی قتل کیا گیا تاکہ صہونی بالا دستی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اور آج صہونیوں کا ایک مقصد ہے کہ مسلم قوت کو متحد ہونے کے تمام امکانات کو شدت سے کچل دیا جائے مسلم قوت کے خلافت کے مطالبہ کی آواز اٹھانے والوں کا خاتمہ ہی انکی اولین ترجیح ہے۔

اور ایسا کیوں ہے۔ سوچیں اتنے کمزور مسلم ممالک آخر اتنے بڑے بڑے ممالک کا کیا بگاڑ لیں گے اور وہ انسے اتنے خائف کیوں ہیں۔ اس کا جواب تو سیدھا سا ہے کہ کل اگر یہ ممالک کوئی متفقہ موقف اختیار کر لیتے ہیں اور متحد ہو جاتے ہیں تو خلافت بھی قائم ہو سکتی ہے ۔ اور وہی خلافت جس کو ختم کرنے میں انہیں ہزار سال شدید جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ اپنی سرزمینان مسلمانوں کی طاقت کے آگے سرنگوں کرنا پڑی تھیں ۔ عمادالدین زنگی ۔ نورالدین زنگی اور عظیم صلاح الدین سالار نے انہیں ان کو صلیبی جنگوں میں اتنا مار لگائی تھی کہ انکی افرادی قوت کا خاتمہ کر کے انکی لڑنے کی صلاحیت کا خاتمہ کر دیا جس کے بعد ان میں مملوکوں کے خلاف مزاحمت بہی مشکل ہو گئی اس کے باعث مملوکوں نے مشرقی یورپ پر اپنی دسترس قائم کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی اور اس خطہ میں ۶۰۰ سال اقتدار قائم رکھا۔

مغرب نے مسلمانوں سے جنگوں کے ہولناک نتائج کی باعث ان سے براہ راست جنگ سے اجتناب کیا اور سازشوں سے ان پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ جس میں انکو حیرت انگیز کامیابی ملی ۔ اسی بنیاد پر وہ بغیر لڑے مسلمانوں کو اتنے شدید نقصان سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ جس کے باعث نہ صرف وہ مسلمان طاقت کو مشرقی یورپ سے نکالنے میس کامیاب ہوئے بلکہ ان کی خلافت کا بھی خاتمہ کر کے انہیں اپنی غلامی میں لینے میں کامیاب ہو گئے۔ ان غیر ملکوں نے جس کا لیڈر شپ انگریز یعنی تاج برطانیہ کے پاس ہے پوری دنیا کا نقشہ اس طرح ترتیب دے دیا جس کے باعث ان مسلم قوت کے گرد ایک مضبوط حصار قائم کردیا گیا اور انہیں ایک مضبوط طاقت بننے کے امکانات ہی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ مسلم ریاستوں میں فوجی اڈے اور ہولناک اسلحے سے لیس بحری بیڑے ان ممالک کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں۔

دنیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھ لیں برطانیہ کی صہونی دنیا کے تحفظ کا منصوبہ بظاہر کامیا بی سے ہمکنار ہوا ہے۔ عرب قوت کو قابو رکھنے کے لئے اسرائیل کا قیام ۔ کالے افریقہ کو قابو میں رکنھنے کے لئے جنوبی افریقہ ، ایشین ملکوں کو قابو رکھنے کے لئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، ایک طرف پورا بر اعظم امریکہ ، انہوں نے امریکہ کو سامنے لا کر اسے اپنی کرائے کی فوج کے طور پر پرورش شروع کر دی اور اپنی نسلوں کا تحفظ کر لیا ہے چونکہ ساری بد معاشی کرنے اور رد عمل کے خوف سے اس نے امریکہ کو اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ وہ کھلی بد معاشی سے مسلمانوں کی نسلوں تک برباد کرنے کے لئے وھشت ناک کاروائیاں کرتا ہے۔ ادھر اسرائیل اور انڈیا اس مقاصد کے لئے تیار کروائے کے کرائے کی فوج کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک مقصد اپنے تحفظ کو یقینی بنانا اور اپنی روا رکھی گئیں پالیسیوں کے متوقع رد عمل سے بچنا بھی ہے۔ ہم جب تک اسے اپنے علاقوں سے باہر نہیں کریں گے اسکی ہمارے ملک میں سازشیں اوربدمعاشیاں ایسے ہی جاری رہیں گی۔ مسلمان دنیا میں انکی اطاعت کرنے والے اپنی حکمرانی قائم رکھتے ہیں جبکہ ان کی اطاعت کے منکر ضدام حسین کے سے انجام پر پہنچ جاتے ہیں۔ا س دور کی حالیہ مثالیں ہیں۔

پاکستان میں غلام ممد نے امریکی مداخلت کا دروازہ کھولا۔ باقی سب گواہ ہیں کہ کیا کچھ اس ملک میں ہوتا رہا۔ ہم تو کرائے کی فوج ( امریکی فوج) کے لئے بھی اتنی بڑی اسلامی فوج کو انکے مقاصد کی تکمیل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جو اپنے ملک کے عوام ہی کا خاتمہ کرنے کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں ۔ اور اب بھی اپنے مسلما ن بھائیوں کے قتل میں براہ راست شرکت کر رہے ہیں۔ ایک اسلامی اور جذبہ جہاد سے لیس قوم کس طرح صہونیوں کی غلامی کر رہی ہے۔ جب کہ اس ملک کا کام مسلم امہ کے تحفظ ہے۔ اس ملک میں صہیونی غلبہ کی چھاپ نمایاں تصویر کی منظر کشی نہیں کرتی ۔ یہ کیا امہ کی خدمت کرے گی ان حالات میں اسے اپنے صہیونی آقاؤں کا مفاد زیادہ عزیز ہے۔ اس قوم کی بد نصیبی کہ اپنی محافظ قوت یعنی فاٹا کی فرنٹ لائن قوت کا خاتمہ کر کے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنا ہے۔

صوبہ بلوچستان میں حکمرانوں نے امریکہ کو کس معاہدے کے تحت اپنے پیر جمانے کا موقع فراہم کیا محب وطن قوتیں اسکے اصرار اور معاہدوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ بلوچستان میں انکی بڑھتی ہوئی مداخلت اسے علیحدگی کی تحریکوں کی جانب بہت تیزی سے لے جا رہے ہیں ۔ اس میں حکمران، سیاسیت دان، عدلیہ، اور عسکری ادارے برابر کے شریک ہیں ۔ اور اگر وہ اس سے نابلد ہیں تو انہیں اپنے مناصب پر رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، محب وطن ان سب کا محاصبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے ۔ کیونکہ محب وطن مشرقی پاکستان کی یاد سینوں سے لگائے آج بھی بیٹھے ہیں۔ کن معاہدوں کے تحت امریکہ بلوچستان، جیکب آباد’ کوئٹہ اور کراچی میں اپنے لئے بڑے بڑے مضبوط باؤنڈریوں کے حامل علاقوں کی تعمیر کر رہا ہے۔ جس پر حکومت کوئی کنٹرول بھی نہیں رکھ سکتا، تمام مسلمان ممالک کے عوام ان سازشی قوتوں کے اثرات زائل کرنے کے اقدامات کریں۔ غیر ملکی عناصر اور انکے ایجنٹ ان ممالک میں انتشار پھیلا کر مسلم اتحاد کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں۔ مصر، الجیریا، سوڈان، عراق ، پاکستان، وسط ایشیائی نو آزاد ریاستیں، افغانستان ان سب میں صہونی بلکہ عیغیر مسلم ممالک سرکردگی میں اجتماعی مداخلت سے قتل و غارت اور انارکی پھیلائی جارہی ہے۔ اور مسلم حکمران انکی دوستیوں کے قصیدے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔

انڈونیشیا کے خطہ میں ایسٹ تیمور کا وجود فوراً ہو جاتا ہے، سوڈان پر دسرترس حاصل کرنے میں بڑی عجلت دکھائی جاتی ہے۔ وہاں بغاوت کھڑی کرنے میں مغرب اور صہیونی گٹھ جوڑ ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ الجیریا، مصر سوڈان ، پاکستان افغانستان میں مذہبی مخالفانہ جذبات کو بھڑکا کر مسلمانوں کے قتل عام کو تحریک دی جا رہی ہے ۔ حالات خراب کرنے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ بوسنیا میں سربوں کی مکمل پشت پناہی کر کے نہتے مسلمانوں کامنظم قتل عام، عراق میں صدام کی آڑ میں لاکھوں نہتے مسلمانوں کا قتل عام، افغانستان میں طالبان کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام، پاکستان میس دھشت گردی کی آڑ میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام ، ٹارگیٹ کلنگ بم دھماکے، فرضی ، ڈرامے بنا کر طالبان کی مسلسل کردار کشی اور ان کے قتل عام کا بے بنیاد جواز۔ فلسطین اور کشمیر میں کئی دھائیوں سے جاری ریاستی قتل عام، مہذب دنیا کے عزائم کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ اس سفاکانہ قتل عام کا جواز جس میں بے گناہ لوگوں کو بلا تفریق قتل کیا جا تا رہا ہے دینے کو تیار ہیں۔ اتنا قتل عام پوری جنگ عظیم میں بھی شاید نہ ہوا ہو جتنا قتل عام مسلمانوں کا دھشت گردی کے نام پر ہورہا ہے۔ اس خون ناحق کا حساب لینا کس کی ذمہ داری ہے، مسلم حکمرانوں سے یہ سوال ہے۔ یہ صہونیوں کی نافذ کی ہوئی صلیبی جنگ ہے، مسلمان اس جنگ میں کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ کریں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82073 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More