بلا کی جہالت کے سبب سیدھی سادی خلق خدا کو بار بار
ٹھوکریں مل رہی ہیں۔کبھی اپنے نام نہاد ملازمین سے۔کبھی اپنے نام نہاد
خادمین سے۔اس جہالت کے سبب بار بر اسے پھسلا لیا جاتاہے۔بار بار وہ لٹ رہی
ہے۔مگر نہ لوٹنے والے صبر کرنے پر آمادہ ہیں۔نہ اس کی کم علمی جان چھوڑ رہی
ہے۔ ایسے لوگ مسلط ہوچکے جو اہل نہ تھے۔جو جوازنہ رکھتے تھے۔جو جابر
ہیں۔کسی اصول اور ضابطے کی بجائے صرف ڈانگ سوٹے کے زور پر قابض ہوچکے۔جب وہ
اس دھکے شاہی سے نجات کے کے لیے کوئی مسیحا ڈھو نڈتی ہے تو اسے مذید مایوسی
ہوتی ہے۔اسے تکلیف ہوتی ہے کہ ان کا دفاع کرنے والے غیرسنجیدہ رویہ اپناتے
ہیں۔وہ معاملے کی سنگینی سمجھنے کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ سی سوچ رکھتے ہیں۔جو
مصیبت قوم کے سر پر سوار ہے اس کا مقابلہ کرنابڑا جوکھم والا کام ہے۔سیاسی
قیادت اتنی مشقت سے کتراتی ہے۔جب ان کی نیم دلانہ کوششیں کچھ نتیجہ برامد
کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر وہ بجائے اپنی ناکامی قبول کرنے کے دھوکے
دہی اور فریب کاری کا سہار ا لیتے ہیں۔ عوام کو مائل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ
قسم کے نعرے متعارف کروائے جاتے ہیں۔اپنی ناکامی کی عجب عجب تاویلیں ڈھونڈی
جاتی ہیں۔قیادت کی اس غیر حقیقت پسندانہ اور بزدلانہ پالیسی کے سبب قوم پر
مسلط غیر جمہوری اور غاصب عناصر اپنی گرفت بدتدریج مذید مضبوط کرتے چلے
جارہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو حالیہ الیکشن میں بد ترین شکست کا سامنا ہوا ہے۔سندھ میں
اسے دس کے قریب سیٹیں زیادہ ضرور ملیں مگردوسرے صوبوں میں وہ پہلے سے بھی
زیادہ سکڑتی نظرآئی۔پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے سابق
صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی مستقبل کی حکمت عملی کے خدو
خال بیان کیے۔سابق صدر کا عزم تھاکہ جمہوریت کے دائرے میں رہ کر حالات کا
مقابلہ کریں گے۔سندھ میں بہترین نتائج ملے اب دوسرے صوبوں میں بھی توجہ
دینے کی ضروت ہے۔جنوبی پنجاب صوبہ بنانا مشن ہے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش
کریں گے۔پاکستان بچانا ہے۔گیلانی کی سیکورٹی واپس لینا مجرمانہ فعل
ہے۔پارٹی نظریے پر چلیں گے۔
پی پی قیادت کی باتیں اور رجحان دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس
پارٹی کے دن پھرنے والے نہیں۔اس کی قیادت ابھی تک حقیقت سے آنکھ چرارہی ہے
۔اپنی غلطیاں تسلیم کرنے اور ان کا ازالہ کرنے کی بجائے وہ اب بھی گفتار کی
غازی بننے کی کوشش میں ہے۔وہ الیکشن میں بد ترین نتائج پر فکرمند نہیں ۔ملک
میں حالیہ سیاسی منظر نامے پر اسے تشویش نہیں وہ جتنا تھوڑا بہت ملا ہے اسی
پر صابر وشاکر ہے۔
پی پی کا موجود سیاسی منظر نامے میں کسی خاموش تماشائی سے بڑھ کرکچھ کردار
نہیں۔لیڈرشپ ملک کو درپیش مسائل کا تو واویلہ کررہی ہے ۔خود کو درپیش
رکاوٹوں کا بھی باربار ذکر کیا جارہا ہے۔مگر اس صورت حال میں جو کردار ادا
کرنا چاہیے ۔اس سے احترا زکیا جا رہا ہے۔ الزام لگا یا جارہا ہے کہ تحریک
انصا ف کو ایجنسیوں نے سپورٹ فراہم کی ہے۔اس کی طرف الیکٹ ایبل بھجوائے ۔جب
کہ پی پی کے ورکرز اور قیاد ت کو ڈریا دھمکایا جارہا ہے۔پی پی کو اپنی
الیکشن کمپئین میں زبردست قسم کی مشکلات ہوئی۔اسے سیکورٹی فراہم کرنے سے
انکار کیا جاتا رہا۔جب کہ تحریک ا نصاف کو سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہ درپیش
ہوا۔یہ باآصانی ملک کے طول وعر ض میں اپنی سرگرمیاں جار ی رکھے رہی۔ نگران
سیٹ اپ اور عدلیہ بھی پوری طرح تحریک انصا ف کے حق میں معاملات کرتے چلے
گئے۔عین الیکشن کے قریب آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور
کے خلاف توکاروائیوں کی گونج سنائی دیتی رہی جب کہ تحریک انصا ف کی قیاد ت
کو بار بار کی غیر حاضری پر بھی احتسابی ادارے متحرک نہ ہوئے۔پی پی کو بہت
سے گلے ہیں مگراس جماعت کا کردار عملا رات گئی بات گئی جیساہے ۔عملا وہ ان
زیادتیوں کے خلاف کچھ کرنے پر آمادہ نہیں۔ایک بڑی پارٹی ہونے کے باوجود کچھ
بڑا کرنے کا نہ تو حوصلہ پارہی ہے ۔اگر کوئی دوسرا فریق اس ناانصافی کے
نظام پر میدان میں اترتا ہے تو بھی پی پی اس کا ہاتھ نہیں بٹاتی۔اس صورت
حال میں بھلا پی پی کے روشن مستقبل سے متعلق کوئی پشین گوئی کرنا کیسے ممکن
ہوسکتاہے۔بجائے اس کے کہ وہ ظالموں کو للکارے ۔ان کے ہاتھ توڑنے کی بات کرے
وہ صابر وشاگر بنی ہوئی ہے۔بجائے وہ محنت اور جد وجہد سے مراد پائے اسے چور
دروازوں کی تلاش ہے۔جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا مشن بھی چوردروازہ ہی ہے
۔بجائے یہ کہ وہ عوام کو کوئی بہتر پالیسی دے کر ہمنوابنائے ۔اس کے دکھ درد
کم کرکے اعتماد لے۔وہ پنجاب کی توڑپھوڑ کرکے کوئی چھوٹا موٹا ایسا علاقہ
بنوانے کے چکر میں ہے۔جہاں سنجی ہوجائیں گلیاں وچ مرزایار پھرے جیسا معاملہ
ہو۔جہاں کوئی دوجا نہ ہو۔کسی سے مقابلہ نہ ہو۔
بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان بچاناہے۔مگر وہ یہ بھی تو بتائیں کہ
پاکستان کو کس سے بچانا ہے۔وہ الیکشن کمپئین میں اس طرح کے بیسیوں نعرے
لگاتے رہے مگر الیکشن کے نتائج بتارہے ہیں کہ قوم کو اب خالی نعروں سے نہیں
مائل کیا جاسکتا۔وہ پاکستان بچانا ہے جیسے نعرے لگارہے ہیں۔ان کے والد
بزرگوار جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کو مشن بنائے ہوئے ہیں۔قوم کے مسائل تو
اور ہیں ۔مگر پی پی قیادت اب بھی کچھ اور راگ آلاپ کرکام نکالنے کے چکر میں
ہے۔اس کی خودفریبی ہے کہ قوم اب نعروں اور باتوں کے جال میں آجائے گی۔قوم
بار بار گفتار کے غازیوں سے بے زاری کا اظہا رکررہی ہے مگر یہ لوگ اپنی
اصلاح پر امادہ نہیں۔اس طرح کے نعرے تماشہ گری اور شعبدہ بازیوں سے بڑھ
کرکچھ نہیں ۔پی پی قیادت پلے باندھ لے کہ تماشہ گریوں سے اب کچھ ہونے ہوانے
والا نہیں۔ |