چار جنوری 2011ءکی سہ پہر گورنر
پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ کے قریب اُس وقت ایلیٹ
فورس کے ایک گارڈ ملک ممتاز حسین قادری نے قتل کر دیا،جب وہ ایک ریستوران
سے کھانا کھا کر اپنی گاڑی میں سوار ہو رہے تھے،میڈیا رپورٹ کے مطابق ایلیٹ
فورس کے اہلکار نے گورنر پنجاب کو 27گولیاں ماریں،پھر اپنی گن زمین پر رکھ
کر خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دیا،گورنر پنجاب کو قتل کرنے والے گارڈ ملک
ممتاز حسین قادری کا کہنا تھا کہ”سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کو”
کالا قانون“ کہا تھا، وہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہوئے،اُن
کی گستاخ رسول آسیہ مسیح کے ساتھ ہمدردی اور پھانسی سے بچانے کی کوشش پر
مجھے شدید رنج پہنچا تھا،اِس لئے میں نے گورنر کے قتل کا منصوبہ بنایا،مجھے
اپنے کئے پر کوئی ندامت نہیں،گارڈ ملک ممتاز حسین قادری کا یہ بھی کہنا تھا
کہ اُس کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں،اُس نے غلامی رسول صلی اللہ علیہ
وسلم میں یہ خون کیا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی غلامی میں
قبول کرلیں۔“موقع پر موجود ایک عینی شاہد کے مطابق ملک ممتاز حسین قادری نے
سلمان تاثیر کو مارنے کے بعد ”اللہ اکبر“ کا نعرہ لگایا اور گن زمین پر
رکھتے ہوئے کہا کہ ”یہ شخص گستاخ رسول تھا،اِسی لئے واجب القتل تھا،گستاخ
رسول کی یہی سزا ہے،موقع پر موجود سب لوگ دیکھ لیں کہ میں نے گورنر کے
علاوہ کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔“
سب جانتے ہیں کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے 20 نومبر 2010ء کو توہین رسالت
کی مرتکب آسیہ مسیح سے شیخوپورہ ڈسٹرکٹ جیل میں ملاقات کی تھی اور آسیہ
مسیح کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بے گناہ ہے اور وہ صدر
سے آسیہ مسیح کی سزا معاف کرنے کی سفارش کرینگے،جبکہ آسیہ مسیح کو توہین
رسالت کے جرم میں ننکانہ صاحب کی مقامی عدالت سزائے موت سنا چکی ہے،سلمان
تاثیر کی جانب سے یہ کہنے کے بعد کہ وہ صدر زرداری سے آسیہ مسیح کو معاف
کرنے کی درخواست کریں گے،مذہبی رہنماؤں نے گورنر پنجاب کو گستاخ رسول قرار
دیا تھا،سلمان تاثیر نے جیل میں آسیہ مسیح سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ”آسیہ مسیح غریب اور اقلیتی برادری سے تعلق
رکھتی ہے،اُس کی سزا معاف کر دینی چاہئے،اُن کا کہنا تھا کہ آسیہ مسیح نے
اِس بات سے انکار کیا ہے کہ اُس نے اسلام یا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم
کی شان میں گستاخی کی ہے،بلکہ انہوں نے الزام لگایا کہ دیہاتیوں نے آسیہ کے
ساتھ زیادتی کرنے اور اُسے گلیوں میں گھسیٹنے کیلئے گھر تک اُس کا پیچھا
بھی کیا ہے،سلمان تاثیر کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی کاروائی میں مداخلت نہیں
کرنا چاہتے، تاہم وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آسیہ کو اِس جرم میں سزا نہ
ملے جو اُس نے کیا ہی نہیں ۔
اِس گفتگو کے دو دن بعد ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے
کہا تھا کہ پاکستان کا توہین رسالت قانون انسان کا بنایا ہوا ہے،خدا کی طرف
سے نہیں ہے،انہوں نے الزام لگایا کہ اُن کی آسیہ مسیح کے ساتھ ملاقات کو
مذہبی رہنماؤں کی جانب سے سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے تاکہ عوام کو اُن کے
خلاف کیا جاسکے،اُن کیلئے یہ ایشو اِس حوالے سے اہم ہے کہ توہین رسالت
قانون پر نظرثانی کی جائے،انہوں نے کہا کہ میں نے جامع تحقیقات کرائی
ہیں،جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسیہ کے خلاف اِس قانون کا غلط استعمال
کیا گیا ہے،یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت
کی مرتکب آسیہ مسیح کے حق میں ایک سے زیادہ بیانات جاری کیے،اُن کے اِس طرز
عمل پر عوام اور دینی حلقوں میں شدیدغم و غصے کی کیفیت پائی جاتی تھی،اسی
وجہ سے وہ دینی اور مذہبی حلقوں میں متنازعہ شخصیت بن کر ابھرے تھے ۔
گورنر سلمان تاثیر کے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف انہی متنازعہ اور
دل آزار خیالات اور آسیہ مسیح سے ملاقات کے بعد مذہبی رہنماؤں نے انہیں
شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر صدر نے توہین رسالت کی ملزمہ کو
معافی دی تو اُن کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج کیا جائے گا،توہین رسالت
قانون کی حامی مذہبی جماعتوں کے اتحاد ”تحریک ناموس رسالت“نے تو صدر زرداری
سے توہین رسالت قانون کے خلاف سخت بیانات دینے پر گورنر پنجاب کو برطرف
کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور 31دسمبر 2010ءکی تاریخی ملک ہڑتال کرکے ثابت
کردیا کہ مسلمانان پاکستان کیا چاہتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ حضور ختمی المرتبت
صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پوری کائنات کا سرمایہ حیات ہے،اِس
قیمتی متاع کا تحفظ ہر مسلمان اپنی جان سے زیادہ ضروری سمجھتا ہے،دنیا بھر
کے مسلمان بلا تفریق رنگ و نسل اور زبان و علاقہ اِس معاملہ میں بنیان
مرصوص کی طرح ہیں،کیونکہ یہی اُن کے ایمان کا تقاضہ ہے،یہی وجہ ہے کہ حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ والہانہ عشق کے تقاضے کے
حوالے سے وہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلے میں انتہائی جذباتی
نظر آتے ہیں،اور آخر کیوں نہ ہوں کہ ایک پکا اور سچا مسلمان اِس کے علاوہ
کوئی دوسرا راستہ اختیار کر ہی نہیں سکتا،ایک مسلمان اپنے آقا و مولا صلی
اللہ علیہ وسلم کے نام و ناموس پر مر مٹنے اور اُس کی خاطر دنیا کی ہر چیز
قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا ہے،ہماری اِس بات پر تاریخ کی
کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی ایسی شہادتیں موجود ہیں جو ایک مسلمہ حقیقت کی بن
چکی ہیں،تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں کو اقتدار حاصل رہا،وہاں کی
عدالتیں شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سزائے موت کا فیصلہ سناتی
رہیں،لیکن اِس کے بر عکس جب کبھی یا جہاں کہیں اُن کے پاس حکومت نہیں
رہی،وہاں جانثاران ِتحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم حکومت
کے رائج قوانین کی پرواہ کیے بغیر گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیفر
کردار تک پہنچایا اور خود ہنستے ہوئے تختہ دار پر چڑھ گئے ۔
یہی وہ حقائق ہیں جس کی وجہ سے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے
پاکستان کے مسلمان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بہت حساس
واقع ہوئے ہیں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ سے ادنیٰ
گستاخی کو بھی ہرگز برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں،ایک مسلمان اِس حوالے سے
کس قدر جذباتی ہوتا ہے،اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جرمنی
میں جب ایک شخص نے خاکوں کی صورت توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسارت
کی، تو وہاں زیر تعلیم راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عامر چیمہ
نے اُس پر قاتلانہ حملہ کیا،لیکن وہ بال بال بچ گیا،جس کے بعد عامر چیمہ کو
پر اسرار انداز میں دوران حراست شہید کر دیا گیا،جب عامر چیمہ کی لاش
پاکستان پہنچی تواُس کی شہادت پر ہزاروں لوگوں نے اُس کے گھر پہنچ کر عامر
چیمہ کے والد کو بیٹے کی شہادت پر نہ صرف مبارکباد دی،بلکہ جس محلے میں
عامر چیمہ شہید کی رہائش تھی،اُس کے قریب واقع چوک کا نام” عامر چیمہ شہید
چوک“ رکھ دیا،لوگ آج بھی اِس نوجوان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے
ہیں اور اُسے شہید ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں ۔
قارئین محترم،برصغیر پاک و ہند میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے
ارتکاب کرنیوالوں کے محاسبے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، تقسیم ہند سے پہلے
لاہور میں راج پال نام کے ایک ہندو نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تو لاکھوں
مسلمان سڑکوں پر نکل آئے تھے، ایک انگریز مجسٹریٹ نے جب راج پال کو رہا کر
دیا تو مسلمانوں کا غم و غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا،بہت سے لوگوں نے راج
پال کو قتل کرنے کی نیت کی،لیکن یہ سعادت ایک ایسے نوجوان کے حصے میں آئی
جو ایک بڑھئی کا بیٹا تھا،علم دین نام کے اِس نوجوان نے راج پال کو چھریوں
کے پے در پے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا،بعد میں علم دین پر مقدمہ
چلایا گیا،قائد اعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑا،جبکہ مفکر
پاکستان علامہ اقبال نے اُس کی رہائی کیلئے مہم چلائی،لیکن انگریز عدالت نے
علم دین کو پھانسی کی سزا دی،جسے اُس بہادر سپوت نے خوشدلی سے قبول کیا اور
تختہ دار پر جھول گیا،علم دین شہید زندگی کے آخری سانس تک اِس بات پر فخر
محسوس کرتا رہا کہ اُس نے ایک گستاخ رسول کو واصل جہنم کر کے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے،آج بھی علم
دین کو غازی علم دین شہید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اقبال کے یہ خراج
عقیدت ” اَسی تہ گلاں کردے رہے،ترکھاں دا منڈا بازی لے گیا ۔“ تاریخ کا حصہ
ہے ۔
خیال رہے کہ غازی علم دین شہید کے جسد خاکی لیجانے کیلئے اپنے گھر سے
چارپائی دینے اور نوجوانی میں علامہ اقبال کے قدموں میں بیٹھنے والے
انگریزی ادب میں برصغیر کے پہلے پی ایچ ڈی کا اعزاز رکھنے والے ممتاز
دانشور وادیب ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے بیٹے سلمان تاثیر سے عوام کو یہ توقع
نہیں تھی کہ وہ اتنے اہم حساس اور نازک معاملے پر اِس قدر غیر ذمہ داری کا
مظاہرہ کریں گے،سلمان تاثیر نے نہ صرف یہ کہ قانون توہین رسالت کو کالا
قانون کہا اور بنا تحقیق آسیہ مسیح کو بے گناہ قرار دیا، بلکہ عدالتی فیصلے
پر تنقید کر کے خود توہین عدالت کے بھی مرتکب ہوئے،انھوں نے اِس بات کی بھی
پرواہ نہیں کہ اُن کے اِس دل آزار،افسوسناک طرز عمل سے ملک کے لاکھوں عوام
جو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنے کا جذبہ رکھتے ہیں،کے دلوں
پر کیا بیتے گی،افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ ببانگ دہل ایسے لوگوں کو جوتے کی
نوک پر رکھنے کی بات بھی کرتے رہے، جب حکومت کا ایک ایسا ذمہ دار نمائندہ
اور صوبے آئینی سربراہ جو کہ خود عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے اور کرانے کا
پابند ہو، اسلامیان پاکستان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے بیانات دے
گا،دین و مذہب کی تعلیمات کے خلاف دل آزار باتیں کرے گا تو اسلام اور ذات
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والوں کا مشتعل ہونا اور بھڑکنا
ایک فطری عمل ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سابق فوجی آمر کے نامزد کردہ گورنر سلمان
تاثیر جنھیں صدر آصف زرداری نے اِس منصب پر برقرار رکھا،کی تبدیلی کا
مطالبہ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے کئی مرتبہ کیا گیا،لیکن ایوان صدر کی
حمایت ہونے کی وجہ سے وہ مرتے دم تک اپنے عہدے پر برقرار رہے،سلمان تاثیر
کے بارے یہ بھی گمان بھی کیا جاتا ہے کہ انہیں اس معاملے میں امریکہ کی
سرپرستی حاصل تھی،یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ امریکی حکام نے توہین
رسالت قانون 295سی،قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی ترمیم اور
امتناع قادیانیت آرڈیننس کو ختم کرانے کیلئے کئی بار کوششیں کیں،کیونکہ یہ
قوانین امریکہ، امریکی حواریوں اور قادیانی لابی کے سینوں میں نیزے کی انی
کی طرح کھٹکتے ہیں،امریکی صدر سے لے کر امریکی سفیر تک ہر ایک کی یہی کوشش
ہوتی ہے کہ یہ قوانین ختم کردیئے جائیں تاکہ دشمنان اسلام کو شان رسالت مآب
صلی اللہ علیہ وسلم میں توہین و تحقیر کا کھلا لائسنس مل جائے،لیکن عوامی
ردعمل کو دیکھتے ہوئے کسی بھی حکومت کی یہ جرات نہ ہوسکی کہ اِن قوانین میں
چھیڑ چھاڑ کرسکے،یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بعض حکومتی ذمہ دار،این جی
اوز اور نام نہاد سیکولر ذہن لوگ بڑے زور و شور سے مسلسل اِن قوانین کی
مخالفت کرتے رہے ہیں،جس کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکتے رہے،جس کا
منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کے ذمے سلمان تاثیر کی سیکورٹی تھی انہی
میں سے ایک شخص نے سلمان تاثیر کو گولیاں مار کر قتل کردیا ۔
آج مغربی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر
اختلاف کی گنجائش ختم ہوچکی ہے، حکمراں جماعت کے لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش
کررہے کہ سلمان تاثیر کا قتل مذہبی تشدد کا شاخسانہ اور بڑھتے ہوئے مذہبی
جنون کی علامت ہے ہمارے خیال میں یہ پروپیگنڈہ قطعاً غلط ہے،ہم مانتے ہیں
کہ ماورائے آئین اقدامات کی کسی طور حوصلہ افزائی اور حمایت نہیں کی
جاسکتی،لیکن جب ریاست اپنے فرائض سے غفلت برتے اور ریاستی ذمہ داران موجود
قانون اور اُس قانون کے تحت دیئے گئے عدالتی فیصلوں کا احترام اور پاسداری
نہ کریں،قانون کا مذاق اڑائیں،مجرموں کی وکالت کریں،عوام کے مذہبی جذبات و
احساسات سے کھیلیں اور اُس قانون کے خلاف اعلان جنگ کریں،جس کا مقصد ذات
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم،اورمقدس شخصیات کی تحریم و تکریم کے ساتھ ملک
کا استحکام،معاشرے کی بقاء اور فرد کا تحفظ اور سلامتی ہو،تو پھر ملک میں
غازی علم دین اور ممتاز حسین قادری جیسے لوگوں کو پیدا ہونے سے کون روک
سکتا ہے،آج گورنر پنجاب کا قتل ناموس رسالت قانون کی ضرورت،اہمیت اور
افادیت کو ثابت کرتا ہے، ریاست اور معاشرے کے استحکام اور بقاءکیلئے ضروری
ہے کہ اُس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بالکل اُسی طرح کی جائے جس طرح
جغرافیائی سر حدوں کی جاتی ہے،جمعیت علماء پاکستان کے صدر اور تحریک تحفظ
ناموس رسالت کے کنوینر ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کا یہ مطالبہ قابل توجہ
ہے کہ عدالت اس معاملے کی تحقیقات کرے کہ گورنر پنجاب کا قتل کس جذبے کے
تحت کیا گیا،لہٰذا اس واقعہ کے اصل محرکات کی طرف توجہ دینا ہوگی اور سوچنا
ہوگا کہ وہ کیا عوامل تھے جو ایک ایسے نوجوان جس کی ایک سال قبل شادی
ہوئی،جس کا دوماہ کا بیٹا ہے،جو پانچ بہنوں کا بھائی اور جس کا باپ ایک
معمولی معمولی راج مستری کا کام کرتا ہے،کوحالات اِس نہج پر لے گئے کہ اُس
نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا،حکومت کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے کو
سیاسی رنگ دینے کے بجائے اصل اسباب و محرکات پر توجہ دے اور آئندہ لوگوں کو
اِس راہ پر چلنے سے بچانے کیلئے کسی بھی ایسی ترمیم سے گریز کرے جس کا مقصد
توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرموں کو بچانا یا فائدہ پہنچانا ہو ۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ملک ممتاز حسین قادری کا اعترافی بیان اور میڈیا سے کی
گئی گفتگو صاف ظاہر کرتی ہے کہ اُس کا عمل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور
جذبہ ایمانی کا مظہرہے،جو کہ خالصتاً ایک مذہبی معاملہ ہے،جسے حکومت سیاسی
رنگ دے کر اِس قانون میں ممکنہ ترمیم کے خلاف مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے
نتیجے میں بیدار ہونے والی تحریک کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے اورناموس رسالت
صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیلئے کٹ مرنے کے اُس ایمانی جذبے کو سرد کرنا
چاہتی ہے جو ممتاز حسین قادری کے عمل سے اسلامیان پاکستان کے دلوں میں ایک
بار پھر زندہ و جاوید ہوگیا ہے،حکومت چاہتی ہے کسی طرح اس قتل کو سیاسی رنگ
دے کر سارا ملبہ پنجاب گورنمنٹ پر ڈال دیا جائے،مقاصد خواہ کچھ بھی
ہوں،لیکن ہر پاکستانی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات اچھی طرح جانتا
ہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کا اصل محرک کیا ہے،ایک طرف جہاں عوامی رائے عامہ
سمیت موبائل مسیجز،فیس بک اور نیٹ پر موجود مواد اِس بات کی گواہ ہیں،تو
دوسری طرف علماء کا نماز جنازہ پڑھنے سے انکار،مختلف شہروں میں ممتاز حسین
قادری کی رہائی کیلئے ہونے والے مظاہرے،خاندان کی کفالت اور دو کروڑ کے
انعام کا اعلان، عدالت میں پیشی کے وقت عوام اور وکلاءکا ہار پھول اور
عقیدتی بوسوں سے والہانہ استقبال،اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے اور متعدد
تنظیموں سمیت سینکڑوں وکلاءکا ممتاز حسین قادری کا مقدمہ لڑنے کا اعلان اِس
بات کا اظہار ہے کہ وہ مسلمانان پاکستان کی نظر میں کوئی مذہبی جنونی
اوردہشت گرد مجرم نہیں بلکہ ایک ایسا مجاہد ہے جس نے اُن کے جذبہ ایمانی کو
تازگی اور نئی حرارت بخشی ہے،اسلامیان پاکستان سمجھتے ہیں کہ ملک ممتاز
حسین قادری آج کا ”غازی علم دین“ ہے،جس نے غازی مرید حسین،غازی
عبدالرشید،غازی عبدالقیوم،غازی عبد اللہ،غازی منظور حسین،غازی محمد
صدیق،غازی عبدالمنان،غازی میاں محمد، غازی احمد دین،غازی معراج الدین،غازی
فاروق،غازی حاجی محمد مانک اور غازی عامر چیمہ جیسے مجاہدوں(جنھوں نے
راجپال، سوامی شردھانند،نتھورام،چنچل سنگھ،کھیم چند،پالامل،بھیشو،چرن
داس،ویداسنگھ،ہردیال سنگھ،نعمت احمر قادیانی،عبدالحق قادیانی جیسے مرتدوں
کو واصل جہنم کیا) کی سنت کو زندہ کرکے ملت اسلامیہ کے جذبات کی ترجمانی کی
اور یہ ثابت کردیا کہ پاکستانی مسلمان بہت کچھ برداشت کرسکتے ہیں،لیکن
شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے حمایتوں کو کسی طور بھی برداشت
نہیں کرسکتے ۔
بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
دین پر مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے |