ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں سب سے اہم کردار ان کے
حکمرانوں کا ہے جو فضو ل پروٹوکول کو اپنے لئے ناجائز سمجھتے ہیں اور کئی
ممالک کے وزراء اور وزیر اعظم تک سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں عوامی بسوں اور
ٹرینوں میں کھلے عام سفر کرتے ہیں نہ ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی
اس سے عوام کا پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے ایسے میں ان کے عوام بھی ان سے
خوش ہوتے ہیں ان ترقی یافتہ ممالک میں جو بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں چاہے
وہ ترقیاتی ہوں یا غیر ترقیاتی ان میں یہ بات سامنے رکھی جاتی ہے ک عوام کو
ان کی کس حد تک ضرورت ہے کوئی بھی حاکم صرف اور صرف اپنی پبلسٹی کے لیے نہ
تو کوئی منصوبہ لگا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو ایسے منصوبے کی منظوری مل سکتی
ہے وجہ ہے ان کی عوام دوستی۔ اب پاکستان میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے اور
جب تک یہ کالم آپ لوگوں تک پہنچے گا تب تک شاید یہ حکومت بن چکی ہو مگر ایک
بات جو حوصلہ افزاء ہے وہ ہے کہ نئے آنے والے متوقع وزیر اعظم پاکستان
عمران خان نے پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا ہے اور اس کی مثال ہم گزشتہ
روز دورہ پشاور میں دیکھ بھی چکے ہیں اور جس سے یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ
شاید اب کی بار حقیقی تبدیلی آ سکے کیونکہ ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ
پہلے سو دنوں میں حکومت جو وعدے کر کے آتی رہی ہے وہ پہلے دس دنوں میں ہی
ردی کی ٹوکری میں پڑے ہوئے ملتے تھے لیکن اب لوگوں کو ایک نئی امید عمران
خان کی جانب سے دلوائی گئی ہے اور یہ بات ان کے مخالفین بھی جان چکے ہیں کہ
خان جب کسی کام کی ٹھان لیتا ہے تو وہ پھر واپس نہیں دیکھتا اسی لئے پوری
قوم پر امید ہے ساتھ ساتھ انھوں نے تمام وزراء پر چیک رکھنے اور ان کو
مانیٹر کرنے کی بات کر کے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو کہتے
تھے کہ خان کے ساتھ وہ لوگ جارہے ہیں جو کرپشن کیسزمیں مطلوب ہیں لیکن خان
کے ارادوں سے لگتا ہے کہ آخری فیصلہ اس کا اپنا ہو گا گزشتہ پانچ سالوں کی
کارکرودگی کو اگر سامنے رکھا جائے تو خیبر پختونواہ میں حقیقی تبدیلی
دیکھنے کو ملی ہے اور ناقدین بھی اس تبدیلی کو محسوس کر کے خان کے گڈ گورنس
کی داد دینے پر مجبور ہیں ساتھ ساتھ پاکستانی پولیس کو ٹھیک کرنے کی بات
بھی خیبر پختونوا ہ میں دیکھی جا سکتی ہے بھلے وہاں پر یہ نظام پوری طر ح
فعال نہیں ہوا لیکن بہتری تو ہوئی ہے اور اس بات کا اعتراف وہاں کی عام
عوام کرتے ہیں عمران خان کے لئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول
لوڈشیڈنگ سے نجات ہو گا اس پر بھی عمران خان کے ارادے کی بہاڑ کی طرح اونچے
نظر آ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مفاد پرست ٹولہ اپنی ناکامی کو دھاندلی کے
گھسے پھٹے نعرے میں رنگ کر یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کو
بلیک میل کر لے گا لیکن شاید اب عوام بھی جان چکے ہیں کہ ہارے ہوئے مہرے جب
اقتدار میں تھے تو کسی ایک معاملے پر کھبی بھی ایک نہ ہو سکے لیکن اب ایک
سیاسی طاقت پاکستان تحریک انصاف سے پٹنے کے بعد ایک ہو چکے ہیں اب ان کو
پاکستان تحریک انصاف اپنے راستے کی سب سے بڑی دیوار نظر آ رہی ہے تمام ہاری
ہوئی جماعتوں کا وہ مکروہ چہرا عوام کے سامنے آ چکا جو کھبی بھی سامنے نہ آ
سکا کوئی مذہبی چورن بیچ کر ووٹ لیتا تھا تو کوئی سٹرکوں کے نام پر کوئی
ڈیمز بنانے یا نہ بنانیکے نام پر مگر اب شاید یہ ممکن نہیں رہا اسی لئے
دیگر تمام جماعتوں کو اپنی ہار سامنے نظر آنے کے بعد اورآئیندہ مستقبل میں
جس جماعت سے خوف نظر آ رہا ہے وہ بلا شبہ پاکستان تحریک انصاف ہے پاکستان
تحریک انصاف نے عوام کو وہ شعور دیا جو سب سے پہلے قائد اعظم کے ولولہ
انگیر خطابات سے عوام کو ملا بعد ازاں جب ملک مارشل لا کے ادوار میں چلا
گیا تو یہ شعود پھر کہیں عوام کی پریشانویوں میں گم سم ہو گیا جسے بعد ازاں
شہید ذولفقار علی بھٹو نے جگایا اور اس کے بعد آج اکیسویں صدی میں پاکستان
تحریک انصاف کے کپتان عمران خان نے عوام کو بتایا کہ کس طرح ان کا پیسا
چوری ہو ا کس طرح ان کو بے دردی سے لوٹا گیا کس طرح ان کے دیے گے ٹیکس پر
ڈاکا ڈالا گیا اب یہ احتساب کا عمل رکنے والا نہیں اس میں وہ چار سو لوگ
ضرور آئیں گے جن کا نام پاناما میں ہے پاکستان میں اگر پاکستان تحریک انصاف
نے صرف کرپشن اور مہنگائی پر قابو پا لیا تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو
گی اور اگر جو منصوبے عمران خان کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں ان میں سے پچاس
فیصد پر بھی کام ہو گیا اور تو پھر اگلے بیس سالوں تک دیگر کسی جماعت کا
پاکستان میں حکومت بنانے کا خواب ادھورا ہی رہے گا اس وقت پاکستان کو
اندرونی اور بیرونی طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اندرونی طور پر دہشت
گردی اور توانائی بحران ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال اور قرضوں کی
ادائیگی سب سے بڑا چیلج ہیں ان پر قابو پانے کے لئے عمران خان کو جنگی
بنیادوں پر کام کرنا ہو گا اس کے لئے عمران خان کے پاس بہترین ٹیم کا ہونا
ضروری ہے اور خان کی اس ٹیم نے یہ ناممکن کو ممکن بنانا ہے اس ٹیم میں لیڈر
کا کردار بہت بڑا ہوتا ہے اور عمران خان کی لیڈری کی مثالیں دنیا دیکھ چکی
ہے اور اب یہ مثالیں پاکستان پر لاگو ہونی ہے سو عوام کو کپتان سے اچھے کی
امید رکھنی چاہیے کیونکہ جو شخص اکیس سال سے ایسی قوتوں کے خلاف لڑ رہا ہے
جو اس ملک پر مسلط کی گئی تھیں جن کے اثرات سے نکلنا خود ایک چیلنج ہے ایسے
میں کپتان کی قیادت میں پاکستانی عوام ایک بہتر کل کی متلاشی ہے اور عوام
کو امید ہے کہ خان کچھ اچھا ہی کرئے گا خان کی ٹیم کے لئے ضروری ہے کہ وہ
عوام کے بنیادی مسائل کو اولین ترجیح دے اور ان کے مسائل کے تدارک کے لئے
ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں ملک میں مہنگائی بے روز گاری کو کنٹرول کر کے
عوام کو ریلیف دینے سے ہی استحکام آ سکتا ہے بلا شبہ عوام نے خان کو ووٹ
صرف تبدیلی لانے کے لئے دیا ہے دوسری صورت میں تو سابق جماعتیں ہم تم ، ہم
تم کے کھیل میں ہی عوام کو الجھائے رکھتی تھیں اب یہ عمران خان کا کام ہے
کہ وہ اس تبدیلی کو سامنے لائے اور لوگوں کو وہ کر دیکھائے جس کا اس نے
وعدہ کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ عمران خان اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے
آخری حد تک جائے گا باقی عوام کا اگر اس کے ساتھ تعاون رہا تو وہ ضرور
تبدیلی لائے گا اچھے کی امید رکھنی چاہیے اور اگر امید اچھے کی ہو تو اچھا
ضرور ہوتا ہے - |