اندازے، قیافے، تجزیے، تبصرے اور امکانات سب اپنے انجام
کو پہنچے۔ جیتنے والے اپنی فتح کا جشن منا رہے ہیں اور شکست خوردہ شدید
تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ فتح یاب الیکشن کو شفاف ترین قرار
دے رہے تو ہارنے والے دھاندلی کا رونا رورہے ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔
ہر الیکشن پرفاتحین اور مفتوحین ایسے ہی متضاد رد عمل کا اظہار کیا کرتے
ہیں۔ خوشی اس امر کی ہے کہ منتخب پارلیمنٹ نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور
افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کیسا الیکشن تھا؟کہ جسمیں عدلیہ اور فوج جیسے
معتبر، محترم اور مقدس ادارے بھی متنازعہ بنا دیئے گئے ۔ سرحدوں کے رکھوالے
اور انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے معززین پر بے انصافی کے الزام لگتے رہے۔ فکری
انحطاط کے یہی مظاہرقوموں کے زوال کی تاریخ رقم کیا کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن
ہو، عدلیہ ہو یا فوج جب تک سبھی مقتدر اداروں کے درمیان عدل وانصاف کے ذریں
اصولوں کے مطابق ہم آہنگی نہ پائی جائے تو ترقی کے راستے مسدود رہتے
ہیں۔ہماری شعوری زندگی کا یہ پہلا الیکشن تھا جس میں معتبر اداروں پر زبان
درازی سمیت بزرگوں کی پگڑیاں اچھلتی دیکھیں۔ ایک ہی گھر کے افراد کو فقط
پارٹی وابستگی کے باعث اپنے ہی بزرگوں سے الجھتے دیکھا۔تلخ تجربات کی
جھریاں جن کے چہروں پر عیاں اور تاریخ کے ہزاروں مشاہدات جن کے بالوں کی
سفیدی پر رقم تھے،نسل نو کے ہاتھوں خوار ہوتے دیکھے اوراپنے ہی ہم جولی
مشکوک نظر آتے رہے۔دیرینہ ، دوستیاں ، محبتیں اور تعلقات میں شدید دراڑیں
آئیں۔ جن کے لیے ہم نے یہ نفرتیں پھیلائیں وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے، وہ
جیتے یا ہارے مگر آیندہ الیکشن تلک دکھائی نہیں دیں گے۔ خدا کے لیے ان
مخالفتوں کو سیاست کے کھیل تلک محدود کرتے ہوئے پلٹ آئیے اور اپنے بھائی
بندوں کو پھر سے گلے لگالیجئے کہ یہی آپ کے ماضی، حال اور مستقبل کے رفیق
ہیں۔ یادرکھیئے! اقتدار عطا کرنا اور واپس لینا فقط اللہ رب العزت کے قبضہ
قدرت میں ہے۔ وہ جسے چاہے تخت شاہی سے نواز دے اور جسے چاہے تخت سے اتار کر
تختے پر لاگرائے۔ ہاں حکمران کبھی انعام الٰہی ہوا کرتے ہیں تو کبھی شامت
اعمال۔اقتدار کے ایوانوں تک لانے کے لیے کس نے کیا کردار ادا کیا یہ تو فقط
زمینی اسباب ہیں مگر فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ مالک اگر چاہتا تو سب
تدبیریں ناکام بنا دیتا ۔ ترکوں نے اسلام مانگا تو اللہ تعالیٰ نے حافظ
قرآن طیب اردگان عنایت کردیا، ہماری طلب عمران خان تھی تو اللہ نے وہ بھی
پوری فرما دی۔عمران خان صاحب اللہ کی نعمت ہیں یا ہمارے گناہوں کی سزا یہ
تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ پاک پروردگار ان سے اس خطہ
ارضی میں کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہو یا پھر ہماری بربادیوں کے تذکرے ہیں
آسمانوں میں ہماری تو بس یہ دعا ہے کہ الٰہی اس تبدیلی کے نعرے میں اگر
کوئی خیر ہے تو اسے ہمارا نصیب کر دے اور اگر شر چھپا ہوا ہے تو ہمیں اس سے
محفوظ رکھنا۔ اے مالک الملک یہ وطن تیرے کلمہ کی برکت سے حاصل کیا گیا ،
اسے سلامت رکھنا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اسے ترقی سے ہمکنار کرنا۔آمین
بلاشبہ یہ الیکشن معمول سے ہٹ کر تھا۔ بڑے بڑے برج الٹے اوربہت سی تنی ہوئی
گردنیں لٹک کر رہ گئیں۔ گو شراب تو وہی ہے مگر جام بدلے گئے ہیں۔ اکثر چہرے
تو شناسا ہی ہیں مگر پلیٹ فارم تبدیل کرکے آئے ہیں۔ اللہ کرے صرف پارٹیاں
ہی نہیں نظریات وکردار بھی تبدیل ہوپائیں۔ ہم اللہ کی رحمت سے پر امید ہیں
اور خیر کی توقع رکھتے ہیں، لگتا یہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ اسلامی تصور
میں سربراہ مملکت درحقیقت قوم کا خدمت گار ہوا کرتا ہے اللہ کرے جناب عمران
خان اس فرمان اقدس کی عملی تصویر دکھائیں دیں، انہوں نے قوم سے بڑے بڑے
وعدے کیے ہیں ہماری دعا ہے وہ انہیں نبھا سکیں اور یہ تبدیلی لفظی ہی نہیں
حقیقی قرار پائے۔ علماء کرام کے حضور دردمندانہ التجا ہے کہ آپ نے میدان
سیاست اور جمہوریت میں حصول ووٹ کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل
کرنے کی ایک بارپھر ناکام کوشش کر دیکھی۔اب آئیے!کچھ عرصہ کے لیے سیاست کو
اپنے سے دور کرتے ہوئے پھر سے اخلاقیشعور او ر فکر ونظر کی تطہیر کرتے ہوئے
قوم کی تربیت کیجئے۔یقین جانئے! کچھ دیر تو لگے گی مگر یہ دیر پا ثابت ہوگی۔
ان شاء اللہ الیکشن سے قبل ہی مستونگ اور کوئٹہ جیسے سانحات جن میں ڈیڑھ سو
سے زائد قیمتی بے گناہ شہریوں کو خون میں نہلادیا گیا سے بھی قوم کے حوصلے
پست نہ ہوئے۔ لوگ گھروں سے جوق در جوق نکلے اوراپنا حق رائے دہی استعمال
کیا۔نتائج پر پارٹیوں کے تحفظات اور خدشات اپنی جگہ آئیے !مل کر دعا کریں۔۔۔
الٰہی نئی تشکیل پانے والی حکومت ملک وقوم کے حق میں بہتر ثابت ہو۔ خلوص
نیت سے اسلام اور عوام کا بھلا سوچنے والی بنے،وطن عزیز بحرانوں سے محفوظ
رہے ، خوشحالی اور امن و سلامتی کے سائے دراز ہوں ۔آمین |