قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا
مرحلہ طے ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے آج(17اگست) انتخابات ہوئے۔ قومی
اسمبلی میں عددی اکثریت سے تحریک انصاف کے نامزد سپیکر اسد قیصر کی کامیابی
نے انتقال اقتدار پر چھائے ہلکے خدشات بھی ختم کر دیے تھے۔ ۔اب وزارت عظمیٰ
کے انتخابات کے موقع پر نتائج کی صورت جو بھی ہو، لیکن اتنا ضرور ہے کہ
قومی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کامیاب
ہوچکے ہیں۔ کپتان کو پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم لکھا اور پکارا جائے گا۔
ملک میں اقتدار کی منتقلی کا تیسرا دور ہے۔ اس سے قبل ’دو جمہوری حکومتوں‘
کے انتقال کا عمل پُرامن طریقے سے تمام تر ’’تحفظات‘‘ کے باوجود مکمل ہوا
تھا۔ موجودہ حکومت کو انتقال اقتدار تمام تر ہنگامہ آرائیوں، تحفظات و
خدشات کے ساتھ شدید بے یقینی کا شکار رہا، لیکن قیام پاکستان کے بعد تیسری
بار یہ موقع آیا کہ ایک جمہوری حکومت کو ’’الیکشن‘‘ کے بعد اقتدار منتقل
ہوا ہے۔ گو مسلم لیگ(ن) نے نئے قومی اسمبلی سپیکر اسد قیصر کا استقبال شدید
احتجاج کے ساتھ کیا اور اسے ’’جعلی مینڈیٹ‘‘ قرار دیا۔
مسلم لیگ(ن) کی سابق حکومت کا زیادہ تر دور، دھرنوں، مقدمات، احتجاج
مظاہروں، سول نافرمانی، مڈٹرم الیکشن، جوڈیشل مارشل لا، ٹیکنو کریٹ حکومت
سمیت مارشل لا لگنے کی افواہوں میں گزرا۔ ریاستی اداروں سے تصادم، ریاستی
ستونوں میں عدم توازن کے علاوہ پڑوسی ممالک کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں اور
سازشوں نے بھی سابق حکومت کے لیے چیلنجز پیدا کیے۔ مالی طور پر پاکستانی
معیشت قرضوں تلے دبتی چلی گئی اور کئی بڑے برج ’’الیکشن‘‘ میں زمیں بوس
ہوئے اور پہلی بار ایک ایسی ’’سیاسی جماعت‘‘ کی حکومت بننے جا رہی ہے جس
میں پاکستان کی قریباً تمام سیاسی جماعتوں کے سابق عہدے داران شامل ہیں۔
کابینہ کی تشکیل کے بعد اس کا ضرور جائزہ لیں گے کہ نئی حکومت کی کابینہ
میں ایسے کتنے وزرا ہیں جو خالص تحریک انصاف کے قیام سے اب تک اپنی جماعت
سے وابستہ رہے۔ بہرحال اس وقت کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر
سوار تحریک انصاف، مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی ہے۔ کئی بڑے چیلنجز
درپیش ہیں۔ میرے نزدیک عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی جماعت کی
جانب سے کیے جانے والے بڑے بڑے وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ اپنے انتخابی منشور
سمیت مختلف تقاریر میں عمران خان ’ناقابل یقین‘ دعوے کرچکے ہیں، کیونکہ
آمریت کے ساتھ جمہوری جماعتوں میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اقتدار کی
دوڑ سے باہر ہوئی ہیں اور پہلی بار باقاعدہ ایک ایسی’’سیاسی جماعت‘‘ کے پاس
’عنان حکومت‘ ہے جو 22 برسوں سے ’’اقتدار‘‘ میں آنے کی کوشش کررہی تھی،
تاہم ماضی کی طرح کسی ’تانگہ پارٹی‘ یا ’فارورڈ بلاک‘ بنانے کا تجربہ نہیں
کیا گیا، اس لیے عوامی توقعات کا سونامی عروج پر ہے۔
تحریک انصاف اور ان کی اتحادی سیاسی و ’غیر سیاسی‘ قوتیں آنے والے دور میں
کیا کردار ادا کرتی ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا، تاہم ملک کی بقا و
سلامتی کے لیے تمام عوام تہہ دل سے دعاگو ہیں کہ پاکستان دگرگوں و سنگین
مسائل سے باہر نکل سکے۔ اپوزیشن کا رویہ کیا رہتا ہے، اس کی ایک جھلک قومی
اسمبلی کے دوسرے سیشن میں دیکھنے کو مل چکی ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا
ہے کہ کیونکہ مسلم لیگ(ن) غیر متوقع ناکامی کے بعد سخت بددل اور مایوسی کی
کیفیت میں مبتلا ہے، اس لیے ان کا احتجاج ’جذباتی‘ تھا۔ پیپلز پارٹی کے
اراکین مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں قدرے مطمئن نظر آئے، کیونکہ ان کا سیاسی
کردار بہرحال مسلم لیگ(ن) سے مختلف ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بارے
میں سیاسی پنڈت کہہ چکے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے نت نئے مطالبات
’’تحفظات‘‘ کی صورت سامنے آتے چلے جائیں گے۔ اس کا پہلا مظاہرہ متحدہ قومی
موومنٹ، سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی پر
’’تحفظات‘‘ کی صورت کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی لفظی گولا باریوں پر
عمران خان تلواروں کو میان میں رکھنے کا حکم صادر کرچکے ہیں۔ حکومت سازی کا
مرحلہ مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی و مقامی قیادت اور نامزد گورنر
سندھ کا کردار بہرحال بڑا دلچسپ ہوگا۔ عمران خان کے حلف اٹھانے سے قبل
دوسری اہم اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا روٹھ جانا بھی بنی گالہ
میں لرزہ پیدا کرگیا، تاہم کسی نہ کسی طرح انہیں منالیا گیا۔ لیکن یہ ابھی
شروعات ہے۔ عمران خان کے منشور کے پہلے 100دن میں کیے جانے والے ابتدائی
وعدے کس شکل میں آگے بڑھتے ہیں، اس پر قریباً ’دنیا‘ بھر کی نظر ہوگی۔ بادی
النظر قوی امکان یہی ہے پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت پہلے تین
مہینوں میں ایسے اقدامات کو ترجیح دے گی، جس میں کم ازکم اپنی اتحادی
جماعتوں کو طویل المیعاد منصوبوں کے لیے مطمئن کرسکیں۔
قومی اسمبلی کے علاوہ سندھ، خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں سیاسی
ہنگامہ آرائیوں کے مظاہرے بہت کم دیکھنے کو ملیں گے، تاہم وفاق اور پنجاب
سیاسی اکھاڑے کا منظر ضرور پیش کرتے رہیں گے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف
اگر اپوزیشن کو موقع فراہم نہیں کرتی تو عمران خان کو زیادہ دشواریوں کا
سامنا نہیں ہوگا، لیکن اصل بات یہی ہے کہ کپتان کو ’’اصل چیلنج خود‘‘ سے
ہے۔ ماضی کی طرح ناقابل عملیات کی غیر منطقی توجیہات (یوٹرن) بنالینا اب
ممکن نہیں ہوگا۔ راقم انہی صفحات میں متعدد بار مشورہ دے چکا تھا کہ عمران
خان اور ان کی جماعت کو ماضی کی سیاست چھوڑ کر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا
ہوگا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے اپنے رویوں
میں تبدیلی پیدا کرنا شروع کردی ہے۔ خاص کر عمران خان نے زرداری اور بلاول
کے ساتھ تقریب حلف برداری میں خود ہاتھ ملاکر تصویر بھی بنوائی جو ایک مثبت
رویہ تھا۔ عمران خان نے شہباز شریف سے بھی ہاتھ تو ملایا لیکن ان کی آنکھوں
کی طرح دل بھی نہیں مل سکے۔ پیپلز پارٹی کا مستقبل میں کردار بڑا اہم ہوگا
اور شنید یہی ہے کہ وہ مزاحمتی سیاست میں ٹھہراؤ کا مظاہرہ کرے گی، جس کی
ایک جھلک قومی اسمبلی میں اسد قیصر کی کامیابی کے بعد بطور احتجاج اپنی
نشستیں نہ چھوڑنا اور مسلم لیگ(ن) کی طرح شدید ردعمل نہیں تھا۔ الیکشن
کمیشن کے باہر ریاستی اداروں کے خلاف نعروں سے بھی لاتعلقی کا اعلان پی پی
پی کی سیاست کے رخ کا تعین کررہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و نومنتخب عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے
ساتھ الٰہ دین کا چراغ نہیں ملے گا کہ اُسے رگڑتے ہی اہم مسائل حل ہوجائیں۔
دیکھنا ہوگا کہ انہیں اقتدار تو مل گیا، کیا اختیار بھی ملے گا۔ اس حوالے
سے وقت کے ساتھ گرد بھی چھٹتی چلی جائے گی کہ قائد اعظم کے بعد ذوالفقار
علی بھٹو کے پاکستان میں عمران خان کس قدر بااختیار ہوں گے۔ ریاست مدینہ کی
طرح مثالی ریاست کی جانب ان کا پہلا قدم کب اور کس طرح اٹھتا ہے۔ اس کا
انتظار یقیناً سب کو ہوگا۔ ریاست مدینہ کی مثال کی پہلی اینٹ کب رکھی جائے
گی اس کا انتظار تو پاکستانی قوم 71 برس سے کررہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
کیا یہ سعادت عمران خان کے ’’حصے‘‘ میں آتی ہے۔ ذاتی طور پر میں کسی خوش
فہمی میں مبتلا نہیں۔ کیونکہ یہ عمران خان کے سیاسی سفر کا پہلا جنکشن ہے،
اس لیے انہیں کئی بار استثنیٰ بھی دینا ہوگا۔ بہترین آمریت سے بدترین
جمہوریت بہتر ہے اور جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس پر جس جس کو یقین ہے،
انہیں عمل پیرا ہونے کی ضرورت زیادہ ہے۔
|