کنویں کے پانی کو صاف کرنے کیلئے کتے کو بھی باہر نکالنا ہوگا

میرے خیال میں سرائیکی خطے کی محرومیوں کے بارے میں یہ کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ 71سالوں سے اس خطے سے منتخب ہو کر آنے والے جاگیرداروں اور لینڈ لارڈز نے اپنے دور اقتدار میں اس خطے کی محرومیوں کو دور کرنے میں کیا کردار ادا کیا تو جواب نفی میں ملیگا۔ جب بھی انتخا بات نزدیک ہوتے ہیں سرائیکی صوبے کے وہ حامی جو بلا شرکت غیرے اس صوبے پر اقتدار میں آ کر اس کی دولت کو سمیٹنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اس صوبے کی محرومیوں کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں اور اسے صوبہ بنانے کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ باسی کڑھی کی ہنڈیا میں یہ ابال اسی وقت کیوں آتا ہے جب انتخابات کا چولہا اپنی پوری آب وتاب سے دہک رہا ہوتا ہے؟؟ دوسری طرف ایک وہ لابی ہے جو صوبہ بہاولپور کی بحالی کا نعرہ لگاتی ہے۔ اسی طرح صوبہ کی مخالف قوتیں پورے پاکستان میں صوبے کی آواز جنوبی پنجاب یا سرائیکی علاقے کی عوام کو دبانے کی کوششو ں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ آجکل جبکہ انتخابات ہو چکے ہیں اور اس خطے کو سرائیکی صوبہ بنانے کے وعدے کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے اور سرائیکی صوبے، یا جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی باتیں زبان زد عام ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے؟؟

سرائیکی علاقے کی اکژیت سرائیکی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے مغلوب سرائیکیوں کے حالات ہمیشہ انتہائی دگروں رہے اور یہاں کے اکثر سرائیکی محنت کش اور غریب لو گ تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا شکا ر رہے ستم با لائے ستم یہ کہ یہاں کے جاگیرداروں ، وڈیروں اور لینڈ لارڈز کو اقتدار میں رہتے ہوئے بھی یہاں کی غریب اور محنت کش اکثریت کی اس پریشان حالی کا احساس تک نہ ہوا اور یہ سیاسی کھلاڑی ہمیشہ سیاسی فائدے کییلئے عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا مفاد ات حا صل کرتے رہے اور ہر دور میں خوا ہ وہ آمرانہ دور ہو یا پھر نام نہاد جمہوری دور ہو انکی ہمیشہ پانچوں گھی میں رہیں او ر یہ اقتدار کے مزے اڑاتے رہے۔ ہم یہاں یہ بات بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ کو ئی سیاسی کھیل نہیں یہ ایک حقوق کی منظم تحریک ہے جو دہائیوں سے ہمارے خطے میں موجود ہے۔ اس خطے کی محرومیوں کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہاں کا جاگیرداری نظام اور وڈیرہ شاہی نظام ہے جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے۔تاریخ کی ستم ظریفی کے تحت مجوزہ صوبہ کے لوگوں کی خصلت میں وڈیروں کی تابعداری شامل ہو چکی ہے یہاں تک کہ یہاں کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے ناموں پر زیر نگیں مزارعے اور انکے کمی وہ نام نہیں رکھ سکتے جو انکے بچوں کے ہوتے ہیں، انکے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا آداب بجا لانا، انکے سامنے زمین پر بیٹھنا ، محنت کشوں اور غریبو ں اور انکے گھروں میں خدمت پر مامور خواتین سے جسم دبوانا عام سی بات ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی میں سرائیکی صونہ بننے سے کوئی فرق نہیں پڑنے لگا۔ سوائے اس کے کہ وسطی پنجاب کے سیاستدان جاگیر دار اور سرمایا دار جنوبی پنجا ب پر حکومت نہیں کر سکینگے۔ چنانچہ چند وڈیروں کو فائدہ پہنچا کر یہاں کی آبادی کو غلام بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد معاشی بدحالی کو دُور کرنے کا لالچ دے کر مجوزہ صوبے کو صوبہ سندھ کے ساتھ ملا کر دریائے سندھ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے۔

جس سیاسی جماعت کا جس صوبہ میں ہولڈ ہے، وہ وہاں پر نئے صوبوں کے بارے میں بات کرنا جرم سمجھتی ہے۔ جیسے پیپلزپارٹی سندھ میں ایم کیوایم کے کراچی کو صوبہ بنانے کے مطالبہ کے جواب میں بلاول سے کراچی کے عوامی جلسہ میں کہلواتی ہے کہ مرسوں مرسوں سندھ ناڈیسوں، مطلب مرجائیں گے لیکن سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دینگے۔ دوسری طرف وہی بلاول بھٹو زرداری جب ملتان کے جلسہ میں شریک ہوتاہے تو گیلانی کے ساتھ کھڑا ہوکر نعرے لگواتاہے کہ ’’گھنسوں گھنسوں، سرائیکی صوبہ‘‘ مطلب پنجاب کی تقسیم جائز ہے اور سندھ کی حرام ہے۔ دراصل اس پالیسی کے پیچھے موصوف کے سیاسی واردات یوں ہے کہ سندھ اسی طرح ان کی سیاسی جاگیر رہے۔سرائیکی صوبہ باقی تمام صوبوں میں دو دو ٹکڑوں کا باعث بن سکتا ہے۔ خیبر پختونستان صوبہ تو شاید مان جائے مگر بلوچستان جہاں پر پشتون لوگ ایک اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں وہ بھی مطالبہ کرینگے اور اسطرح بلوچی نہیں چاہیینگے کہ انکے دوٹکڑے ہوں، اسی طرح سندھ میں ایک بڑی تعداد اردو بولنے والوں کی جو سند ھ میں رہتے ہیں اگر انہوں نے مطالبہ کر دیا تو پھر یہ ایک مسلۂ ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان بنانے میں سب سے ذیادہ قربانیاں دیں اور انکے لئے پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہ وہاں پر رہتے ہوئے اپنے جائز مطالبات منوا سکیں اور اپنی شناخت قائم کر سکیں پھر وہ بھی سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگائینگے اور یہ انکا قدرتی اور جائز حق بنتا ہے کہ انکی شناخت کو قائم رکھنے کیلئے انکے پاس بھی ایک خطہ ہونا چاہئے کہ انکی ثقافت بھی اہمیت کی حام ل ہے۔ جب یہ تینوں صوبے نہیں مانینگے تو سرائیکی صوبہ بننا مشکل ہو جائیگا اور ایک نئی لڑائی سر ابھار لے گی جس پر قابو پانا مشکل ہو جائیگا۔اردو ، پنجابی، بلوچی اور پختون لوگوں کا اس خطے میں رہنا مشکل ہوجائیگا۔ یہ ایک انتہائی خطرناک چال ہے جس کے ذریعے خون خرابے کا جال بچھایا جا رہا ہے اور خانہ جنگی کا سا سماں پیدا کرکے یہاں کے لوگوں کو زبان کے نام پر لڑانے کی ایک سازش ہے جسے بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

اصل مسلۂ صوبے کا نہیں ہے بلکہ غربت ، پسماندگی ، جہالت اور مقامی لوگوں کی بنیادی سہولتوں کا ہے ۔ اصل میں سرائیکی خطے کا جاگیردار اور لینڈ لارڈہمیشہ کیلئے یہاں کے پسماندہ لوگوں کو اپنے زیر نگیں رکھنا چاہتا ہے اور وہ اپنی مکمل آزاد حکومت بنا کر یہاں کے علاقے پر اپنی طمن داری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسکی اس خطے پر بلا شرکت غیرے حکومت ہوا ور وہ کھل کر یہاں پر اپنی مرضی کا کھیل کھیل سکے اور یہاں کے پسماندہ لوگوں کو کسی قسم کے سہولیا ت سے لطف اندوز نہ ہونے دیا جائے۔ یہ نعرہ صرف اپنی علیحدہ شناخت کو قائم رکھنے کیلئیے لگایا جاتا ہے اس سے کسی بھی غریب کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی غریب حکومت میں آ کر کوئی کردا ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ غریب کو مفاد تب ہی حاصل ہوگا جب یہاں پر ان لینڈ لارڈز اور جاگیر داروں کے مقابلے میں ترقی کے مواقع حاصل ہو سکیں جن میں تعلیم، صحت، بے روزگاری کا خاتمہ اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے۔

اگر ہم یہ کہیں کہ سرائیکی لوگوں کو جو تا حال پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ صوبہ کا مطالبہ کیا حیثیت رکھتا ہے اور انکی راے اس معاملے میں کیا ہے تو علیحدہ صوبے کے حق میں انکے پاس سوائے اس کے کہ انہیں آسودگی حاصل ہوجائے کوئی مدلل جواب نہیں ہے کہ یہ انکا مسلۂ ہی نہیں ہے یہ تو جو چند لوگ سرائیکی صوبے کا راگ الاپ رہے ہیں اُس کا سبب یہ ہے کہ پچھلی آدھی صدی میں رُکن اسمبلی یا وزیر بن کر جتنا وہ لوٹتے رہے ہیں وزیر اعلٰی اور گورنر بن کر اور زیادہ لوٹنے کے خواہشمند ہیں اور عوام کو اپنا غلام بنانے کی سوچ رہے ہیں تاکہ پنجاب کا جاگیر دار اور لینڈ لارڈ اسمیں حصہ دار نہ بنے اور وہ اکیلا ہی اپنے مفادات حاصل کرتا رہے۔بنیادی بیماریوں کا علاج کرنے کی بجائے بلند بانگ نعروں اور صرف باتیں بنانے سے اور چکنی چپڑی باتوں کی مرہم پٹی سے دل تو بہل جا سکتا ہے لیکن جب تک ہماری نیتون کا پلید کتا کنوئیں میں موجود ہے باتیں بنانے اور زبانی کلامی خرچ کرنے سے یا پھر نعروں کی بالٹیاں بھر بھر کر صرف پانی نکالے سے یہ کنواں پاک نہیں ہوگا۔ اس کتے کو بھی کنویں سے باہر نکالنا ہوگا اور یہ مشکل لگتا ہے۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.