پاکستان تحریک انصا ف کی حکومت بننے جارہی ہے۔بظاہر کوئی
رکاوٹ نہیں ہے۔اگلے چند دن بعد عمران خاں وزیر اعظم پاکستان ہونگے۔اور ان
کے قریبی ساتھی خاص وزارتوں پر براجمان ہونگے۔عمران خان نے ابھی وزات عظمیٰ
کا حلف نہیں اٹھایا مگر انہوں نے کچھ ایسے اقداما ت کا اعلان کیا ہے جو
امید افزا ٗ ہیں۔اول تو انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کو استعمال نہ کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔اس کے متبادل کے طور پر کئی مقامات زیر غور تھے۔تاہم آخری
اطلاعات تک پنجاب ہاؤس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ا س اقدام کا بنیادی مقصد غریب
قوم پر حکومتی شاہ خرچیوں کا بوجھ کم کرنا ہے۔عمران خاں سادگی اور کفایت
شعاری کی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ پرائم منسٹر
ہاؤس اپرائم منسٹر آفس کے استعمال پر کروڑوں کے اخراجات ہورہے تھے۔تحریک
انصاف کی قیادت بچت کرکے یہ پیسے عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرنا چاہتی
ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے ایک اور خوشگوار مظاہرہ تب دیکھنے کو
ملا جب عمران خاں پشاور کی سڑکوں پر بغیر پروٹوکول کے سفر کرتے دکھائی
دیے۔ان کے ہمراہ سابق وزیر اعلی ٰ کے پی کے پرویز خٹک،بابر اعوان اور اسد
قیصر وغیرہ موجود تھے۔عمران خاں کی گاڑی ٹریفک سگنل پر رکتی بغیر پروٹوکول
کے سفر کرتی رہی۔اس اقدام کے ذریعے قوم تک یہ پیغام پہنچا نا مقصود تھا کہ
تبدیلی آچکی۔اب حکومت پر عیاش اور نواب قسم کے لوگ قابض نہیں بلکہ اچھے اور
سادگی پسند لوگ آچکے۔
عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے تبدیلی کا نعرہ اتنی بار
لگایا ہے کہ اب ان کے لیے کچھ بڑا کیے بغیر جان چھڑانا آسان نہ ہوگا۔انہوں
نے سادگی کا نعرہ لگایا۔انہوں نے کرپشن سے پاک پاکستان کی بات کی۔وہ نئے
پاکستان کی بات کرتے رہے۔ایسا پاکستان جہاں غربت نہ ہو۔کرپشن کا نام ونشان
نہ ہو۔جہاں انصاف ملے۔قانون کی حکمرانی ہو۔ادارے اپنی اپنی حدود میں کام
کریں۔عمران خاں کی باتیں اچھی ہیں۔وہ ایک نیا پاکستان چاہتے ہیں۔مگر اس نئے
پاکستان کی تعمیر آسان نہ ہوگی۔انہیں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا
ہوسکتاہے۔انہیں اس مافیا کی زبردست مخالفت کا سامنا ہوگا جو کسی طور پر
تبدیلی نہیں چاہتا۔اس طبقے کے مفادات اسی پرانے پاکستا ن سے وابستہ
ہیں۔لاقانونیت۔دھونس۔دھکے شاہی کا ماحول انہیں راس ہے۔وہ عمرا ن خاں کی راہ
میں قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالے گا۔عمران خاں کی نیت پر کوئی شک نہیں۔ان کی
سمت اور طریقہ کار پر سوالات بلا شبہ اٹھائے جاسکتے ہیں۔یہ باتیں طے ہونے
والی ہیں کہ آیا عمرا ن خاں کی ترجیحات کی ترتیب درست ہے۔یا اس میں کسی قسم
کی اصلاح کی گنجائش موجود ہے۔کیا ان کی بھاگ دوڑ کسی نتیجے پر بھی پہنچے گی
یا وہ بے ثمر تکان کے شکار ہونگے۔
تماشہ گروں نے اہل جمہور کے لیے ایک دائرہ کھینچ رکھا ہے۔اس دائرے کے اندر
اہل جمہور جتنی مرضی چاہیں اچھل کود کرلیں۔اس کی گنجائش رکھی گئی ہے۔اہل
جمہورجو چاہے ڈرامے کریں۔پلاننگیں کریں۔سبز باغ دکھائیں۔خیالی پلاؤپکاتے
رہیں اس دائرے کے اندر اندر ان سب معاملات کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ اس
دائرے کو کراس کرنے کی البتہ اجازت ہرگز ہرگز نہیں۔اہل جمہور آرہے
ہیں۔جارہے ہیں۔ا س دائرے کے اندر بڑی بھاگ دوڑ دیکھی جاتی رہی۔مگر کوئی
نتیجہ برامد نہیں ہوا۔وجہ صاف ظارہ ہے یہ دائرہ بنا۔جو معاملات فیصلہ کن
اختیار سے جڑے ہیں۔وہ اس دائرے میں نہیں آتے۔بڑے فیصلے کرنے کا حق دائرے کے
اندر کام کرنے والوں کو نہیں دیا جاتا۔ایسا ستر سالوں سے ہورہاہے۔شاید اگلے
ستر سالوں تک بھی ہوتارہے۔شاید اس کے بعد بھی۔سالہ تاریخ میں نوازشریف پہلے
شخص ہیں جنہوں نے اس دائرے کو کراس کرنے کی جرت کی۔وہ بہت آگے تک چلے
گئے۔ان کے خلاف کوششیں رائیگاں ہونے کا سبب غیر متوقع پیش رفت تھی۔دائرہ
قائم کرنے والی قوتوں کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔اس لیے زیادہ
توجہ نہ دی گئی۔اب جیسے جیسے صورت حالی کی سنگینی کا احساس ہورہا
ہے۔نوازشریف پر سخت بڑھائی جارہی ہے۔ان کے علاوہ اہل جمہورمیں سے کوئی بھی
اس دائرے کو کراس کرنے کی جرت نہیں کرپایا۔شاید کسی نے اس کی ضرورت نہیں
نہیں محسوس کی۔اکثریت کے اہل جمہور مہمان اداکار کی طرح آتے ہیں۔اپنے نام
کے ساتھ کسی بڑے عہدے کا لیبل لگواتے ہیں۔کچھ پاتے ہیں۔اور چلتے بنتے
ہیں۔اس سسٹم کو نہ کسی نے سمجھنے کی کوشش کی نہ ہی کسی کو اس کے سمجھنے میں
دلچسپی ہے۔یہ مخلوق اس دائرے کے اندر کی اچھل کود سے خوش ہے۔اسے کنویں کی
اس مینڈکی کے کھیل پر اطمینان ہے۔ چھوٹی موٹی کوششوں پر خود کو طرم خاں
سمجھنے والے بار بار انقلاب لے آنے کا دعو ی کرتے ہیں مگر ا ن کا دعوی ان
کے اقتدارسے باہر ہوتے ہی مٹ جاتاہے۔عمرا ن خاں سادگی۔کفایت شعاری۔بغیر
پروٹوکول گھومنے جیسی چھوٹی موٹی اچھل کود پر اگر اترارہے ہیں توحیرت نہیں
ہوتی۔کنویں کی مینڈکی کا یہ کھیل پہلے بھی بہت بار کھیلا گیا۔مگر اس سے اب
تک کچھ برامدنہیں ہوا۔ |