کل ایک خبر پڑھ رہا تھا جس میں دودھ سے متعلق تحریر تھا
کہ ڈیری و لائیو ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے دودھ کی
پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ دودھ بڑھانے کے لئے کوئی پلاننگ کی
گئی ہے پاکستان میں دودھ کی سالانہ پیداوار 54 بلین لیٹر ہے دودھ کی اس
پیدوار کے لحاظ سے ہمارا دنیا بھر میں چوتھا یا پانچواں نمبر ہے اس کے
باوجود ملک میں دودھ کی کمی ہے ا س کے علاوہ لاہور اور کراچی میں 30لاکھ
کیمیکل زدہ دودھ فروخت ہو رہا ہے یہ انتہائی افسوس ناک خبر ہے کہ ہمارا ملک
ایک زرعی ملک ہے اور یہاں جانوروں کی کمی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود
عوام کو زہر دیا جا رہا ہے اس ناقص دودھ کی وجہ سے ہر کوئی بیمار ہو رہا ہے
ملک میں ادارے بھی موجود ہیں لیکن کرپٹ افسران کی وجہ سے عوام یہ زہر پینے
کو مجبور ہے آبادی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور دودھ کی طلب بھی بڑھ
رہی ہے اس لئے کرپٹ افراد اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ملک میں غیر معیاری
دودھ کی فروخت زوروں پر ہے محکمہ فوڈ نے کئی جگہوں پر چھاپے مار کر دودھ
ضائع بھی کیا ہے اور مقدمات بھی بنائے ہیں لیکن اس کے باوجود کرپٹ افسران
کی ملی بگھت سے ہی یہ کام جاری وساری ہے ہمیں ہر صورت ایسے کام کی حوصلہ
شکنی کرنی ہو گی تا کہ کیمیکل زدہ دودھ سے مکمل نجات حاصل ہو سکے اس کے
علاوہ خالص دودھ کی بجائے پانی بھی ملایا جاتا ہے یہ لوگ پیسے خالص دودھ کے
لیتے ہیں لیکن ناقص اور غیر معیاری دودھ صارف کو فروخت کرتے ہیں جس سے بچے
بوڑھے مزید توانا اور صحت مند ہونے کی بجائے کئی بیماریوں میں مبتلا ہو
جاتے ہیں ہمارے ہاں گائے کی بجائے بھینس کے دودھ کو ترجیح دی جاتی ہے
کیونکہ بھینس کا دودھ گاڑھا ہوتا ہے اور اس میں گائے کی نسبت چکنائی کا
تناسب 5%ہوتا ہے جب کہ گائے میں چکنائی کی مقدار 3% ہوتی ہے ہمارے ہاں گائے
تقریباً دس لیٹر اور بھینس تیس لیٹر دودھ روزانہ کی بنیاد پر دیتی ہیں بہتر
منصوبہ بندی سے ان کے دودھ میں اضافہ ممکن ہے ۔
دودھ کی کمی کی ایک وجہ بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکے بھی ہیں جس پر اب
پابندی لگا دی گئی ہے یہ ایک اچھا اقدام ہے ڈرگ انسپکٹر ز کو مارکیٹوں پر
چھاپے مارنے چاہیں تا کہ کوئی بھی شخص یہ ٹیکے فروخت نہ کر سکے اسی طرح
دودھ میں پانی اور کیمیکل کی ملاوٹ پر بھی پابندی لگا دینی چاہیئے اس کے
لئے سخت سزائیں رکھی جائیں اس کے علاوہ جو محکمہ کے افسران ان کی معاونت
میں شامل ہوں انہیں بھی نہ صرف نوکری سے برخواست کیا جائے بلکہ سخت سے سخت
سزا اور جرمانے کئے جائیں تا کہ پھر کوئی دوبارہ عوام کی صحت سے نہ کھیل
سکے ہمارے مذہب میں بھی ملاوٹ کی ممانت ہے لیکن ہم مسلمان ہوتے ہوئے اپنے
مسلمان بھائیوں کو چند رپوں کی خاطر زہر کھلا رہے ہیں جو سراسر غلط عمل ہے
جس کی اﷲ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے اس ناقص اور غیر معیاری دودھ سے بچوں
میں اموات بھی ہوتی ہیں جس کے ذمہ دار یقیناً ایسے لوگ ہی ہیں جو دودھ میں
ملاوٹ کرتے ہیں یہ ایک اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے جس کو ہنگامی بنیادوں پر
دیکھنا ہو گا تا کہ مزید کسی جانی نقصان سے بچا جا سکے کیونکہ صحت مند
معاشرہ کے لئے صحت مند غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ پاکستان میں بدقسمتی سے
ہمیں حاصل نہیں ہے دودھ کے علاوہ بھی دوسری کھانے پینے کی اشیاء میں بھی
ملاوٹ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی جا رہی ہیں ہم عوام کو بھی
اپنی صحت کا خودخیال رکھنا چاہیئے دودھ وہاں سے ہی حاصل کریں جس پر آپ کو
مکمل اعتماد ہو محکمہ فوڈ کو بھی گاہے بگاہے دودھ کی کوالٹی کو چیک کرتے
رہنا چاہیئے تا کہ ان ظالموں کو پکڑا جا سکے جو ہماری صحت برباد کرنے پر
تلے ہوئے ہیں ان پکڑنے پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ
دوبارہ وہ ایسا کام کرتے وقت ہزار بار سوچیں لیکن یہاں بد قسمتی سے ایسا
نہیں ہے ہماری عدالتوں کا نظام بھی ایسا ہے کہ ایک مقدمہ میں کئی کئی سال
لگ جاتے ہیں عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا بھی ریاست کے زمرے میں
آتا ہے لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔
ہمارے ہاں جو جانور دودھ دینے کے لئے گھروں یا ڈیری فارموں پر پالے جاتے
ہیں ان میں دودھ کی شدید کمی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس پر تحقیق کی جائے
کہ جانور دودھ کم کیوں دیتے ہیں کیونکہ امریکہ اور اسٹریلیا کی نسبت ہمارے
ہاں گائیں کم دودھ دیتی ہیں اس لئے دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لئے ہمیں
اقدامات کرنے ہوں گے ایک خبر کے مطابق ہمارے ہاں گوشت والے جانوروں کی
تعداد تقریباً سولہ کروڑ نوے لاکھ ہے گائیوں کی تعداد تین کروڑ بانوے لاکھ
،بھینسوں کی تعداد تین کروڑ بیالیس لاکھ،بھیڑوں کی تعدادتین کروڑ ،بکریوں
کی تعداد چھ کروڑ اسی لاکھ اور اونٹوں کی تعداد دس لاکھ ہے اس کے باوجود ہم
دودھ جیسی بنیادی ضرورت سے ابھی تک دور ہیں ملک سے کئی جانور ایکسپورٹ کئے
جاتے ہیں ان پر بھی پابندی لگائی جائے تا کہ ملک میں گوزت اور دودھ کی
پیداوار کو بڑھایا جا سکے ایک اندازے کے مطابق اس وقت دودھ کی پیداوار پچاس
ہزار ٹن ہے جو کہ بڑھتی آبادی کے لئے کم ہے تمام زرعی محکموں کو دودھ اور
گوشت کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عوام کو سستا اور معیاری
گوشت اور دودھ مسیر ہومیری دعا ہے کہ اﷲ تعالی ہم سب کو قران پاک کے مطابق
اپنی زندگیاں گذارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
|