یہ انیسویں صدی کا دور جب برصغیر پر مغلوں کی حکومت تھی
مگر وہ سب عیش و عشرت میں پڑے بدلتی دنیا سے بےخبر اپنی رنگینیوں میں کھو
ئے ہوئے تھے، ادھر دشمن تاک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کب موقع ملے اور وہ
برصغیر پر قبضہ کریں ۔مسلمان حکمران آپس کی ناچاقیوں میں اس قدر مگن تھے کہ
انہیں دشمن کی سازشوں کی خبر ہی نہ ہوئی دوسری طرف انگریز انہیں اپنا ہمدرد
ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا ایسٹ کمپنی کا لیبل لگائے برصغیر میں ظاہراً تجارت
مگر دراصل قبضہ کرنے کی نیت چلے آئے تھے ، انہوں نے آخری بادشاہ بہادر شاہ
ظفر کو شکست دے کر برصغیر پر قبضہ کر لیا اور اسے قید کر دیا ,اب چونکہ
1857 کے بعد انگریز مکمل طور پر ہندوستان پر قبضہ کر چکے تھے، ادھر مسلمان
اپنی انگریزوں سے خار کی وجہ سے ہر معاملے سے بہت دور ہوگئے اور دوسری طرف
ہندوں نے اپنی چالاکیوں کی وجہ سے انگریزوں کی ہمدردی حاصل کرنا شروع کر دی.
انگریزوں نے آتے ہی تمام نظام بدل دیئے اور ہندوں نے اپنی چالاک کوششوں سے
تمام نظام انگریزوں سے اپنے ہاتھ میں لے لیے اور اب مسلمانوں کی حالت دن بہ
دن بدتر ہو رہی تھی ، ایک طرف انگریز دشمن تھے تو دوسری طرف ہندو جو
مسلمانوں سے پرانے ،حکمرانی کے بدلے لینے لگے انہیں ہر طرح سے پست کر دیا
گیا ان کی جائیدادیں اور جاگیریں چھین لی گئیں کاروبار تباہ کر دیئےگئے ،
تعلیم پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی اور انہیں بے بس اور بے سہارا کردیا
گیا ، عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہ تھا ، تعلیمی، کاروباری ، معاشی ،
معاشرتی ہر لحاظ سے مسلمان پس رہے تھے مگر اب مسئلہ ان کی سالمیت تک آ
پہنچا تها ان کے مذہب خطرہ کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا ۔
ایسے حالات میں بھی اعلیٰ شخصیات جنم لیتی رہیں جنہوں نے آزادی کی تحریک کو
چلایا اور غلامی سے انکار کر دیا ، سرسید احمد ، مولانا شبلی نعمانی قائد
اعظم ، علامہ اقبال اور دیگر ہزاروں رہنماؤں نے آزادی کی اس تحریک کو چلایا
اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دی اور آزادی کی کوششیں جاری رکھیں ،پہلے
پہل یہ تحریک ہندو کے ساتھ مل کر چلائی گئی مگر بعد کے حالات نے ثابت کر
دیا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں پھر مسلمانوں
نے اپنی الگ کوششیں شروع کر دیں اور مسلم لیگ کا قیام 1906 میں عمل میں آیا
اور یوں آزادی کی تحریک کو فروغ ملا، جب انگریز اور ہندوں یہ ماننے سے
انکار کر رہے تھے تو کئی مجاہدین نے اپنی جانوں کو قربان کر کہ تحریک کو
فروغ دیا ۔1930 میں پہلی بار خطبہ اعلیٰ آباد میں الگ وطن کا تصور پیش کیا
گیا اور پھر 23 مارچ 1940میں اس کا واضح اور مکمل تصور پیش کر دیا گیا اور
یوں انتھک محنت اور قائداعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے 1947 کو
پاکستان وجود میں آیا اور رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو ، یہ دن
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے کامیابی اور فتح کا دن تها ۔ یہ ملک مدنیہ کی
ریاست کی طرح اسلام کے نظریے پر وجود میں آیا تھا جہاں مسلمان اپنی سالمیت
کو برقرار رکھ کر زندگی کرسکتے تھے.
مگر آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہم پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیوں بنایا گیا
جہاں ہر طرف بھوک ہے افلاس ہے ، مسائل ہی مسائل ہیں اور فسادات ہی فسادات
ہیں ، ایسے میں ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں .مگر ہم یہ کہتے ہوئے اپنے اعمال
کو بھول جاتے ہیں، جس ملک کو ہمارے بڑوں نے اتنی مشکلات اور قربانیوں کے
بعد حاصل کیا اور ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا اور جن تعلیمات کے خاطر ہم نے
اسے حاصل کیا ہم نے وہ تعلیمات ہی بھلا دی ہیں ,
وہ سب فرماں قائد کے ہم نے بهلا دیے ہیں اور تفرقات میں پڑ گئے ہیں اپنی
پہچان پاکستان ہونے کی بجائے ہم پنجابی سندھی، پشتو اور بلوچی کہلوانے
زیادہ پسند کرتے ہیں اور اپنے ہی بھائیوں کو ذرا سے نظریات کے اختلاف کی
وجہ دشمن بنا لیتے اور قائد نے کہا تھا کہ کام اور صرف کام کرنا اور ہم اسے
calm اور calm میں بدل دیا اور اپنے آباو اجداد کی طرح عیش و عشرت میں پڑے
ہوئے ہیں اور ادھر دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ۔
اور آج ہم انہیں غیروں کی تہذیب کے دلدادہ ہیں جنہوں نے ہماری تہذیب کو مسخ
کرنے کی کوئی کوشش جانے نہیں دی جس کو بچانے کی خاطر ہمارے بڑوں نے بےشمار
قربانیاں دیں، اپنی اعلی اور پاکیزہ روایاتِ تعلیمات اور تہذیب و تمدن ہونے
کے باوجود جو قرآن و سنت سے ہمیں ملتی ہیں جن میں سب کیلئے آسانی ہے ہم نے
غیروں کی روایات کو اپنایا ہوا ہے جس وجہ سے ہم اپنا ملک ہونے کے باوجود
پستی کا شکار ہیں. ہم وطن میں عزت کے ساته کام کرنے کو تیار نہیں اور باہر
کے ملکوں میں جاکر تھکے کھانے کو تیار ہیں.ہمارے سیاست دان آپس کی ناچاقیوں
میں الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے نوجوان ہمارے شاہین جنہوں نے مستقبل کو
سنوارنا تها وہ اپنے اپ سے تنگ ہیں مگر ان کے ذریعے امریکہ آسٹریلیا
برطانیہ یورپ ضرور سنورے گا اور کہتے ہیں کہ پاکستان میں رکھا کیا ہے.
یہ بجا ہے کہ کچھ خرابیاں ہیں یہاں ، وسائل کی کمی ہے، نوکریاں نہیں ہیں
مگر ہمیں سمجھنا ہے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور اسی سے ہماری پہچان ہے اور
اسی سے ہماری عزت ہے .اور ہمیں ہی اس کی بہتری کیلئے کام کرنا ہے اور اس کے
لیے کوششیں کرنی ہیں اور اسے اس قابل بنانا ہے کہ دنیا ہم پر فخر کر سکے
.ہم سب کو اپنے اپنےحصہ کا کردار ادا کرنا ہے ، اپنے ذاتی مفاد کو پڑے رکھ
کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کر نا ہے ، اپنا بنک بیلنس جمع کرنے کے
ساتھ ساتھ ہمیں ضرورت مند بھائیوں کا بھی خیال رکھنا ہے ،اور اگلی بار اگر
یہ سوال سننے میں ملے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا تو ضرور پوچھیے گا کہ ہم
نے پاکستان کو کیا دیا ، پاکستان سے ہی ہماری آن ہے ہماری شان ہے اور ہمیں
ہی اس کی سالمیت کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہے .
|