پارلیمانی نظام حکومت میں صدر اور گورنرز کاعہدہ
علامتی ہوتا ہے۔ ملک کا چیف ایگزیکٹو وزیراعظم اور صوبے کی باگ ڈور
وزیراعلیٰ کے پاس ہوتی ہے۔ چوہدری محمد سرور ایک سینئر پارلیمنٹیرین ہیں۔
انھوں نے برطانیہ میں دو حلقوں سے الیکشن لڑا اور جیت کر پارلیمنٹ ممبر بنے۔
کہا جاتا ہے کہ وہ ارب پتی ہیں۔ ان کا برطانیہ میں وسیع کاروبار ہے۔ ان کی
سیاست بھی بے داغ رہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر نامزد ہونے کے
بعد انھوں نے برطانوی شہریت ترک کر دی۔ ان کے بیانات سے ایسا لگ رہا تھا کہ
وہ شریف برادران کی بعض پالیسیوں کے نقاد ہیں۔ کئی مواقع پر انھوں نے ان
پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی۔ وہ عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے
پاس ایک عزم تھا۔ قوم کی خدمت کاجذبہ تھا۔ لیکن ان کی عوام نوازی کی یہ
سیاست زیادہ دیر نہ چل سکی۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 17ماہ
گورنر رہ کر کمال کر دیا۔ ورنہ اتنا عرصہ ان حالات میں گورنر رہنا ان کے بس
میں نہ ہوتا۔ ان کا مزاج ہی ایسا نہیں ہے کہ بے اختیار گورنری سے چپک جائیں۔
وہ گورنری سے مستعفی ہونے کے ایک ماہ بعد پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ۔
چوہدری صاحب نے پاکستان میں سیاست کرنے کا انتخاب کیا ۔ دو سال انتظار نہ
کیا۔ یہ سول سرونٹ کے لئے ضروری تھا۔ وہ دو سال بعد ہی کسی سیاسی پارٹی میں
شامل ہوسکتے تھے یاا پنی پارٹی قائم کرلیتے۔ ملک کا آئین یہی کہتا ہے۔ سابق
گورنر کے طور پر ان پر آئین کے آرٹیکل 63کا اطلاق ہوتا تھا۔ پولیٹیکل
پارٹیز آرڈر2002بھی انہیں دو سال تک سیاست سے دور رکھ رہا تھا۔ آصف علی
زرداری نے صدارت چھوڑی تو وہ دو سال تک سرگرم سیاست میں حصہ نہ لینے کے
پابند بنے۔ وہ اسی وجہ سے پی پی پی کے چیئر مین نہ بن سکے۔ اب وہ 2018کے
انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں۔ اپنے فرزند کے ہمراہ وہ ایوان
زیریں کا حصہ ہیں۔بعض قانونی ماہرین سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کا حوالہ
دیتے ہیں کہ کس طرح گورنری کے بعد دو سال مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ پی پی پی
کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔
صدر مملکت اور گورنرز ایک ہی کیٹگری میں آتے ہیں۔ چوہدری محمد سرور نے صدر
مملکت ممنون حسین کا حال بھی دیکھا ۔ جن کے اختیارات علامتی ہیں۔ ملک میں
صدارتی نظام حکومت ہو تو صدر اور گورنرز ہی چیف ایگزیکٹوز ہوتے ہیں۔ جولائی
2013کو چوہدری محمد سرور برطانوں شہریت سرینڈر کرنے کے بعد پاکستان آئے تو
صدر مملکت نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سفارش پر انہیں گورنر
پنجاب مقرر کیا۔ وہ پنجاب کے 35ویں گورنر بنے۔ انھوں نے دہشتگردی کے خلاف
کارروائیوں کے دوران متاثر ہونے والے فوجیوں کی لاہور میں منعقدہ تقریب میں
بیان دیا کہملک میں دہشتگردی سرگرمیوں کے پیچھے امریکہ، برطانیہ اور یورپ
کا ہاتھ ہے۔ یہ ایسا بیان تھا کہ جس سے ان کی بے باکی کا اندازہ لگایا جا
سکتا ہے۔ اس لئے اندازہ تھا کہ وہ اب ملک میں رہنا پسند کریں گے۔ انھوں نے
طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات سے معاملہ نپٹانے کی کوشش کی۔ جب ان کا طیارہ
اسلام آباد کے بجائے لاہور میں اتارا گیا تھا۔ میاں صاحب نے جب پی ٹی آئی
سے مزاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دی تو چوہدری صاحب اس کے رکن بنے۔ اس سے ان
کی شخصیت کا ایک اہم پہلو اجاگر ہوا۔ پی ٹی آئی کے سابق صدر جاوید ہاشمی نے
ایک بار کہا کہ چوھدری سرور پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر نواز حکومت کے خلاف
سازش کر رہے ہیں۔ جس کی چوھدری صاحب نے تردید کی اور واضح کیا کہ ان کے
شریف برادران سے اختلاف نہیں ۔مگر بعد میں ہاشمی صاحب کی بات درست ثابت
ہوئی۔ ان مذاکرات کے دوران ہی چوہدری صاحب پی ٹی آئی کے ہو گئے۔ تب چوھدری
صاحب نے لندن میں الطاف حسین کے ساتھ ملاقات میں مشترکہ پریس کانفرنس کی جس
میں ایم کیو ایم سربراہ نے دو سال کے لئے ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کرنے کا
مطالبہ کیا تھا۔انھوں نے سابق امریکی صدر اوباما کی بھارت یاترا اور
پاکستان نہ آنا حکومت کی ناکامی قرار دیا۔ یہی کہا جاتا ہے کہ استعفیٰ کی
یہی بڑی وجہ تھی۔ تا ہم استعفے کی بنیادی وجوہات انھوں نے خود بیان کیں۔ وہ
اپنے اہداف پورے نہ کر سکے۔ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل کرنا
چاہتے تھے۔ لیکن ان کی یہاں زمینوں پر مافیا کا قبضہ ہے۔ان کے بقول سابق
حکومت یہ جبری قبضے ختم کرانے میں ناکام ہوئی۔ یہ قبضہ گروپ گورنر سے بھی
زیادہ طاقتور نکلے۔دیکھنا ہے کہ اب وہ اس طاقت کو کتنی جلدی توڑنے میں
کامیاب ہو سکیں گے۔ چوہدری صاحب بلدیاتی انتخابات کے حق میں تھے۔ لیکننواز
حکومت کو اس پر آمادہ نہ کر سکے۔ اب وہ پی ٹی آئی کو کیسے آمادہ کریں
گے۔چوہدری صاحب ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتیتھے ۔ اس لئے وہ بے اختیار
گورنری کے بجائے وفاقی کابینہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کا طویل تجربہ ہے۔
اس سے یہاں کے عوام کو مستفید کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ نظام کی تبدیلی ضروری
ہے۔ جو بلا شبہ ان کے بقول فرسودہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے بعد پی ٹی آئی میں
شامل ہو کر وہ شاید اپنے اہداف حاصل کر سکیں۔ مارچ 2018میں وہ پنجاب سے
سینیٹر منتخب ہوئے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کو منظم کیا۔ انتخابات کے بعد وہ
ایک بار پھر گورنر پنجاب نامزد ہو گئے ہیں۔ وہ خارجہ پالیسی کی بہتری،
پولیس کو غیر سیاسی بنانے، کرپشن کے خاتمے، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے
کا اعلان کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ مسلم لیگ ن کے گورنر چوہدری محمد
سرور صاحب اور پی ٹی آئی کے گورنرچوہدری محمد سرور صاحب میں کیا خاص فرق
محسوس کیا جا سکے گااور وہ یہاں اورسمندر پار پاکستانیوں کے لئے کیا خدمت
انجام دے سکیں گے۔
|