کپتان عمران خان آخر کارپاکستان کے وزیراعظم بن ہی گئے ۰۰۰

پاکستان کے 22ویں وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے حلف لے لیا۔ انہوں صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے ایوان صدر میں حلف دلایا۔ منتخب وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس سے قبل پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی کے اراکین نے 13؍ اگسٹ کو ایوان پہنچ کر حلف لیا ۔ اس موقع پر مختلف جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مصافحہ بھی کررہے تھے اور گلے بھی مل رہے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ اراکین جو 25؍ جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات سے قبل جس طرح ایک دوسرے کے خلاف مختلف الزامات کے تحت تقاریر کئے وہ سب کے سب عوام کو گمراہ کرکے انکے ووٹ حاصل کرنے کیلئے تھے ۔ کپتان عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین بشمول پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی )کے شریک چیرمین اورسابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے اپنی نشست سے اٹھ کر مصافحہ کیا اس کے بعد دونوں قائدین کی فوٹوز لی گئیں۔ عمران خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی ہاتھ ملایا اور انکے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف جب ایوان میں داخل ہوئے تو ان سے بھی عمران خان نے اٹھ کر مصافحہ کیا البتہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان دونوں قائدین میں وہ گرمجوشی نہیں دیکھی گئی جو آصف علی زرداری اور عمران کے درمیان دیکھی گئی ۔حلف برداری تقریب کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ اور پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری سمیت دیگر اراکین بھی ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار موڈ میں مصروف تھے۔ اس طرح تقریب حلف برداری کے موقع پر حکمراں اور اپوزیشن قائدین کے درمیان جس طرح کا ماحول بنا ہوا تھا اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہیکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہی نہیں بلکہ اسلامی ملک بھی ہے یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوام کے فلاح و بہبود کیلئے نکتہ چینی کرنے اور الزامات عائد کرنے کے باوجود حلف برداری تقریب میں سب کچھ بھلاکر ملاقات کررہے تھے۔ یہ پاکستان کے لئے خوش آئندہ اقدام ہوگا کہ مستقبل میں بھی عمران خان اپنے ان اپوزیشن قائدین کے ساتھ ملک کی خوشحالی کیلئے مل جل کر کام کریں گے۔ عمران خان پاکستانی عوام کو ایک نئے پاکستان کا جو خواب دکھایا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اسی کے تحت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملکی سطح پر عمران خان مضبوط ارادوں کے مالک سمجھے جاتے ہیں انہوں نے جس طرح کرکٹ کے میدان میں عالمی سطح پر لوہا منوایا ہے ہوسکتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں بھی وہ اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات ہوں کہ بیرونی۔ عمران خان کو جہاں تک پاکستان کی معیشت کو سدھارنے کا معاملہ ہے یہ ایک بہت بڑا چیالنج ہے اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اسی صورت میں ہند ۔پاکعوام اور ہندوپاک ترقی کرسکتے ہیں۔ خود عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں جس طرح کا ہندوستان کو پیغام دیا ہے یعنی انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ہندوستان اگرایک قدم آگے بڑھایا تو پاکستان دو قدم آگے بڑھائے گا ۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی عمران خان کو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے کامیاب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے وزیراعظم کا حلف لینے کے بعد ہند و پاک کے درمیان کس طرح کے تعلقات قائم ہوتے ہیں ۔ سب سے اہم مسئلہ ہندو پاک کے الکٹرانک میڈیا کا ہے حکومت ہند اور حکومت پاکستان دونوں ممالک کے الکٹرانک میڈیا کو متنبہ کرنا چاہیے کہ مذاکرات کے موقع پر ہو یا کسی اور موقع پر میڈیا اپنے فرائض منصبی کو سمجھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان بہتر اور خوشگوار تعلقات کے لئے کوشش کریں کیونکہ جب تک پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات نہ ہونگے دونوں کی معیشت کو استحکام ملنا دشوار ہے اور ترقی کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مملکت سعودی عرب کے فرمانرواو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی عمران خان کو مبارکباد دی ہے اور انہیں سعودی عرب آنے کی دعوت دی جبکہ عمران خان نے بھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی کس طرح ہوگی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کیونکہ ان دنوں امریکہ اور پاکستان کے درمیان بھی تعلقات کشیدہ ہیں ۔امریکہ نے 1960 کے دہے سے پاکستانی افسران کو فوجی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے تھے ، 1990ء کے دہے میں یہ سلسلہ معطل کردیا گیا تھا لیکن 11؍ نومبر 2001کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر واقعہ کے بعد اس پروگرام کو بحال کردیا گیا تھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 11؍ اگسٹ کو امریکہ نے تعلیم اور تربیتی پروگرام سے کئی پاکستانی فوجی افسران کو برخواست کرنا شروع کردیا ہے جبکہ میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے تربیتی پروگراموں میں پاکستان کی شرکت کی معطلی کی تصدیق کی ہے، امریکہ نے کہا ہے کہ اب تک 97ٹریننگ پروگراموں میں مجموعی طور پر پاکستان کی شمولیت منسوخ کردی گئی ہے ۔اس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک ایسا وار کیا ہے جو پاکستانی فوج اور حکومت کیلئے ایک وارننگ ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ عالمی سطح پر عمران خان کیا مقام حاصل کرتے ہیں اور امریکہ عمران خان کو پاکستانی اقتدار پر کس نظریہ سے دیکھتا ہے۔

امریکی رویہ کے خلاف ترکی صدرکا فیصلہ
ترکی صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ترکی میں قید امریکی پادری کی رہائی کے لئے انقرہ حکومت کو گذشتہ چہارشنبہ یعنی 8؍ اگسٹ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جو ختم ہوچکی ہے۔ ترکی کی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے والے امریکی پادری اینڈ ریوبرونسن کی رہائی کا معاملہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ان دونوں رکن ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں نمایاں اضافے کا باعث بنا ہواہے۔ طیب اردغان نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات ظاہر کیں۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نے دھمکی دی تھی کہ ترکی اس پادری کی رہائی کا مطالبہ مسترد کرنے سے باز رہے ورنہ اس کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ترکی صدر نے ترک کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی کو بھی ترکی کے خلاف سیاسی سازش قرار دیا۔ رجب اردغان نے امریکہ کی جانب سے ترکی کی معیشت کو تباہ کرنے کوشش کے خلاف کہا کہ امریکی رویے کی وجہ سے اب ترکی نئی منڈیاں اور نئے اتحادی تلاش کرے گا۔ان کا کہنا تھاکہ اس پوری کارروائی کا مقصد یہ ہے کہ ترکی سیاست اور مالیات کے معاملے میں ہتھیار ڈال دے۔ مگر اﷲ نے چاہا تو ہم اس سے باہر آ جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہم ایسے میں اپنے ایسے اسٹریٹیجک پارٹنر کو خدا حافظ ہی کہہ سکتے ہیں، جو 81 ملین آبادی کے حامل ملک کے ساتھ دوستی اور نصف صدی سے زائد عرصے کے اتحاد کو دہشت گرد گروہوں سے تعلقات پر قربان کر سکتا ہے۔اردغان نے کہاکہ تم نے 81 ملین آبادی والے ملک ترک کو دہشت گرد گروپوں سے تعلق رکھنے والے ایک پادری پر قربان کرنے کی جرات کی ہے۔امریکہ سے سفارتی اور معاشی کشیدگی کے بعد ترکی کی کرنسی لیرہ کی ڈالر کے مقابلے میں قیمت میں مسلسل کمی واقع ہو ئی ہے۔ ترکی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات میں کمی کے خدشات کے بعدترک لیرہ ڈالر کے مقابلے میں مزید 7.24 پوائنٹس نیچے آگیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 13؍ اگسٹ کو علی الصباح ایشیا اور پیسفیک میں ترک لیرہ کی قیمت 7.24 کو چھونے کے بعد پھر 7.06 پر آگیا ۔ صدر ترکی نے امریکہ کے اس فیصلے پر کہا کہ امریکہ نے ہماری پیٹھ پر چھڑا گھونپ دیا ہے۔ انہوں نے ملکی کرنی لیرا کی قدر میں انتہائی تیزی سے گراوٹ کے تدارک کیلئے شرح سود میں اضافے کو مسترد کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ وہ معاشی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ترک وزیر برائے خزانہ برات البیرق نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کی حکومت نے کرنسی کا معیار بچانے کے لیے پلان تیار کیا ہے، ریاست کے تمام ادارے جلد ہی اس حوالے سے ضروری اقدامات کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں قومی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے ہرممکن اقدام کیا جائیگا۔امریکہ کے اس فیصلہ کے خلاف ایران، پاکستان نے ترکی کی معیشت کے استحکام کے لئے ممکنہ تعاون کی پیشکش کی ہے اور اپنی دیرینہ دوستی کو قائم رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

امریکہ کی ترکی اور ایران کے ساتھ پالیسی
امریکہ کی جانب سے ترکی کی معیشت کو نشانہ بنائے جانے پر ایران نے ترکی کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارتِ خارجہ ایران کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کے جواب میں ایران ترکی کو ہرممکن سہولت اور تمام طرح کی مدد فراہم کرے گا۔ ترکی کے خلاف امریکی سازشوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تہران امریکہ کی ترکی کے خلاف جارحانہ پالیسی پر انقرہ کے ساتھ ہے۔ بہرام قاسمی کا کہنا تھا کہ ایران اور ترکی کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے اور آنے والے دنوں میں تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہونگے۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہاہے کہ امریکہ کی ترکی کے خلاف پابندیاں بری طرح ناکام ہوجائینگی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسلم ممالک کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے مگر ایران اور ترکی امریکہ کی غلامی قبول نہیں کرینگے۔ادھر ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ایک ٹویٹر بیان میں کہا ہے کہ ترکی امریکہ کا نیٹو میں حلیف ہے اور اسے اقتصادی مسائل میں ڈال کرامریکہ کا خوش ہونا شرمناک ہے۔

پاکستان کی جانب سے ترکی کے خلاف امریکی کارروئی کی مخالفت
پاکستان نے بھی امریکہ کی جانب سے ترکی کے خلاف عائد سفارتی اور اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی ملک کی جانب سے دوسرے ملک پر عائد کی جانے والی یکطرفہ پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہیکہ کسی بھی مسئلہ کو باہمی مفاہمت اور بات چیت کے ذریعہ حل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان نے ترکی کے تعلق سے کہا ہے کہ عالمی امن اور استحکام میں ترکی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے عالمی معیشت میں ترکی کو ایک انجن قرار دیا ہے ۔ اسلام آباد نے کہا ہے کہ وہ اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے انقرہ کے ساتھ کڑے رہینگے ۔

ایران کی جانب سے جدید میزائل کا کامیاب تجربہ
ایک طرف امریکہ ایران پر معاشی پابندیا ں عائد کرکے اسکی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتاہے تو دوسری جانب ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کرتے ہوئے اپنے دشمن کے خلاف کسی بھی قسم کے حملے اور بچاؤ کیلئے کامیاب تجربات کررہا ہے۔ایران نے درمیانی رینج کے جدید بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے اپنی جوہری طاقت کو مزید مستحکم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے دوران جدید بلیسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے۔ایرانی سرکاری ٹی وی آئی آر آئی بی کا کہنا تھا کہ نئے میزائل فتح مبین کا ‘کامیاب تجربہ کیا گیا ہے’ جو زمین اور سمندر میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔وزیر دفاع امیر حاتمی نے مقامی خبر ایجنسی تسنیم کو انٹرویو میں کہا کہ ‘ہم اپنے عوام سے کیے گئے وعدے کے مطابق ملک کی میزائل کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کو کسی صورت کم نہیں ہونے دینگے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر روز اپنی میزائل کی طاقت میں اضافہ کریں گے۔امیر حاتمی نے اس میزائل کے حوالے سے کہا ہیکہ اس کی بھرپور صلاحیت کے باعث کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی ہے اور یہ 100 فیصد مقامی طور پر بنایا گیا ہے جس میں تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔یاد رہے کہ رواں سال مئی میں امریکی صدر ڈو نلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے تمام جوہری معاہدوں سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف دیگر پڑوسی ممالک میں بھی خوف و ہراس پیدا ہوسکتا ہے اب دیکھنا ہیکہ ایران کے اس کامیاب تجربہ کے بعد عالمی سطح پر کس طرح کا ردّعمل ہوتاہے۔

یمن کے 40معصوم بچوں کی نماز جنازہ
درندگی چاہے کسی نے بھی کی ہوگی یہ قابلِ مذمت ہے ۔ یمنی صوبے صعدہ میں بمباری سے ہلاک ہونے والے چالیس بچوں کی تدفین میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ بچے 9؍ اگست کو سعودی عسکری اتحاد کے فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ بچوں کے جنازے میں شریک افراد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے انداز میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ اْدھر سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد نے بچوں کی بس پر کیے گئے فضائی حملے کی تفتیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی آزاد تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ ان معصوم بچوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی ہونی چاہیے اور جنہوں نے بھی اس کارروائی کو انجام دیا ہے اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل صرف شدید مذمت کرنے کے بجائے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے اقدامات کریں نہ کہ صرف مطالبہ۰۰۰

اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع کو عمر قید کی سزا
ایک مصری عدالت نے کالعدم جماعت اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع کو عمر قید کی سزا سنا دی ،ا س مقدمے میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے متعدد دیگر رہنماؤں کو بھی سزائیں سنائی گئیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالتی حکام نے بتایاکہ انہیں پانچ برس قبل ملک میں ہونے والے مظاہروں کو ہوا دینے اور لوگوں کو قتل پر راغب کرنے جیسے الزامات کے تحت یہ سزا سنائی گئی۔ اس مقدمے میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے متعدد دیگر رہنماؤں کو بھی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ مصری خبر رساں ادارے کے مطابق اس مقدمے میں ایک اور ملزم کو پندرہ برس اور تین کو دس برس قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.