تحصیل تلہ گنگ ضلع گجرات؟

پاکستان عجیب ملک ہے کہ یہاں پر ایک ووٹر ایک سے زیادہ حلقوں میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتا نہ ہی اس علاقے میں جا کر ووٹ دے سکتا ہے جہاں کا رہائشی نہیں وہ ملک میں جہاں کہیں بھی ہو ووٹ دینے کے لیے اسے اپنے متعلقہ علاقے میں آنا پڑے گا مگر دوسری طرف ووٹ لینے والے جو عموماً گاڈ فادر قسم کے لوگ ہوتے ہیں ان کے لیے یہاں ایسی کوئی پابندی نہیں وہ جہاں سے چاہیں الیکشن میں کھڑے ہو جائیں اور بھلے اس علاقے میں جہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان کا اپنا ووٹ نہ بھی ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ،اپنے ہاں اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ وہ امیدوار کئی کئی حلقوں سے کامیاب ہو جاتے ہیں جن کا اپنا ووٹ تک اس علاقے میں نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنا ووٹ وہاں کاسٹ ہی نہیں کر سکتے جہاں سے وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ووٹ لیکر کامیاب ہو جاتے ہیں، ایسے لوگ ملک و قوم کاکروڑوں روپے برباد کرتے ہیں کیوں کہ ایک سے زائد نشستوں پر جیت کر انہیں ایک کے علاوہ باقی چھوڑنا پڑتی ہیں جس پروبارہ الیکشن کروانے کی صورت میں بے پناہ خرچ ہوتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ دوبارہ الیکشن جسے ضمنی الیکشن کہا جاتا ہے کا تمام خرچ سیٹ چھوڑنے والے صاحب سے لیا جائے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا جب ایک جیتا ہو ا شخص فوراً سیٹ چھوڑنے کا اعلان کرتا ہے تو حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے ووٹرز بھی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، اب ایسا ہی کچھ تلہ گنگ میں ہونے جا رہا ہے ایک صاحب جن کا نام پرویز الٰہی ہے نے نہ جانے کیوں اس تحصیل کو اپنی راجدھانی سمجھ لیا ہے کہنا ان کا یہ ہے کہ میں نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں یہاں پر ترقیاتی کام کر وائے ہیں ،تو جناب وزیر اعلیٰ پنجاب ہوکے اگر کوئی کام کروایا گیا تو کون سا ایسا احسا ن کیا جس کا بدلہ لینے آپ ہر بار یہاں آن پہنچتے ہیں آپ کے لیے تو سارا پنجاب ایک سا تھا کیا ہر جگہ آپ اسی طرح پہنچ جاتے ہیں کہ مجھے ووٹ دو میں وزیر اعلیٰ تھا تو میں نے یہاں کام کروایا تھا یا یہ نظرکرم اور عنایت خاص صرف تلہ گنگ پر ہی ہے یا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے صرف یہاں ہی ترقیاتی کام کروایا ہے تو باقی پنجاب کا کیا قصور تھا اور اگر باقی سارے پنجاب میں آپ نے کشتوں کے پشتے لگائے ہیں تو سوا ل اپنی جگہ برقرار ہے کہ پھر تلہ گنگ کا کیا قصور ہے،آپ کی اس بار بار کے آنے جانے سے واحد فائدہ جو تلہ گنگ والوں کو ہوا وہ حافظ عمار یاسر کی دریافت ہے کہ تحصیل کے لوگوں کو ان میں سے ان جیسا ایک شخص مل گیا جس سے با آسانی اپناہر مسئلہ اور دکھ درد وہ بیان کر سکتے ہیں،آپ نے تین دفعہ یہاں سے الیکشن لڑا دو دفعہ ناکامی ہوئی جبکہ اب کی بار تلہ گنگ کے لوگوں نے حافظ عمار یاسر کی شبانہ روز محنت کا صلہ انہیں آپ کی بھرپور کامیابی کی صورت میں دے دیااور آپ نے ٹھیک چار دن بعد وہی سیٹ ان دٰیڑھ لاکھ لوگوں کے منہ پر دے ماری ،صوبائی اسمبلی میں اسپیکر شپ کی ڈیل میں تلہ گنگ آپ کو یاد ہی نہ رہا اگر آپ نے یہ سب کچھ ہی کرنا تھا تو ایم این اے کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی چپ کر کے صوبائی اسمبلی کا لیکشن لڑتے بھلے تلہ گنگ سے ہی ،آرام سے جیت جاتے آج آپ کے حامی و سپورٹرز کو منہ چھپانا پڑتا نہ ہی لوگوں کے طعنے سننا پڑتے،اس کے بعد جب آپ نے سیٹ چھوڑنے کا اعلان کیا تو تلہ گنگ میں ہر طرف میڈیا سے کی گئی آپ کی و ہ باتیں اور کلپ چلائے گئے جس میں آپ تلہ گنگ کی محبت کا دم بھرتے نظر آئے اور کہا کہ مجھے تلہ گنگ کے لوگوں سے محبت ہے اور میں کسی بھی صورت تلہ گنگ کی سیٹ نہیں چھوڑوں گا،کیا وعدے قسمیں صرف کتابی باتیں ہیں،ابھی تو آپ تلہ گنگ کے لوگوں کا شکریہ بھی ادا کرنے نہیں آئے جنھوں نے آپ کی غیر موجودگی میں آپ کو ووٹ دیا کیوں کہ آپ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد ایک بار بھی اس حلقے میں نہیں آئے مگر لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا اور بھرپور انداز میں دیا،اب جب آپ نے سیٹ چھوڑ دی تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ تلہ گنگ کے لوگوں سے آ کے مخاطب ہوتے اور انہی میں سے ہی کوئی اپنا نمائندہ مقرر کرتے ،آپ نے فی الفور ہی بغیر کسی سے مشورہ کیے چوہدری شجاعت کو نامزد کر دیا ،نہ کسی سے پوچھا نہ علاقے کے لوگوں کو ہی اس قابل سمجھا کہ ان سے رائے ہی لے لی جاتی،آپ بھی میاں برادران کی طرح شہنشاہ ہیں انہوں نے بھی ایک بار غلطی سے ایک نہایت پڑھے لکھے شخص ملک کبیر اعوان ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دے دیا جب پتہ چلا کہ یہ شخص ہم سے بھی زیادہ شعور رکھتا ہے اور پڑھا لکھا ہے تو انہیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ٹکٹ دوبارہ ممتاز ٹمن المعروف بابا جی کو دے دیا ،تلہ گنگ کے لوگوں کی قسمت دیکھیے ایک بابا جی سے جان چھوٹی تو دوسرے بابا جی ان کے سر پر سوار ہونے کو تیار بیٹھے ہیں،کیا ہی اچھا ہوتا کہ چوہدری شجاعت اپنی گجرات کی سیٹ سے الیکشن میں حصہ لیتے اور ق لیگ کی پارٹی ہی کا کوئی پڑھا لکھا نوجوان یا سیاسی شعور رکھنے والا شخص یہاں سے الیکشن لڑتا،اسد ڈھیر مونڈ،سردار امجدالیاس اور تقی شاہ جیسے لوگ پرویز الٰہی کا بہترین متبادل ہو سکتے ہیں تقی شاہ کو فوقیت اس لحاظ سے حاصل ہے کہ ان کا تعلق تلہ گنگ شہر سے ہے سابق ایم پی اے ہیں اور شہر کا بڑا ووٹ بنک ان کے کام آ سکتا ہے،تقی شاہ اور وسرے سرکردہ لوگوں کو بھی چاہیے کہ جب آپ نے چوہدری پرویز الٰہی کی کامیابی کے لیے اپنا تن من دھن اور دن رات ایک کیے رکھا تو اب گھگو گھوڑے بننے کی بجائے بولیں کہ اﷲ نے زبان صرف کھانے کا ذائقہ محسوس کرنے اور وڈے چوہدری شجاعت حسین صاحب کے بقول روٹی شوٹی کھانے کے لیے نہیں دی بلکہ اس کا اصل مصرف بولنا اور بروقت بولنا ہے ، ادھر پی ٹی آئی کی ترکش میں بھی لاجواب لوگ موجود ہیں ان کو ٹکٹ دیا جا سکتا ہے جن میں کرنل سلطان سرخرو اعوان ہیں نے جنھوں نے ضمنی الیکشن میں تمام تر حکومتی وسائل اور دباؤ کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ باون ہزار سے زائد ووٹ لے کر اپنی قیادت کے ساتھ ساتھ مخالفین کو بھی حیران کر دیا،سردار غلام عباس سے بھی کام لیا جا سکتا ہے اگر کوئی قانونی پیچیدگی نہ ہو تو ان سے بہتر امیدوار کوئی ہو ہی نہیں سکتا دوسری صورت میں کرنل سلطان سرخرو اعوان سردار غلام عباس کا بہترین متبادل موجود ہیں ،شرافت ،دیانت ،دلیری او ر قابلیت ہر لحاظ سے موزوں ہیں ،پی ٹی آئی اگر ایسا کوئی اپنا امیدوار لے آتی ہے تو ن اور ق دونوں کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں ،یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام تر روایتی ہتھکنڈوں کے باوجود ن لیگ کا ووٹ بنک جوں کا توں موجود ہے اس میں نقب لگانے کے لیے موٗثر اور بہتر حکمت عملی درکار ہے ماضی قریب کے دوالیکشنز میں ن لیگ کے امیدواروں نے یہاں سے لگ بھگ ایک لاکھ ووٹ حاصل کیا جو کہ حالیہ الیکشن میں بھی اتنا ہی نکلا اگر ن لیگ کی تحریک لبیک سے کوئی ایڈجسٹمنٹ طے پا گئی اور مقابلے میں امیدوار چوہدری شجاعت ہوئے تو ن لیگ کو کامیابی سے کوئی بھی کسی بھی صورت روک نہیں پائے گا،الیکشن کے لیے مظبوط امیدوار کے ساتھ بہتر حکمت عملی کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے حافظ عمار یاسر جو کہ اب ایم پی اے ہیں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جس بہترین حکمت عملی سے انہوں نے ابھی گذرا الیکشن لڑ ا اسی حکمت عملی کی اب بھی ضرورت ہے ،تلہ گنگ کے لوگوں نے حافظ عمار یاسر کو پرویز الٰہی کے لیے ووٹ دے کر جہاں ایک طرف ان کے ترقیاتی کاموں کا احسان چکا دیا وہیں میاں نواز شریف کے ضلع تلہ گنگ کے جھوٹے وعدے کا بدلہ بھی لے لیا،تلہ گنگ کے لوگوں نے تلہ گنگ کو ضلع بنانے کی ہمیشہ جد و جہد کی ہے اور یہ ان کا کمزور پہلو ہے جس پر اگر چوہدری برادران نے بھی مٹی پاؤ والا فارمولا اپنایا تو جو لوگ تلہ گنگ کے لوگوں کی نفسیات جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ تلہ گنگ ضلع بنے یا نہ بنے یہاں کے لوگ تلہ گنگ کو ضلع گجرات کی تحصیل کبھی نہیں بننے دیں گے۔۔۔۔۔