آفاق نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ناکام ہو گیا۔ وڈیرے کے
ملازم نے اسے پکڑے کے لیے ٹانگ پر گولی ماری۔ آفاق کی تانگ پر گہرا ذخم
ہوا ۔ گولی اس کی ٹانگ کو چھو کر گزری تھی ۔وہ درد سے چیخ رہا تھا۔ ملازم
اسے گھسیٹتا ہوا واپس طبیلے میں لے گیا۔ اس نے آفاق کو گالیاں دیتے ہوئے
کہا۔ تجھے آرام ہے اب ۔ اس نے اس کے پیٹ میں ایک ذور سے لات ماری اور
دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ درد اور تکلیف سے آفاق کا برا حال تھا۔ اس کی
ٹانگ سے خون ابھی بھی بہہ رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگ کو پکڑ لیا ۔ اس کے
ہاتھ درد سے کانپ رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس کے ہاں سغرہ کو بھی طلب کر لیا گیا۔ وقار اور عارفہ اپنی صفائی دے
رہے تھے۔ دوسری طرف سغرہ بھی قسمیں کھا کھا کر اپنے سچا ہونے کی دہائی دے
رہی تھی ۔ پویس والے نے غصے سے سغرہ کو کہا۔ تمہارا پورا نام ہے کیا اور ہو
کہاں کی۔ سغرہ نے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ کہیں میرا جھوٹ نہ کھل
جائے۔اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ صاحب سغرہ بی بی زبیدہ۔ پولیس والے نے اسے گھور
کر دیکھا۔ سغرہ یابی بی زبیدہ۔ سغرہ نے منہ نیچے کرتے ہوئے کہا۔ جی صاحب وہ
جی ۔ پہلے اماں نے سغرہ نام رکھا پھر جب کچھ بڑی ہو کر بیمارہوئی تو ہمارے
مولوی صاحب نے نام بدلوا دیا۔ تو سغرہ کو ہٹا کر بی بی زبیدہ رکھوا دادیا۔
پھر سب کی سغرہ کہنے کی عادت نہیں چھوٹی تو کوئی سغرہ کہتا ہے تو کوئی
زبیدہ ۔ پولیس والے نے گھورتے ہوئے کہا۔ تمہاری بیٹی کا ہاتھ کیسے جلا
۔سغرہ نے رونا شروع کر دیا۔ صاحب جی بتایا تو ہے سب۔ پولیس والے نے ہنس کر
کہا۔ یہ جگہ ایسی ہے جہاں ہر کوئی روتا ہے۔ یہ ٹسوے بہانا بند کرو اور پوری
واردات کا بتاو۔ ہاتھ کب جلا جلنے کے بعد تم نے کیا کیا؟رمشہ کو لیڈی
انسپکٹر الگ سے لے گئی تھی۔ پہلے تو پولیس والی نے رمشہ کو کھانے کے لیے
چاکلیٹ دی ۔اس سے پوچھا کہ وہ کسی سکول جاتی ہے۔ رمشہ نے منہ بناتے ہوئے
کہا۔ باجی سکول کیسے جاوں گی۔ اماں کہتی ہے کام کرو گی تو روٹی ملے گی۔
پولیس والی نے پیار سے کہا۔ کیوں کام نہ کرو تو روٹی نہیں ملے گی۔ بڑی ظالم
ہے تمہاری اماں۔ اس سے تو اچھا ہے کسی یتیم خانہ میں رہو۔ اچھا کھانا بھی
ملتا ہے اور بچوں سے کام بھی نہیں کرواتے۔ رمشہ نے حیرت سے کہا۔ کیا باجی
ایسی کوئی جگہ ہے جہاں اچھا اچھا کھانا ملے پر کام نہ کرنے پڑے ۔ اماں ابا
کی مار بھی نہ ملے۔ پولیس والی نے محبت سے کہا۔ کیا۔ تمہارے امی ابو تمہیں
مارتے ہیں ۔ رمشہ کی انکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ چپ ہو گئی۔ پولیس والی
بھی خاموش اسے دیکھتی رہی۔ رمشہ نے پھر پولیس والی سے کہا۔ کیا آپ میری
مدد کرو گی۔ ایسے یتیم خانے میں جانے کے لیے۔ پولیس والی نے پیار سے اس کے
سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی ۔ بیٹا امی ابو ہیں تمہارے ، کبھی کبھا ر غلط
کاموں پر میں بھی اپنے بچوں کو ڈانٹتی اور مار بھی جاتی ہوں ۔ تمہاری امی
تو بہت اچھی ہیں ۔دیکھو نا تمہارے لیے کہاں تک پہنچ گئی۔ رمشہ نے منہ
بسوڑتے ہوئے کہا۔ میرے لیے نہیں باجی پیسوں کے لیے۔ پولیس والی نے حیرت سے
کہا۔ پیسوں کے لیے کیسے۔ رمشہ ہنسی۔ وہ ٹی وی والی نے لارا جو دیا مد د کا
۔بس اسی لیے۔ پولیس والی نے مذید حیرت سے کہا۔ تو عارفہ نے تمہارا ہاتھ
نہیں جلایا ۔ رمشہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ کسی نے نہیں جلایا میرا ہاتھ ،
وہ تو ابا مار رہا تھا تو میں گِر گئی اور ہاتھ چولھے پر ۔ پولیس والی نے
رمشہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو پھر یہ ٹی وی چینل والے کیا بول رہے ہیں ۔
رمشہ نے کچھ دیر خاموش رہنے کہ بعد کہا۔وہ تو جی دوا خانے میں مل گئی تھی
ٹی وی والی۔ اماں کو لگا کچھ پیسے دے دے گئی تو رونا دھونا کرنے لگی۔ بغیر
رونے دھونے کے ہماری مدد کوئی نہیں کرتا ۔ اماں کہتی ہے۔ اس نے دو گالیاں
نکال کر کہا،ان کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔پولیس والی رمشہ کے پاس سے اُٹھ کر
باہر چلی گئی ۔ اس نے آ کر ریکاڑڈنگ سغرہ اور پولیس والے کو سنائی ۔ پولیس
والےنے تمسخر خیز لہجے میں تمکین سے کہا۔ یہاں تو کیس ہی بدل گیا ۔ میڈ م
اب بولیں۔
تمکین نے غصے سے سغرہ کی طرف دیکھا۔ چیخ کر بولی ۔ تم نے جھوٹ بولا تھا۔
سغرہ بلکل چپ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ نے موبائل کو غصے سے پٹخا۔ بڑا آیا ملنے والا۔ وہ خرم کی طرف سے
آنے والے دھمکی والے میسج سے پریشان تھی ۔ وہ اسے ملنے کے لیے بلا رہا
تھا۔ وہ اسے مسلسل ٹال رہی تھی۔ خرم نے اسے میسج کیا کہ اگر وہ اسے ملنے
نہیں آئی تو وہ اس کے گھر آ جائے گا۔ وہ حیران تھی کہ اس نے اس کے بارے
میں کیسے پتہ کیا ہے۔ وہ یہی سب سوچ رہی تھی کہ اس کی امی کمرے میں آئیں ۔
وہ بیمار رہنے لگی تھیں ۔ چار ماہ سے آفاق کا کچھ پتہ نہ تھا ۔ آفاق کے
بغیر گھر کو چلانا تنزیلہ کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ ارحم کی پیدائش کے
بعد سے ہی وہ اسے منحوس سمجھ رہی تھیں ۔ تنزیلہ بیڈ پر بیٹھی ہی تھی کہ
آمنہ بھی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے امی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، امی
آپ کی طبعیت ٹھیک ہے۔ تنزیلہ نے افسردگی سے کہا۔ پتہ نہیں میرا بیٹا پھر
وہ رونے لگی۔
وہ جب اس طرح روتی تو اکثر بے ہوش ہو جاتی۔ آمنہ نے نصرت کو آواز دی۔
بھابھی بھابھی پانی لے کر آئیں ، امی کے لیے۔ نصرت فوراً ہی پانی لے آئی۔
نصرت بھی ہر وقت آفاق کے بارے میں سوچتی ۔ کبھی کبھی جب اس کے دل میں
آفاق کو ہمیشہ کے لیے کھو دینے کا خیال آتا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے
لگتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت اپنی امی کے گھر گئی، آفاق کی گمشدگی کی وجہ سے وہ بھی پریشان تھیں ۔
نصرت نے جب انہیں بتایا کہ تنزیلہ ارحم کو پسند نہیں کرتی تو انہیں بہت
افسوس ہوا ۔ نصرت کی انکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کی امی رونے لگی۔ نصرت کی
بھابھی پاس آ کر انہیں تسلیاں دینے لگی۔ انہوں نے نصرت سے باتوں باتوں میں
کہا کہ اسے کوئی کام کرنے کا سوچنا چاہیے۔ اللہ نہ کرئے اگر آفاق کبھی
واپس نہیں آیا تو۔ نصرت کی امی نے اس کی بھابھی کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اللہ
نہ کرئے۔ کیسی باتیں کرتی ہو۔ تو نصرت کی بھائی نے کہا در اصل کالج میں ایک
لائبریری کے لیے ورکر چاہیے ۔ روز روز ملازمت بھی کہاں ملتی ہے ۔ میں نے
سوچا نصرت کو مشورہ دوں ۔ بھابھی کی بات نصرت کے دل میں بھی چبھی ۔ وہ
فوراً ہی واپس گھر جانے کا کہہ کر اُٹھ گئی۔ جب وہ واپس آئی تو آفاق کے
ماموں پہلے ہی گھر میں موجود تھے ۔ نصرت نے آتے ہی سلام کیا ۔ انہوں نے
ارحم کو گود میں لے کر پیار کیا۔ انہوں نے تنزیلہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
ہم اپنی طرف سے ابھی بھی مایوس نہیں ہیں ۔ آفاق کے لیے ہماری کوشش جاری
ہے۔
تنزیلہ نے روتے ہوئے کہا۔ بھائی جان آپ تو جانتے ہیں ،میرے گھر کا تو
چلانے والا وہی ہے۔ اس کے بغیر ہم کیا کرئیں گئے۔ اب تو گزرا کرنا مشکل ہو
رہا ہے۔ ماموں جان نے دس ہزار روپے تھماتے ہوئے کہا۔ تمہاری بہو پڑھی لگی
ہے۔ اللہ سب بہتر کر ئے گا۔ تم فکر نہ کرو۔ تنزیلہ نے روتے ہوئے کہا۔ بھائی
جان میں آفاق کے آتے ہی سب سے پہلے آپ کے پیسے واپس لٹاوں گی۔ ماموں جان
کچھ نہ بولے۔ انہوں نے پرس واپس رکھتے ہوئے کہا۔ اچھا میں اب چلتا ہوں ۔
نصرت کے ذہین میں اپنی بھابھی کی بات گونجی۔ اس نے تنزیلہ کے پاس بیٹھتے
ہوئے دھیرے سے کہا۔ امی اگر آپ اجازدت دیں تو میں کوئی کام کر لوں ۔
تنزیلہ نے افسردگی سے ارحم کی طرف دیکھا اور بولی ۔ اسے کون دیکھے گا۔ نصرت
نے ارحم کی طرف پیار سے دیکھا ، بولی۔ کوئی ماسی رکھ لیں گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ نے روتے ہوئے کہا۔ مصیبت جب آتی ہے تو اکیلے نہیں آتی۔ ایک طرف
آفاق بھائی کا کچھ پتہ نہیں ، دوسری طرف خرم نے تنگ کر کے رکھا ہے۔ نادیہ
نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے تو تمہیں پہلے کہا تھا۔ غلط
کام کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ آمنہ نے افسردگی سے کہا۔ غلطی ہو گئی یار ۔
مجھے لگا ۔ کہاں کوئی گھر تک آتا ہے۔ اب تک کہیں افیئر چلائے ،مگر یہ تو
پیچھے ہی پڑ گیا ہے۔ کیا کروں؟نادیہ نے سنجیدگی سے آمنہ کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا۔ تم فون کی سم بند کروا دو۔ آمنہ نے روتے ہوئے کہا۔ میں نے اسے
اپنے گھر کے سامنے کھڑے دیکھا ہے۔ وہ کالج تک موٹر سائیکل پر ہماری وین کا
پیچھا کرتے ہوئے آیا اور اشارے کرتا ہوا، آگے چلا گیا۔ نادیہ نے کچھ دیر
سوچتے ہوئے کہا۔ تم اس سے جس طرح پہلے بات کرتی تھی کرتی رہونا۔ آمنہ نے
روتے ہوئے کہا۔ وہ بہت گندی گندی پکچر مجھے بھیج رہا ہے۔ وہ مجھ سے ملنا
چاہتا ہے ۔ تم سمجھ رہی ہو نا ۔ میں کیا کہہ رہی ہوں ۔ نادیہ نے افسردگی سے
کہا۔ تم نے اس سے دوستی کیوں کی تھی۔ آمنہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے ایک
لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ مجھے کیا پتہ تھا۔ کتا۔گھر تک آ جائے گا۔ میں تو
بس فن کے لیے۔
نادیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ تو اب کرو فن ۔
آمنہ نے جوش میں آتے ہوئے کہا۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں ۔ ایسے میں
کس سے مدد لوں ۔ نادیہ نے کچھ دیر خاموش رہتے ہوئے کہا۔ ماموں سے کہو۔
آمنہ نے حیرت سے نادیہ کی طرف دیکھااور کہا۔ پاگل ہو گیا۔ اس کے پاس میرے
میسج ہیں ۔ سم میرے نام ہے ۔ ماموں کیا سوچیں گئے۔ نادیہ نے اس گھور کر
دیکھااور بولی۔ تم تو کہتی تھی میرے ماموں ہیں ۔ کوئی میرا کیا بگاڑ سکتا
ہے ۔
آمنہ نے پھر رونا شروع کر دیا۔ میں نے اسے ڈرایا ، ماموں کا نام لے کر
،مگر اس نے میرے میسج مجھے دوبارہ بھیج کر دھمکی دی کہ وہ یہ سب میرے ماموں
کو دیکھائے گا۔ نادیہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ تم لوگ تو ایک سال سے بات جیت
کر رہے ہو نا۔ تو اچانک اسے کیا ہو گیا ہے۔ آمنہ نے دو گالیاں دیتے ہوئے
کہا، اس نے میرا واٹس ایپ اکانٹ ہیک کیا ۔ شیزاد کے ساتھ میری چیٹ دیکھ لی۔
اسے لگتا ہے کہ میں نے اسے دھوکا دیا ہے ۔ وہ اس کا بدلہ لینا چاہتا
ہے۔نادیہ نے حیرت سے کہا ۔ کیا؟ یہ بھی ہوسکتا ہے۔
نادیہ نے فوراً سے کہا ۔ تم شیزاد سے مدد کیوں نہیں لیتی ۔ ممکن ہے وہ خرم
کو مار بھگائے۔ آمنہ نے نادیہ کی طرف کچھ دیر دیکھنے کے بعد کہا۔ ایسا کیا
جا سکتا ہے۔ شیزاد کافی ڈیسنٹ میسج کرتا ہے ۔ مگر ایسا نہ ہو کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ سوچ رہی تھی۔
نادیہ نے اس کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے کہا۔ اب جو بھی کرو سوچ سمجھ کر کرنا۔
جلد بازی میں کچھ نہیں کرنا۔ آمنہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ صبح کو خرم نے
جو میسج کیا اور جیسے وہ اشارے کر رہا تھا۔ میرا تو جی چاہ رہا ہے ۔ اس کے
منہ پر ایک ذور کا طمانچہ ماروں ۔
نادیہ نے افسردگی سے کہا۔ یہ سب کرنے کی ہمت بھی تو تم نے اسے دی ہے نا۔ اس
سے جی حضور کہہ کر مخاطب ہوتی رہی ہو ۔ اس نے تمہیں غلام ہی سمجھ لیا۔
آمنہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ وہ تو محض فن تھا نا۔ نادیہ نے اس کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا۔ فن اپنا اپنا ہوتا ہے۔اب کیا پتہ خرم کے لیے فن میں کیا
کیا شامل ہو۔ کل میں نے ایک ناول میں پڑھا ہے ۔ہمارے عمل ہمارے لمحات کو
اور ہمارے لمحات ہمارے جیون کو تشکیل دیتے ہیں ۔جیون وہ کتاب ہے جس کے ہر
ورق پر ہر لمحہ ہم کچھ نہ کچھ تحریر کرتے ہیں ۔ ایک چھوٹا سا نقطہ بھی لگنے
کے بعد مٹایا نہیں جا سکتا ۔ اسے ہمیں جو ں کا توں ہی قبول کرنا پڑتا ہے ۔
آمنہ نے نادیہ کو گھورتے ہوئے کہا۔ یہ تم کون سا ناول پڑھ رہی ہو۔ ۔ نادیہ
کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔اس نے دھیرے سے کہا ۔ فسادی۔
جاری ہے۔
|