عالمی سیاست میں عجب سیاسی منافقت کاچلن ہے کہ اپنے
مفادات کیلئے انسانی حقوق کے تحفظ کادعویٰ کرنے والے بھی انسانیت کے پرخچے
اڑانے میں کوئی شرم وجھجک محسوس نہیں کرتے اوراگران کے ان اعمال کی طرف
توجہ دلائی جائے تودہمکیوں کاسلسلہ شروع کرکے زبان بندکرنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔اچانک ٹرمپ نے ایرانی رہنماوں سے "بغیر شرائط" کے ملاقات کی پیشکش کی ہے
کہ یہ ملاقات جب وہ چاہیں ہوسکتی ہے۔وائٹ ہاؤس میں میڈیاکے نمائندوں سے
گفتگوکرتے ہوئے ٹرمپ نے کہاکہ میں کسی سےبھی ملنے کیلئے تیارہوں۔ میں
ملاقاتوں پریقین رکھتاہوں اگروہ ملنا چاہتے ہیں، توہم ملاقات کریں گے۔ٹرمپ
کی جانب سے دیے جانے والے بیان کے بعد ایرانی صدرک مشیرحامدابوطالبی نے
ٹویٹ کے ذریعے جواب میں کہا کہ جوہری معاہدے میں واپسی اورایرانی حق خود
ارادیت کوتسلیم کرنے کے بعدہی ملاقات کی راہ ہموارہوسکے گی۔
یاد رہے کہ 1979میں آنے والے ایرانی انقلاب کے بعد سے کسی ایرانی صدر نے
امریکی ہم منصب کے ساتھ ملاقات نہیں کی ہے۔صدر ٹرمپ کا بیان ایک ایسے وقت
میں سامنے آیا ہے جب انہوں نے اور ان کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی نے اس
ماہ کے آغاز میں سخت الفاظ کا تبادلہ کیا تھا۔ مئی میں امریکاسابق صدر
اوباما کے دور میں کیے گئے ایرانی جوہری معاہدہ سے باہر نکل گیا تھا جس کے
سبب ایران پر سے بین الاقوامی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ معاہدے سے نکل
جانے کے بعد اب امریکا متعدد ممالک کی جانب سے اختلاف کے باوجود ایران پر
ایک بار پھر پابندیاں عائد کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ان ممالک میں
برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی شامل ہیں اور یہ تمام ممالک 2015ء میں
کیے جانے والے جوہری معاہدے کا بھی حصہ تھے۔
امریکی حکومت کو مشرق وسطی میں ایرانی کردارپرشکوک ہیں اوروہ ایران کے
دوروایتی حریفوں، سعودی عرب اور اسرائیل کا اتحادی ہے۔ٹرمپ کا یہ بیان اسی
صورتحال کی یاد دلاتا ہے جب انہوں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے
مسلسل سخت الفاظ کے تبادلے کے بعد اچانک ملاقات کا فیصلہ کیا اور جون کے
مہینے میں ان دنوں رہنماؤں کی سنگاپور میں ملاقات ہوئی تھی۔ ایران کے حوالے
سے صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے جانے والے بیان کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک
پومپیو نے کہا ہے کہ وہ اس ملاقات کی حمایت اس صورت میں کریں گے اگر ایران
اپنا رویہ بدلنے کو تیار ہو۔سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے پومپیو نے کہا
کہ صدر ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔
ایرانی صدر کی اس دھمکی کہ'' امریکا کو ایران سے لڑائی کی صورت میں سنگین
نتائج کا سامنا ہو گا''، گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں جواب دیتے
ہوئے کہا کہ"امریکا کو اب کبھی دوبارہ مت دھمکانا ورنہ وہ نتائج بھگتنا
پڑیں گے جن کا سامنا تاریخ میں چند ہی کو ہوا ہے۔ ہم اب وہ ملک نہیں جو
تمہاری پرتشدد اور موت کی بکواس سنیں۔ خبردار رہو"۔
اس سے قبل روحانی نے ایرانی سفارت کاروں سے اپنے خطاب میں کہا تھا: امریکا
مکمل طور پر یہ سمجھتا ہے کہ ایران کے ساتھ امن ہر قسم کے امن کا ضامن ہے
اور اسی طرح ایران کے ساتھ جنگ ہر قسم کی جنگ کی ماں ہے۔ میں کسی کو دھمکی
نہیں دے رہا ہوں، لیکن کوئی بھی ہمیں دھمکا نہیں سکتا،یاد رہے کہ مئی میں
مائیک پومپیو نے ایران سے معاہدے کیلئے 12 شرائط رکھی تھیں جس میں شام سے
فوجیں واپس بلانے اوریمن میں باغیوں کی حمایت ختم کرنے کا مطالبہ شامل تھا۔
ابھی حال ہی میں ایک طرف اسرائیل روس کے ساتھ اسرائیل سے ملحق شامی علاقوں
اورگولان کی پہاڑی سلسلے سے ایرانی ملیشیاؤں کو دوررکھنے کیلئے ایک معاہدہ
کرنے کی بھرپورکوشش کررہاہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل اورامریکا نے ایران
پرحملہ کرنے کامنصوبہ تیارکرلیاہے۔اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے قریب
سمجھی جانے والی نیوزویب سائٹ'' ڈسیکانائل'' نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف
کیاہے کہ واشنگٹن اورتل ابیب ایران پر حملے کرنے کیلئے تیاریاں مکمل کر چکے
ہیں۔ایران کے بارے میں اس جنگی پلان کو''ایران جیکٹ''کانام دیا گیاہے۔
اسرائیلی ویب سائٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے حکام کے اجلاس میں یہ پلان پیش
کیاگیاجو29 جون کوسٹاک ہوم میں ہوا۔ اجلاس میں اسرائیلی آرمی چیف جنرل گیڈی
آئزن کوٹ اورامریکی اعلیٰ فوجی حکام نے شرکت کی جن کی قیادت امریکی چیف آف
سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل جوزف ڈانفورڈاورسینٹرل کمانڈکے چیئرمین جنرل
جوزف کوئل کر رہے تھے۔رپورٹ کے مطابق ایران پر حملے کی نگرانی کاٹاسک
53سالہ میجر جنرل الونہی کے سپردکیاگیاہے۔انہیں یہ ٹارگٹ ان کی فوج کے خفیہ
یونٹوں اورانٹیلی جنس شعبہ کی ماہرانہ خدمات پر دیا گیا ہے۔''ایران
پروجیکٹ''میں ممکنہ طورپرسرجیکل اسٹرائیک کی کاروائی کی جائے گی جس میں
ایران کی جوہری تنصیبات،بیلسٹک میزائل،لانچنگ پیڈزاور مشرقِ وسطیٰ خصوصاً
شام،لبنان اوریمن میں ایرانی فوجی اڈوں اورایرانی حمائت یافتہ ملیشیاؤں
کونشانہ بنایاجائے گا۔
دوسری جانب ایرانی صدرحسن روحانی نے کہاہے کہ ایرانی قوم متحد اورتمام
خطرات سے واقف اورتیارہے۔ایران ایسی صورتحال کابھرپورمقابلہ کرے گاکیونکہ
ایرانی عوام ڈرنے یا گھبرانے والے نہیں ہیں اورہرطرح کی کاروائی
کابھرپورجواب دیں گے۔انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق فوجی ذرائع کاکہناہے کہ
اسرائیلی فوج نے جب یہ محسوس کرلیاکہ امریکااور روس کے درمیان تعلقات
بندگلی میں پھنس گئے ہیں اورایران وحزب اللہ شام کے محاذپرسرگرم ہیں
اورانہوں نے جنوبی شام میں اسرائیلی سرحدکی طرف پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے
توفوری طورپرایران کے خلاف فوجی کاروائی کافیصلہ کیاجس میں اسے امریکاکی
معاونت حاصل ہوگی۔ایران کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور
پر امریکا کے دستبرداری کے بعدامریکی توقعات کے برعکس برطانیہ
،فرانس،جرمنی،روس اورچین کی جانب سے ایرانی تیل گیس کی برآمداور
دیگرتوانائی سے متعلق بھرپورتعاون کی یقین دہانی امریکاکیلئے ایک بہت
بڑادھچکا ثابت ہوئی تو دوسری جانب شام سمیت عالمی امورپرامریکی صدرٹرمپ کی
روسی صدرپیوٹن سے عدم اتفاق نے امریکاکوتنہاکردیاہے اور عالمی قوتوں کی
جانب سے ایرانی مؤقف کی پذیرانی نے امریکاکوکارنر کردیاہے جس کی بناء پراب
امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کرایران کونشانہ بنانے کے اقدامات کررہا ہے جبکہ
شمالی کوریاکوبھی دباؤ میں لانے سے ٹرمپ انتظامیہ ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ
سے شمالی کوریانے امریکاسے مذاکرات معطل کردیئے ہیں،یوں اس وقت مشرقِ وسطیٰ
اورجنوبی مشرقی ایشیاکے دونوں محاذوں پر امریکاناکامی سے دوچارہے جس
کاازالہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایران پرسرجیکل اسٹرائیک کی صورت میں حملہ کرکے
اپنی خفت کومٹانے کی کوشش کررہا ہے ۔سردجنگ سے عملاً گرم جنگ کے بعدنہ صرف
مشرقِ وسطیٰ کامحاذہی گرم ہونے کاامکان ہے بلکہ ایسی صورتحال میں جنوبی
بحیرہ چین کامحاذبھی گرم ہوسکتاہے اورتیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ |