مرد مومن مرد حق ضیاء الحق

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے جہاں کو ویران کر گیا
میں اُس وقت چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا جب میں نے ریڈیو پاکستان پر یہ نعرہ سنا ، مرد مومن مر د حق ضیاء الحق ضیا ء الحق۔ کم سنی کی وجہ سے اُن کے اس نعرے کے مطلب سے بالکل بے خبر ،نا آشنا تھا ،لیکن مومن اور حق کے بارے تھوڑا فہم رکھتا تھا کہ مومن وہ جو ایمان کی حالت میں ہو اور حق یعنی سچ پر قائم رہنے والا۔ تو اس لحاظ سے جنرل صاحب کے بارے اتنا ضرور جان گیا تھا کہ جنرل صاحب ،صاحب ایمان اور حق پر رہنے والے انسان تھے ۔وہ ایسے انسان تھے جن کی نظر میں سب سے پہلے پاکستان پھر کوئی دوسرا تھا اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد مرد مومن مردحق ایک وسیع النظر تہجد گذار لیڈر تھا جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی تو غلط نہ ہوگا ۔یہ وہ لیڈر ہے جس کو مسلمانوں کی امامت کی سعادت حاصل ہے وہ مسجد نبویﷺ میں عبادت میں مشغول تھے کہ ایسے میں ایک شخص نے اُن کو کہا محترم آئیں اور نماز کی جماعت کرائیں جنرل صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور انہوں نے کہا میں ایک عام سا انسان ہوں اور امام کعبہ میری کیا جرت کہ میں امامت کراؤں تب امام کعبہ نے وہ خوبصورت الفاظ کہے ’’ جناب میں تو کعبہ کا امام ہوں اور آپ پورے مسلمانوں کے امام‘‘ تو آپکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آپ نے امامت کے فرائض انجام دیے ۔

یہ وہ واحد مسلمان لیڈر تھا جس سے دشمنوں کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے اور لہجے کانپتے تھے ۔اپنے دور اقتدار میں کسی ایرے غیرے کی جرت نہ تھی کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا کیوں کہ جنرل صاحب کو اُن کو اُن کی زبان میں بات کرنے کا فن خوب آتا تھا۔ جنرل ضاء الحق پاکستان کی چھٹے صدر تھے ۔ ایک مرتبہ جنرل صاحب میچ دیکھنے بھارت گئے تو جہاز کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے ان کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی بھی تھا ، راجیوگاندھی نے کہا میں پاکستان کو ختم کر دونگا جس کے جواب میں جنرل ضیاء الحق نے کہا میں جب سیڑھیاں اتروں گا تو میرے سب سے پہلے الفاظ کیا ہوں گے ؟ ’’فائر‘‘ آپ صرف ایک پاکستان کو ختم کر یں گے لیکن اسلام ختم نہیں ہو گا کیونکہ دنیا میں بیشتر ممالک اسلامی ہیں ہاں میں البتہ بھارت کو ختم کر دوں گا جس سے’’ ہندوایزم ‘‘ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ یہ سنتے ہی راجیوگاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور اُس نے کہا’’ مجھے دنیا کا خطر ناک ترین انسان اُس وقت جنرل ضیا ء لگا‘‘ یہ تھا وہ لیڈر جس کے دل میں نہ خوف تھا ، نہ لالچ ، وہ صرف پاکستان کو سپر پاور بنانا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ بڑے بڑے مگر مچھوں کے دل کو نہ بھاتے تھے۔

جنرل ضیاء الحق 12 اگست 1924ء کو جالندھر (بھارت) میں پیدا ہوئے ، آپ کا تعلق آرائیں گھرانے سے تھا،آپ کے والدمحمد اکبر جو کہ پاکستان بنے سے پہلے( انڈیا آرمی دہلی جی ایچ کیو) میں سٹاف کلرک کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے ۔آپ کا گھرانہ ایک مذ ہبی گھرا نہ تھا آپ کے والد صاحب کو مذہب سے والہانہ عقیدت تھی جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں مولوی اکبر کے نام سے جانے جاتے تھے، اس کی مثا ل اس بات سے بھی لگائی جا سکتی ہے ،ایک مرتبہ محمد ضیاء الحق کو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک کمرے میں سزا کے طور پر بند کر دیا گیا اور والد محترم نے کہا جب تک توبہ، معافی نہیں مانگوگے اور نماز کی پابندی کا وعدہ نہیں کروگے تم اس کمرے میں بند رہوگے ۔ جس کے بعد جنرل صاحب نے معافی مانگی اور نماز کی پابندی کا وعدہ بھی کیا تب جا کر جنرل صاحب کو کمرے سے رہائی ملی۔اس قد ر ان کا گھرانہ مذہبی عقیدت رکھتا تھا۔ابتدائی تعلیم شملہ (بھارت)میں سے ہی مکمل کی جب کہ اعلی تعلیم کے لیے ایس ٹی سٹیفن کالج(دہلی یونیورسٹی)میں داخلہ لیا۔او ر 1943ء میں تاریخ کے مضمون میں بے اے کی ڈگری حاصل کی وہ انتہائی زہین طالب علم تھے ۔اور اس کے بعد آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ زمانہ طالب علمی میں کالج دور میں بھی وہ مذہب سے جڑے رہے حا لانکہ انگریز ان کی سخت مخالفت کرتے تھے لیکن وہ اپنے ارادوں کے پکے تھے بعض اوقات اُن کو سخت مزاحمت کا سامنہ بھی کرنا پڑتا لیکن وہ ایسی تکالیف سے کبھی نہ گھبراتے اور سچی لگن سے اپنے مقصد میں ڈتے رہتے ۔جنرل ضیاء کا تعلق مذہب کی طرف بچپن سے ہی تھا فوج میں کمیشن لینے پر ایک انگریز افسر نے ان کی مذہب کے ساتھ عقیدت پر سرزنش کی تھی جس پر وہ اس افسر کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے لیکن مذہب پر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔

یہ جنرل ضیاء الحق صاحب ہی تھے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں منکرین ختم نبوت ( قادیانیوں) کو شعائر اسلامی استعمال کرنے سے باز رکھنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو ایک صدارتی آرڈیننس نمبر 20 جاری کیا جس کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا، نہ اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کر سکتا ہے۔نہ اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے اور نہ شعائر اسلامی کا استعمال کر سکتا ہے۔ قادیانیوں نے اس آرڈیننس کو ’’حقوق انسانی‘‘ کے خلاف سمجھا اوراس کے خلاف پوری دنیا میں شور مچایا۔ تمام اسلام دشمن طاقتیں بالخصوص بھارت اور مغربی میڈیا ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گیا لیکن مسلمانانِ پاکستان کی بلند ہمتی اور اسلامی جذبوں سے سرشار ملی یکجہتی کی بدولت قادیانی پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہوئے۔ بالآخر قادیانیوں نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت، مختلف ہائی کورٹس اور بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا جہاں ان کی رٹ درخواستیں خارج کرتے ہوئے جج صاحبان نے نہ صرف متفقہ طور پر اس آرڈیننس کو درست قرار دیا بلکہ اسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور 298 سی کا مستقل حصہ بنا دیا۔

روس کے خلاف جنگ میں جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے جو شرائط منوائیں، سفارت کاری کی تاریخ میں وہ ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔

پہلی شرط یہ تھی کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ پاکستان طے کرے گا کہ اسکو کیا چاہئے اور امریکہ پابند ہوگا کہ اس ضرورت کو پورا کرے۔ امریکہ نے یہ شرط مان لی۔دوسری شرط یہ تھی کہ امریکہ کبھی خود اس جنگ کے نزدیک نہیں آئے گا اور پاکستان جیسے چاہے گا اپنی مرضی سے اس جنگ کو کنٹرول کرتا رہے گا نیز اسلحے کی مجاہدین میں تقسیم بھی پاکستان خود کرے گا۔امریکہ کو جنرل ضیاء کی اس دلیل سے سخت نفرت تھی لیکن اسکے باوجود وہ مان گئے جس پر کئی بھارتی دانشوروں نے لکھا بھی تھا کہ ’’یہ بہت کڑوی گولی تھی جو جنرل ضیاء کے ہاتھوں امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے نے نگلی’’ سب سے اہم شرط جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے یہ منوائی تھی کہ پاکستان ایٹمی پروگرام جاری رکھے گا لیکن امریکہ ہر سال اقوام متحدہ سے پاکستان کو یہ سرٹیفیکٹ دلوائے گا کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جس پر انڈیا اور اسرائیل میں آگ لگی ہوئی تھی، کہ جب بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہوٹہ ’’بم والی فیکٹری ہے ’’تب اقوام متحدہ اور امریکہ کیسے پاکستان کو یہ سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں؟

’’جنرل ضیا ء الحق (صدر پاکستان) کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ دوستی اپنی شرائط پر قائم رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ جنرل ضیا ء الحق کا یہی فرق ہے کہ وہ پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمرانوں میں واحد ہیں جنہوں نے پاکستان کے کسی موئقف میں ذرا بھی لچک پیدا کیے بغیر امریکہ سے اپنے معاملات کو درست رکھا‘‘

یہ عظیم اور درویش صفت انسان لاکھوں عقیدت مندوں کی آنکھوں میں آنسو دے کر 17 اگست 1988ء کو ایک طیارہ حادثے میں شہید ہو گئے ۔ وہ ایک عظیم ، سپہ سالار ،ایک مدبر انسان،ذہین ترین سیاست دان، سفارت کار اور سچا کھرا پاکستانی لیڈر تھا۔ اس حادثے میں صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق کے علاوہ ایک جنرل، ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرل، پانچ بریگیڈیئرز، ایک کرنل، ایک کیپٹن، ایک ونگ کمانڈر، دو اسکواڈرن لیڈر، دو فلائٹ لیفٹیننٹس، ایک چیف وارنٹ افسر، ایک چیف ٹیکنیشن، چار سینیئر ٹیکنیشن، ایک جونیئر ٹیکنیشن، اور ایک نائب صوبیدار شہید ہوئے۔ غیر ملکی ہلاک شدگان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں تعینات ایک امریکی بریگیڈیئر جنرل بھی شامل تھے۔سرکاری اعلان کے مطابق جنرل ضیاء الحق فوجی یونٹس کے معائنے کے لیے بہاولپور گئے تھے۔ واپسی پران کا سی 130 طیارہ 4:30 منٹ کے قریب بہاولپور ایئرپورٹ سے اڑا۔ چند منٹس کی اُڑان بھرنے کے بعد طیارے کو حادثہ پیش آگیا اور وہ تباہ ہو گیا جس میں تمام قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔طیارے کے حادثے کی خبر جونہی نشر ہوئی پورے ملک میں کہرام مچ گیالوگوں / عقیدت مندوں کے رونے، سسکیوں اور چیخوں کی آوازیں سنی گئیں کئی لوگ اس خبر کو سننے کے بعد بے ہوش ہو گئے تھے۔ا س کے بعد طیارے کو حادثہ پیش آنے کی وجو ہات جاننے کے لیے کمیٹی بنائی گئی لیکن افسوس اس کو آج تک کچھ پتہ نہیں لگایا جا سکا کہ یہ حادثہ کیسے پیش آیا؟

M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 48773 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More