وہ سیاسی جماعت جس کی حکومت مرکز کے علاوہ پنجاب ‘ گلگت ‘
آزاد کشمیر ‘ بلوچستان میں بھی تھی ‘ جو خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی
کسی حد تک مقبولیت کا دعوی رکھتی تھی ۔ 2018ء کے الیکشن میں نہ صرف پنجاب
تک محدود ہوگئی بلکہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کے بھی قابل نہ رہی ۔ یہ سب
کیسے ہوا ؟ ایک طویل داستان ہے ۔ لیگی قائدین اسے خلائی مخلوق کی کارستانی
قرار دیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ ان کی اپنی کوتاہیوں کا دخل ہے۔ یہ بات ہم
سب کو ماننی پڑے گی کہ نواز شریف نے کرپشن کی یا نہیں لیکن عمران خان نے
تین ہزار ارب کرپشن کا الزام جو نواز شریف پر اپنے جلسوں میں لگایا عوام نے
اس بات کو قبول کیا اور ووٹ کو عزت اس لیے نہیں مل سکی کہ لیگی قائدین خود
کسی ووٹر کو عزت دینے کے لیے آٍمادہ نہیں۔دوسری جانب لیگی قائدین کی حد سے
زیادہ خوداعتمادی نے معاملہ خراب کیا ۔ تنہا الیکشن لڑنے کی بجائے اگر مسلم
لیگ ن‘ ایم ایم اے کے ساتھ اتحاد کرلیتی تو نتائج یقینا مختلف ہوتے۔ شہباز
شریف کی سیاست کا دارو مدار صر ف پنجاب تک محدود تھا جبکہ پی ٹی آئی نے
پنجاب میں بھی ن لیگ کی مقبولیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایااور اب پیپلز
پارٹی کے تعاون سے پنجاب کو دو حصوں میں جلد ہی تقسیم کردیاجائے گا۔ شہباز
شریف مسلم لیگ ن کے صدر تو بن گئے لیکن وہ خود کو قومی سطح کے لیڈرثابت نہ
کرسکے ۔ انہوں نے سندھ اور بلوچستان جانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی حالانکہ
پچھلے الیکشن میں بلوچستان میں ن لیگ اکثریتی جماعت تھی ۔شبہاز شریف کے
بلوچستان نہ جانے کی بنا پر اس مرتبہ صفایا ہوگیا ۔ اگر شہباز شریف چاہتے
تو کراچی میں ن لیگ کو اچھی خاصی سیٹیں مل سکتی تھیں لیکن انہوں نے کراچی
کو کرانچی کہہ کر پان کھانے والوں کا جو تمسخر اڑا یا اس نے ن لیگ کا کراچی
سے جنازہ نکال دیا ۔ زمانہ بدل چکا ہے جب تک کسی کے پاس جاکر ووٹ نہ مانگا
جائے کوئی ووٹ نہیں دیتا ۔ شہباز شریف اور دیگر لیگی قائدین اسی خوش فہمی
میں مبتلا رہے کہ لوگ پولنگ اسٹیشنوں میں پہنچ کر ووٹ دے کر مسلم لیگ ن کے
امیدواروں کوکامیاب کروا دیں گے ۔لیگی قیادت کی جانب سے چوہدری نثار احمد ‘
سید غوث علی شاہ ‘ ذوالفقار کھوسہ اور جاوید ہاشمی کے ساتھ جو ناروا سلوک
کیا گیااس میں بھی فرعونیت نظر آتی ہے۔ شبہاز شریف اگر ذاتی طور پر جاکر
انہیں پارٹی میں واپس لے آتے تواس وقت اپوزیشن میں نہ بیٹھنا پڑتا ۔ چوہدری
نثار کے مقابلے میں لیگی امیدوار اتارانا بھی غلطی تھی ۔ دونوں ہار گئے اور
تحریک انصاف کا امیدوار جیت گیا ۔ میں سمجھتا ہوں چوہدری نثار کو شکست نہیں
ہوئی بلکہ یہ شکست شریف برادران کے ماتھے پر کلنک کے ٹیک کی طرح ہمیشہ
جگمگاتی رہے گی۔ نواز شریف کی گردن میں سریا تو آیا ہی تھا شہباز شریف اور
حمزہ شہباز نے پارٹی کو اپنے خاندان کی لونڈی بنا کر ہر وہ فیصلہ کیا جو ان
کی سمجھ میں بہتر تھا ۔ مسلم لیگ کو خاندانی وراثت بنانے کا ایک اور ثبوت
یہ ہے کہ جتنی بھی خواتین ممبر اسمبلی بنیں ان میں اکثریت لیگی قائدین کی
بیگمات ‘ بیٹیاں اور بہوئیں شامل ہیں ۔کسی خاتون کارکن کو اسمبلی میں منتخب
کروانا کیوں گناہ سمجھا گیا ۔ جب پارٹی میں اقربا پروری اس حد تک بڑھ جائے
تو شکست سے بچناناممکن ہوجاتا ہے ۔ اگردس پندرہ سیٹیں ایم ایم اے میں شامل
جماعتوں کو دے دی جاتی تو اس وقت شہباز شریف وزارت عظمی کا حلف اٹھا چکے
ہوتے ۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ نہ نواز شریف کسی کا مشورہ مانتے ہیں
اورنہ شہباز شریف یہ زحمت گوارا کرتے ہیں۔ حمزہ شہباز ابھی سے خود کو جنرل
ٹکا خان سمجھ بیٹھے ہیں ۔لیگی کارکنوں کا مقدر صرف شریف برادران کے لیے
نعرے لگانا ‘ جیلیں کاٹنا اور پولیس کے ڈنڈے کھانا رہ گیا جبکہ ٹکٹوں پر
ایک مافیا قابض ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی بھی کارکن کونہ تو کوئی حکومتی اور
انتظامی عہدہ مل سکتا ہے اور نہ ہی ٹکٹ مل سکتا ہے ۔دیگر لیگی قائدین کی
طرح خواجہ سعد رفیق بھی حد سے زیادہ خود اعتماد ی کاشکار ہوئے ۔ انہوں نے
آخری دو دنوں میں نہ ڈور ٹو ڈور مہم چلائی ‘ نہ پولنگ کے دن ووٹروں
کونکالنے کے لیے ٹرانسپورٹ مہیا کی ‘ نہ پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے کے لیے
کسی ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا ‘ نہ مسلم لیگ ن کا منشور گھر گھر تقسیم
ہوااور نہ ہی پولنگ اسیٹشن کے اندر ان کاپولنگ ایجنٹ نظر آیا ۔ ہر حلقے کا
کونسلر( سوائے چوہدری سجاد احمد کے ) ووٹروں کو گھروں سے نکالنے کی بجائے
اپنے گھر تک محدود رہا۔ خواجہ سعد رفیق خود فیلڈ سے غائب رہے۔ ان کو شاید
یہ غلط فہمی تھی کہ وہ اب بھی وفاقی وزیر ہیں اور ووٹ انہیں گھر بیٹھے
بٹھائے مل جائیں گے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ کامیابی مفت میں نہیں ملتی
بلکہ اسے حاصل کرنے کے لیے مکمل ہوم ورک بھی کرنا پڑتا ہے خواجہ سعد رفیق
بھی خود اعتمادی کا شکار ہوکر شکست کھا بیٹھے اوراب گنتی کے لیے دربدر کی
ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ چند حلقوں کو چھوڑ کر مرکزی
قیادت لاہورکے تمام حلقوں میں جلسہ نہیں کرسکی ۔اگر دانش مندی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے مرکزی قائدین (جن میں ظفرالحق ‘ شاہد خاقان عباسی ‘ چوہدری نثار
‘ جاوید ہاشمی ‘ مشاہد اﷲ ‘ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے سینئر رہنما
شامل ہوتے)کو پنجاب سمیت باقی صوبوں میں ہر ضلعی مقام پر جلسہ کرنے کی ذمہ
داری سونپ دی جاتی توقیادت کے فقدان کا کسی حد تک ازالہ ہوجاتا۔۔ حقیقت میں
ایسا نہیں ہوسکا اورہر امیدوار نے خود ہی اپنی مہم چلائی۔ نہ سندھ ‘
بلوچستان ‘کے پی کا رخ کیاگیا اور نہ ہی پنجاب کے تمام حلقوں میں جلسے کیے
جاسکے۔ جب ہوم ورک ہی مکمل نہ ہو تو پھر نتائج کیسے حوصلہ افزا نکلتے ہیں۔
الیکشن سے ایک دن پہلے ٹی وی چینلز پر یہ خبر میں نے خود سنی کہ مسلم لیگ ن
کی مقبولیت میں دس فیصد کمی اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں چودہ فیصد
اضافہ ہوچکا ہے ۔تحریک انصاف کو کچھ اپنی مقبولیت میں اضافے کے ووٹ ملے تو
کچھ لیگی قائدین اور امیدواروں کی حماقتوں نے کام دکھایا۔اب بھی موقعہ ہے۔
لیگی قائدین اپنی گردنوں سے سریا کو نکال کرمسلم لیگ ن کو خاندانی جماعت
بنانے کی بجائے عوامی جماعت بنا ئیں اور ہر حلقے میں پرائمری یونٹ کو بحال
کرکے کارکنوں کو ہر سطح پر عزت دی جائے ۔ ہر قومی ‘صوبائی اور بلدیاتی حلقے
کے امیدوار کا انتخاب پرائمری یونٹوں کی مشاورت سے کیاجائے بلکہ پاکستان
سطح پر اپنی تنظیم سازی مکمل کرکے پارٹی کو متحرک کریں۔جاوید ہاشمی جیسے
دلیر لیڈر کو پارٹی کا سنیئر نائب صدر بناتے ہوئے ‘چوہدری نثار ‘سید غوث
علی شاہ اور ذوالفقار کھوسہ جیسے دیرینہ مسلم لیگیوں کو عزت سے واپس لایا
جائے ۔اگر ایسا نہ کیا تو رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ |