’تجدید و احیائے دین‘ نامی کتاب کی روشنی میں تشکیل جماعت
کے پس منظر کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔اس کتاب میں نبی اور مجدد کے کام کی
مماثلت بیان کی گئی ہے۔ ان کے مزاج کی یکسانیت پر بھی روشنی ڈالی گئی
ہےاورکارِ تجدید کا اصل منشاء جاہلیت کے تسلّط کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔
مولانا مودودی ؒ کے مطابق ایک مجدد اللہ کی عطا کردہ بصیرتسے حالات کا
معروضی جائزہ لے کرمعاشرے پر جاہلیت کی گرفت کا اندازہ لگاتا ہے ۔ اِس کے
بعد وہ احیائے دین کی خاطر جاہلیت کو اس جگہ ضرب لگاتا ہے کہ اس کی کمر ٹوٹ
جائے۔ اس کتاب میں خلافتِ راشدہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے لے کر
شاہ ولی اللہؒ تک مختلف ادوار میں اٹھنے والی تجدیدی تحریکات پر بے لاگ
تبصرہ بھی کیا گیاہے۔’تجدید واحیائے دین‘ کا تاریخی تجزیہ پیش کرنے کے بعد
مولانا نے جماعت کے قیام کو کارِ تجدید کاتسلسل قرار دیا اور نصیحت فرمائی
کہ وابستگانِ جماعت کو ماضی کے تجربات اوربزرگوں کی قربانیوں سے حوصلہ و
ترغیب حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی لغزشوں سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے۔
اس کتاب میں مولانا مودودیؒ کے ذریعہ تحریک شہیدین کا دیانت دارانہ جائزہ
مشعلِ راہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد رفعت مولانا موصوف نے سرزمین
ہند پر اٹھنے والی پہلی اسلامی تحریک کی ناکامی کے پسِ پشت تین بنیادی
وجوہات بیان کی ہیں۔ اسی کی روشنی جماعت اسلامی پاکستان کی انتخابی ناکامی
کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔’’تحریک شہیدین‘ کی ناکامی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ
قائدین نے ’مغربی طاقتوں خصوصاً انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجوہات اور
اس کے پیچھے کارفرما سماجی وتاریخی عوامل کی کوئی تحقیق نہیں کی‘‘۔ جماعت
کو بھی انتخابی میدان میں کامیاب ہونے والی حریف جماعتوں کے پیچھے کارفرما
سماجی عوامل کا کماحقہُ جائزہ لینا چاہیے۔ اس میں کوتاہی جماعت کو حقیقت سے
دور ایک خیالی دنیا میں مصروف کار رکھتی ہے اور ہم اس قدر خوش فہمیوں کا
شکار رہتے ہیں کہ راہوں کی ٹھوکر بھی ہمیں خوابِ خرگوش سے بیدار کرنے میں
ناکام رہتی ہے۔
دوسری وجہ ماضی کی تحریک نے ’ مسلمانوں میں جاری روایتی تصوف کی کمزوریوں
سے واقف ہونے کے باوجود اِس تصوف کی رائج اِصطلاحات سے پرہیزنہیں کیاگیا،
جب کہ احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ جرأت کے ساتھ مروجہ تصوف میں اِصلاح کی
جاتی‘ ۔ہم بھی مغرب کی رائج کردہ اصطلاحات کو مسترد کرکے ان کا متبادل پیش
کرنے کے بجائے ان کا کا بے دریغ بلا احتیاط استعمال کرتے ہیں جس سے حق و
باطل آپس میں گڈ مڈ ہوکر رہ جاتا ہے۔ مثلاً جمہوریت کے بحالی والی اصطلاح
کا من و عن استعمال نیز اسلام نظام باطل کا متبادل کے طور پر نہیں بلکہ
محافظ و معاون کے طور سامنے آتا ہے۔ مولانا مودودی ؒ نے بڑی صاف گوئی سے
کام لیتے ہوئے تیسری وجہ یہ لکھی ہے کہ ’ سرحد کے علاقے میں عملی اقدام
کرنے سے قبل اُس علاقے کے عوام کو اِصلاحی انقلاب کے لیے تیار نہیں
کیاگیا‘۔
جماعت کو ٹھہر کر ان سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے انتخابی میدان
میں اترنے سے قبل عوام کو اصلاحی انقلاب کے لیے آمادہ کرلیا؟ اگر نہیں تو
کہیں ہم نے بھی توسماجی تبدیلی سے قبل از وقت سیاسی اقدام نہیں
کردیا؟پاکستان کے اندر انتخابات کے بعد جماعتی حلقوں میں یہ شعر خوب پڑھا
جاتا ہے ’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے میدانِ جنگ میں نہیں گرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ
وہ جنگ کے لیے میدان میں نہیں اترتے ۔ ویسےاگر کوئی بچہکسی کی مدد سے گھوڑے
پر سوار ہوکر میدانِ جنگ میں کودپڑے تو اس کا منہ کے بل گرجاناباعثِ حیرت
نہیں ہوگا ۔ ہمیں ہر انتخاب کے بعد اس شعر سےدل بہلانے کے بجائے اپنے دورِ
طفولیت کے خاتمہ کی سنجیدہ سعی کرنی چاہیے اور معروضی احتساب و جائزے کے
بعد ازسرِ نومستقبل کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے ۔
|