پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

پاکستان کا اکہترواں یومِ آزادی گذشتہ سالوں کی نسبت انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا۔ بدلتے زمانے کے ساتھ ہر سال جدید انداز میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز سے اس دن کو منایا۔ اسکولوں میں باقاعدہ طور پر تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ گلی گلی کوچے کوچے میں جشن آزادی کا سماں تھا۔ جگہ جگہ سبز ہلالی پرچم لہرارہے تھے۔ کانفرنسز ہوئیں، پرچم کشائی ہوئی۔ کیک کاٹے گئے۔ ملی نغمے بجے ۔ چھوٹے، بڑے اور بوڑھے سب ہی خوش تھے۔ کیوں نہ ہوتے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ یہ موقع ہی خوشی کا تھا۔ پاکستان انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا۔ اسلام کے نام پر ایک ایسی مملکت وجود میں آئی تھی جس کے لیے کئی سالوں سے کوششیں کی جارہی تھیں۔ اس راہ میں کتنے ہی لوگوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ آزادی کی راہ میں مسلمان مارے گئے ، جلائے گئے، قتل کیے گئے، لوٹے گئے، دربدر کیے گئے ، ان کے بچوں کو نیزوں پر چڑھایا گیا، ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی اور نہ جانے کیا کیا ہوا۔ لیکن بالآخر تحریک پاکستان چلی ، یہ تحریک مضبوط ہوئی، اس تحریک نے زور پکڑا۔ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ۔ چند نامور علماء کے علاوہ تقریبا تمام مسلمان تحریک پاکستان کا حصہ بنے۔ یہ نیشنلسٹ اور کانگریس کے حامی علماء تھے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ان علماء کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے تھا۔ یہ وہ علماء تھے جو بھارت کے حامی اور تحریک پاکستان کے مخالف تھے۔ ان علماء کے نام تاریخ میں سیاہ باب بن چکے ہیں۔ وہ علماء دیوبند مکتبہ فکر کے اکابرین تھے جن میں حسین احمد مدنی، محمود الحسن، عطاء اﷲ شاہ بخاری، ابوالکلام آزاداور مفتی محمود وغیرہ شامل تھے۔ ان حضرات نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی اور قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا ۔اسی مکتبہ فکر کے علماء نے جشن مناتے ہوئے گاندھی جی کو مسجد میں کے منبر پر بٹھایا تھا اور اس کی تعظیم کی تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے اسی قبیل کے علماء نے کہا تھا کہ پاکستان تو کیا پاکستان کی ’’پ‘‘ بھی نہیں بن سکتی ۔ یہی وہ لوگ تھے جو پاکستان کو پلیدستان اور قائد اعظم کو ’’کافر اعظم ‘‘اور ’’رجل فاجر ‘‘ کہنے پر نازاں تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جو تحریک ِ پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف تھے اور قوم کی بنیاد وطن پر قرار دیتے تھے جبکہ تحریک پاکستان کے روح رواں اور حامی علماء اور دانشور وں کا نظریہ یہ تھا مسلمان قوم کی بنیاد وطن نہیں بلکہ دین اسلام ہے۔ علامہ اقبال نے بھی صاحب فراش ہونے کے باوجود مدرسہ دیوبند کے شیخ الحدیث مولا نا حسین احمد مدنی کے نقطہ نظر کو رد کیا تھا، جذبہ ایمانی سے ان کو للکارا اور ان کے خیالات باطلہ کی پر زور مذمت کرتے ہوئے حسین احمد مدنی کا نام لے کر فارسی زبان میں تاریخی اشعار کہے تھے ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی شخص چاہے کتنا ہی بڑا عالم دین کیوں نہ ہو اگر وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قوم وطن کی بنیاد پر بنتی ہے تو وہ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیغام سے بے خبر ہے۔ گویا علامہ اقبال نے اپنے افکار اور گہرے تاریخی تجزیے کی روشنی میں بتایا کہ مسلمانان برصغیر کی جداگانہ مملکت کا خواب اور جذبہ محرکہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ ان علماء کی پھر پور مخالفت کے باوجود پاکستان وجود میں آیا تو ان میں سے بعض خاموش ہوگئے اور پاکستان کی حمایت کرنے لگے۔ لیکن ایسے بھی تھے جن کی مخالفت قیام پاکستان کے بعد بھی نہیں رکی ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کے والدمفتی محمود نے ہفت روزہ چٹان کے مدیر آغا شورش کاشمیری کے گھر میں ایک ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ یعنی مفتی محمود کی وطن پرستی اور انگریز نوازی کا عالم یہ تھا کہ وہ قیام پاکستان کے بعد بھی وہ بڑے خوش تھے کہ ہم اس کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔

تاریخ سے بددیانتی کا عالَم یہ ہے کہ ان علماء کے معتقدین آج تک اپنے اکابرین کے جملوں کی تاویلات کررہے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح مخالفوں کی فہرست سے نکال کر حامیوں کی فہرست میں کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ’’جھوٹ کو اتنا پھیلاؤ کہ لوگ سچ سمجھنے لگیں ‘‘ اس قانون کے تحت ستر سال سے جھوٹ بولا جارہا ہے ۔ جن علماء نے حقیقی طور پر قیام پاکستان کے لیے کام کیا آج ان کے ناموں کو پس پشت ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان لوگوں کو ہیرو بناکر پیش کیا جارہا ہے جو پاکستان کی ’’پ ‘‘ کے حامی نہیں تھے۔ یعنی منزل انہیں دینے کی کوشش کی جارہی ہے جو شریکِ سفر نہ تھے۔ جب یہ حقیقت بیان کی جاتی ہے تو اس حقیقت کے بیان کو شدت پسندی کہا جاتا ہے ۔ تنگ نظری سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ لیکن حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔ سچ کبھی نہ کبھی سامنے آہی جاتا ہے۔ آج لوگوں نے اپنی جاگتی آنکھوں سے دکھا کہ جن کے بزرگ قیام پاکستان سے خوش نہیں تھے وہ لوگ آج بھی پاکستان کی آزادی سے ناخوش ہیں۔ آج پوری قوم نے جان لیا ، نہ صرف جان لیا بلکہ اچھی طرح ادراک کرلیا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی پورے پاکستان میں جشن آزادی کے موقع پر انتہائی جوش و خروش نظر آیا لیکن چند لوگوں پر مشتمل ایک گروہ نے اس دن کو یوم آزادی کے طور پر منانے کے بجائے ’’یومِ جدو جہدِ آزادی ‘‘کے نام پر منایا۔ اس گروہ کے کرتادھرتاجے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تھے جنہوں نے الیکشن میں ناکامی کے بعد بروز بدھ 8 اگست کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی جلسے میں خطاب کے دوران فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا :’’14 اگست کو ہم یوم آزادی مناتے ہیں، لیکن اس بار 14 اگست یوم آزادی کے طور پر نہیں بلکہ جدوجہد آزادی کے طور پر مناسکتے ہیں، 14 اگست سے ازسرنو عوام کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی جہدوجہد کا آغاز کیا جائے گا، ہم ملک میں کچھ طاقتوں کو اپنا حاکم تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ جس انسان نے 30 سال اقتدار کے مزے لوٹے ہوں اور اچانک اُس سے سب آسائشیں چھن جائیں اس بوکھلاہٹ کے شکار شخص سے ایسے ہی بیان کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے اس جملے کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کے آباء واجداد بھی پاکستان سے خوش نہیں تھے ۔ مولانا کے والد نے بڑے فخریہ انداز میں کہاتھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ مولانا کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اجداد کی فکری ترجمانی کی ہے۔ مولانا جب تک اقتدار میں رہے خاموش رہے لیکن جیسے ہی اقتدار سے محروم ہوئے تو اپنے والد مفتی محمود کی طرح پاکستان کی آزادی سے ناخوشی کا اظہار کیا اور جشنِ آزادی منانے سے انکار کردیا ۔ آج تک جو لوگ مفتی محمود کے بیان کی تاویلات کرتے تھے ، مولانانے ان سب کی کوششوں پر پانی پھیردیا ۔ بقولِ شاعر مولانا کے اس بیانیے پر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔جن کے بزرگوں نے پاکستان کی راہ میں قربانیاں پیش کی ہوں، آزادی حاصل کر نے کے لیے اپنا تن ، من اوردھن سب کچھ قربان کیا ہو تو ایسی قوم سے کبھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جشن آزادی منانے سے انکار کریں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جشن آزادی تو وہ منائیں گے جن کے اکابرین کا خون اس میں شامل ہے اور جن کے اکابرین پاکستان کے حق میں ہی نہیں تھے توانہیں جشن آزادی منانے کا حق نہیں ہے۔ باہمی اور سیاسی اختلافات سے قطع نظر قوم کے کچھ اجتماعی دن ہوتے ہیں۔ ان کاا حترام کیا جاتا ہے۔ چودہ اگست ہماری اجتماعی خوشیوں میں شامل ہے ۔اس خوشی کا انکار گویا اس نظریہ کا انکار ہے جس کے لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔
 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 75994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.