انسانی فکر میں اختلاف اور طرز
فکر میں تنوع کا ہونا ایک فطری بات ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی نشوونما اور
ارتقاء کی بہت بڑی ضرورت۔ لیکن جب کسی قوم کا برا وقت آتا ہے تو پھر انسانی
فطرت میں رکھی ہوئی بہت سی خیر معطل ہو جاتی ہے بلکہ کچھ ایسا رخ اختیار
کرلیتی ہے کہ یہ اس معاشرے یا قوم کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا ذریعہ بن جائے۔
جب کوئی قوم اس دنیا کے لئے مثبت رول ادا کرنے کے قابل ہوتی ہے تو یہی فکری
تنوع اس معاشرے کا ایک اثاثہ ہوتا ہے۔ لیکن جب یہی قوم اس عالم کے لئے ایک
بوجھ بن جاتی ہے تو پھر یہی فکری تنوع ایسا اختلاف اختیار کرلیتا ہے کہ ان
کا اپنا اثاثہ ان پر بوجھ بن جاتا ہے۔ شاید یہ عمرانی بقائے اصلح(survival
of fittest) کا کوئی فطری قانون ہے۔
امریکی معاشرے میں بھی کچھ اس طرح کے اختلافات ابھر کر آرہے ہیں جس کے دور
رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ نائن الیون کے نو سال کے بعد بھی اسلامو فوبیا
کا طوفان تھمتا بڑھتا کچھ اس طرح سے لہریں لے رہا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں
آرہا ہے۔امریکہ میں مقیم مسلمان جان توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے
امریکی عوام یہ سمجھیں کہ "شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا اسلام اصل نہیں ہے۔
بلکہ اسلام تو امن کا مذہب ہے۔ اصل مسلمان تو امریکی مسلمان ہیں"۔ لیکن اس
جان توڑ کوشش کے باوجود امریکہ کی اکثریت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں
ہے۔امریکہ کے دانشوروں کا طبقہ کسی طرح سے کوشش کررہا ہے کہ امریکی عوام
ایک ایسے کٹے پھٹے اسلام جو کہ مغربی تہذیب کو کوئی چیلینج کرتا نظر نہ آئے
کو ہی قبول کرلیں تاکہ مزید شدت پسندی کو روکا جائے۔ لیکن عوام اس کو رد
کیے جارہے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ ایک عام امریکی مسلمان اس وقت الجھن میں
ہے کہ امریکہ میں کبھی بھی اسے اپنا سمجھا جائے گا۔ واضح ہو یہ صورت حال اس
سب کے باوجود ہے کہ امریکہ کی تقریباً تمام معروف مسلمان شخصیات نے نائن
الیون کی کڑی مذمت کی ہے اور اس کو اسلام کے منافی عمل قرار دیا ہے۔
اگرچہ کہ قرآنی صحیفوں کو جلانے کے اعلان کو امریکی ضمیر نے تسلیم نہیں کیا
اور پورے امریکہ میں اس کی مخالفت کی گئی، لیکن امریکہ نے اپنی برداشت کی
حد کا اظہار پھر بھی کردیا۔ امام فیصل عبد الرؤف نے نائن الیون کے جائے
وقوعہ سے کچھ آگے ایک بڑے جدید قسم کے اسلامی سینٹر کا اعلان کیا جس میں
ٹینس کورٹ اور سومنگ پول بھی ہونگے اور چونکہ یہ ایک اسلامی سینٹر ہوگا اس
لئے یہاں پر مسجد بھی ہوگی۔ پھر کیا تھا پورے امریکی میڈیا میں ہنگامہ برپا
ہوگیا کہ مسلمان گراؤنڈ زیرو (سابقہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جگہ) پر مسجد بنانے
جارہے ہیں۔ امام فیصل صاحب بے چارے اس اسلامی سینٹر کے ذریعے سے امریکی
عوام کو ایک "مثبت پیغام" دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ عام امریکی مسلمان
نائن الیون کے واقعے کی مذمت کرتا ہے اور امریکی عوام کے ساتھ ہے۔ لیکن
امریکہ کی شدت پسند لابی ایسے کسی پیغام کو امریکی عوام تک پہنچنے سے روکنا
چاہتی ہے۔ مسئلہ صاف ہے۔ امریکہ کی ایک خاصی تعداد کے لئے اصل مسئلہ شدت
پسندی نہیں بلکہ اسلام ہے اور صحیح تر بات یہ ہے کہ اسلام بھی نہیں بلکہ
اسلام کا نام ہی اصل مسئلہ ہے۔ یہ امریکی مسلمان ایسے اسلام کی نمائندگی
کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں کوئی انقلابی پیغام نہیں ہے، کوئی تبدیلی
کی دعوت نہیں ہے بلکہ حق اور باطل میں فرق ہی نہیں۔ لیکن شاید امریکہ کے
کسی بھی مسلمان کے لئے اپنے مذہب کا نام تبدیل کرنا بہت مشکل ہوگا۔
اسی سلسلے کی ایک اور خبر کافی دلچسپ ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے اسکول
بورڈ نے کتابوں کے پبلشر کو وارننگ دی ہے کہ نصابی کتابوں میں عیسائیت کے
خلاف مواد پیش نہ کریں اور اسلام کو زیادہ مثبت انداز میں واضح نہ کیا
جائے۔ بلکہ اسی ٹیکساس اسکول بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ اگلے دس سال میں
غلامی کی اچھائیوں اور غلامی کے بیوپار کے امریکی معیشت پر مرتب شدہ مثبت
اثرات کے بارے میں بھی سکھایا جائے گا۔ شاید یہ اپنے سیاہ ترین ماضی کو
جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ واضح ہو کہ یہ وہی امریکہ ہے کہ ایک طرف
کٹر عیسائی امریکی معاشرے پر کسی طرح اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں
اور دوسری طرف یہی امریکہ لادینیت، مادر پدر آزادی اور ہم جنسیت کا گڑھ ہے۔
آنے والا وقت بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا |