اللہ تعالی سے نا اُمید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہر دعا کی
قبولیت کا وقت ہوتآ ہے اور جب وہ دیتا ہے تو ہماری سوچ سے کہیں زیادہ اور
بہتر دیتا ہے_
بے شک فہمیدہ مرزا صاحبہ نے 84 کروڑ روپے کا قرض معاف کرایا تھا اور اس
وقت جب وہ زرداری صاحب کے ایما پر قومی اسمبلی کی سپیکر تھیں۔ یہ سب جانتے
ہیں۔ پھر وہ عمران خاں کی وزیر کیسے ہو گئیں ؟یہ سوال اپنی جگہ....
چلو ھم انکو وزارت سے ہٹا دیتے ھیں بلکہ انکے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کو اور
ق لیگ کو بھی ہٹا دیتے ھیں.....اور پھر حکومت پی پی پی اور ن لیگ ملکر بنا
لیں تو پھر ھو سکتا ھے ہمارے سینیئر تجزیہ کا بھی خوش ھو جائیں
گے.................عثمان بزدار قطعی ناموزوں ہو سکتے ہیں۔مگر کچھ وقت تو
دیں ھو سکتا ھے تمام اہل وطن کے اندازے غلط ثابت ھو جایں....
اور اہل وطن کے اہل علم ؤ ہنر سے گزارش ھے کہ حضرت یہ جو دو دو سیٹس کی
پارٹیاں جوڑی ہیں وفاق میں نمبر پورے کرنے کے لئے، یہ کیا الله کے واسطے
راضی ہو گئ ہیں خان صاحب کا ساتھ دینے کے لیے ؟؟ اتنے ایماندار ہیں یہ
لوگ؟؟ ان کے منہ میں دانا ڈالیں گے تو خان صاحب کُچھ آگے کا سوچ سکیں گے
!!پاکستان کے روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھاتے ھوۓ نظر آۓ گۓ....
عمران خاں صاحب کو مہلت دی جائے ۔ مہلت تو ا نہیں حاصل ھو بھی سکتی ہے
کیونکہ کوئی بھی ذی شعور,اہل علم ؤ دانش یہ نہیں چاہتا کہ ا نہیں ہٹانے کے
حق میں کسی کا ساتھ دیں. وہ تنقید تو ان کے فیصلوں پہ کرتے ہیں جو عام
پاکستانی کی سمجھ نہیں آتے لیکن ان کی خیر خواہی کے لیے،تاکہ وہ ناکام نہ
ہوں کیونکہ پاکستان کی نوجوان نسل کا روشن مستقبل عمران خان صاحب کی قیادت
میں نظر آتا ھے....
عثمان بزدار نے کاغزات نامزدگی داخل کئے، جانچ پڑتال ہوئی، مگر الیکشن
کمیشن کے سامنے قتل کا الزام لے کر کوئی نہ گیا۔
انتخابات میں کامیابی پر بھی سب سوئے رہے۔
ادھر عمران خاں نے عثمان کو وزیر اعلی’ کا امیدوار نامزد کیا،ادھر جسکو
دیکھو بلی کے پیچھے دوڑے جا رہا ہے۔بھائی کان تو دیکھ لو....
اس سلسلے میں جو عثمان بزدار صاحب کے بارے میں اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے بیان
کیا میں بھی اسی کی نظر سے آپکے سامنے پیش کرتا ھوں....
بصد شکریہ برادر قمر زمان سابقہ اسسٹنٹ کمشنر تونسہ شریف.......
عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ کیا نامزد ہوئے، پنجاب کی دھرتی کو شیرِمادر سمجھ
کر چوسنے والی سیاسی اشرافیہ ، مافیاز کا غول، صحافت کے بھانڈ ، سٹیٹس کو
کے موقع پرست، پنجاب کو مردار سمجھ کر اس کے بدن سے اپنے اپنے حصے کا ماس
بھنبھوڑنے والے گدھ سب مل کر نشانہ باندھے کنکر پہ کنکر اُچھال رہے ہیں۔
کیا اپنے کیا پرائے عثمان بزدارسب کی آنکھ میں کانٹا بن کر چُبھ رہا ہے۔
بڑے بڑے جغادری دانشور، سیاست کے کنگ میکر، بلیک میلزر سب حیران ہیں کہ
بادشاہی کا ہما ان کے سر کو نظر انداز کر کے ایک مڈل کلاس کے ایسے شخص پہ
کیسے مہربان ہو سکتا ہے جس کی بستی میں بجلی نہیں جس کا گھر پنجاب کے اُس
کونے میں ہے کہ جہاں کا مجبور بلوچ لاہور کی روشنیاں دیکھنے آئے تو گھر کا
راستہ بھول جائے، ان کی تکلیف کا مداوا کیونکر ممکن ہے کہ جنکو یہ سوچ کر
ہول اُٹھ رہے ہیں کہ پنجاب کی پگ کا وارث کسی چوہدری، کسی میاں اور کسی ملک
کی بجائے کوئی ایسا بلوچ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے بنیادی حقوق تک کو
پائمالُ کر کے اس کے پہاڑوں سے نکلے قیمتی پتھر اشرافیہ کے ڈرائنگ روم کی
زینت بنے ہوئے ہیں۔ بس سوگ کی کیفیت ہے اور ماتم برپا ہے۔ 2011 میں اس
خاکسار کی تعیناتی تونسہ شریف میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی تو سردار عثمان
خان بزدار سے بھی نشستیں ہوئیں کہ جو صرف نام کے سردار ہیں۔ ان کے والد
سردار فتح محمد بزدار کہ جن کی شرافت کی ایک دنیا گواہ ہے۔ میرے دفتر میں
آتے تو نہ ہٹو بچو کا شور ،نہ لوگوں کا جم غفیر نہ ہوٹر والی گاڑیاں۔ ایک
چِٹ پر لکھے عوام کے چھوٹے چھوٹے کام ۔ منکسر المزاج سردار صاحب کو بتایا
جاتا کہ کونسے کام ہونے والے ہیں اور کونسے کام ہونے میں کونسا قانونی سقم
ہے۔ مان لیجئے کہ بڑے سردار صاحب نہ تو کبھی ناراض ہوئے اور نہ ہی کبھی
اپنی بات پہ اصرار ۔ عثمان بزدار کا لہجہ بھی وہی دھیما اور متانت سے
بھرپور۔ یہاں تو ایک کونسلر جامے میں نہیں سماتا اور کہاں ایک تمندار سردار
اور ایم پی اے کا نوجوان بیٹا۔
تونسہ شہر کے مشہور کالج روڈ سے تجاوزات ہٹا کر کُشادہ کرنے کا فیصلہ ہوا
تو اس وقت کے سردار اور مقامی ایم پی اے کا گھر دوسرے تیسرے نمبر پر موجود
تھا۔ میں نے عثمان خان کو فون کیا تو بولے “پہلے میرا گھر گرائیے، نہیں
گرائیں گے تو آپ کو اور کون ہاتھ لگانے دے گا” اور یوں عوامی سہولت کا یہ
کام شروع ہو سکا۔
آپ لاہور کے کسی کن ٹُٹے پہلوان کی طرف سے بند کی ہوئی کوئی عوامی گلی کھول
کر دکھائیے ۔
ایک دفعہ میں نے عُثمان خان کو کال کر کے اُن کے ایک بھائی کی شکائت کی۔
کہنے لگے “ کوئی غیر قانونی حرکت کرے تو میری طرف سے اُسے گرفتار کروادیں”
لیجئے صاحب، آپ گوجرانوالہ کے کسی ایم پی اے کے ڈرائیور کے قانون شکن بھائی
کو گرفتار کرنے کی ہمت کر دیکھیں۔
میڈیا ئی بچے جمہوروں کی چیخیں آسمانوں پر ہیں اور تعصب کا کرب اُنکے چہروں
سے عیاں ہے۔ جھوٹ کے قلابےملائے جا رہے ہیں۔ گڑےمُردے اُکھاڑےجا رہے ہیں پر
کہانی ہے کہ بننے میں نہیں آرہی۔ فرسودہ سسٹم کے علمبرداروں کو خبر ہو کہ
آپ چاہے عثمان بزدار کے کھاتے میں ہابیل کا قتل ڈال دیں پر تونسہ کی
پسماندہ ترین تحصیل کا یہ مڈل کلاس نُمائیندہ، کُہنہ سسٹم کی آخری سسکی اور
حقیقی تبدیلی کا استعارہ ہے۔
براۓ مہربانی اہل وطن صبر کا دامن کچھ عرصے کے لیے تھام لیں... انشاءاللہ
یہ تبدیلی کی ابتدا جنوبی پنجاب کی عوام کو ناامید نہیں کرے گئ.... بلکہ
انکے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے پہلہ قدم ھوگئ, خوش حالی کی پہلی کرن
ھوگئ....
|