عہد حاضر کا فکری بحران اور اقبال

یہ بات فیشن کے طور پر بڑے تواتر کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ عہد حاضر میں فکرِ اقبال کا کوئی کردار نہیں رہا۔ حضرتِ علامہ کے افکار سے متعلق اس بیان کے پس پردہ کم فہمی کے علاوہ تعصب بھی کارفرما ہے۔ شعر و نثر اقبال سے بے بہرہ اور فکرِ اقبال کو تعصب کی آنکھ سے دیکھنے والے آج اقبال کو اگلے وقتوں کے لوگ تصور کرنے لگے ہیں۔ اس بات پر غور کیے بغیر کہ فکر و فلسفہ کا ارتقا جاری رہتا ہے اور اس میں بڑے سے بڑا مفکر بھی خاتم المفکرین نہیں ہوتا، بلکہ ہر مفکر اور فلسفی اپنا کردار ادا کر کے علم و آگہی کی ایک نئی راہ سجھا جاتا ہے، جس پر مستقبل کے فکری قافلے گامزن ہوتے ہیں۔ آج افلاطون، ارسطو، امام غزالی، ابنِ خلدون، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اﷲ یا سرسید احمد خاں کی اہمیت اس لیے نہیں کہ وہ عہد حاضر کے تمام تر مسائل کا حل بتاتے ہیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد کی فکری رہنمائی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے دروازے پر بھی دستک دی تھی؛ لیکن جونہی اقبال کا ذکر ہوتا ہے، ایک طبقہ انھیں یکسر مسترد کر دیتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے، جسے فکرِ اقبال کی جاوِدانی سے انکار نہیں، لیکن وہ ایسا چاہتا ضرور ہے؛ چنانچہ اس کے لیے وہ کبھی تو اقبال کی ذات پر حملہ آور ہوتا ہے اور کبھی ان کے افکار کی تردید کی کوشش کرتا ہے۔ جب دونوں محاذوں پر خود کو پسپا پاتا ہے تو وہ انھیں عہد حاضر کے لیے غیر ضروری قرار دے کر دل ٹھنڈا کرتا ہے۔

اس وقت محض عہد حاضر کے فکری بحران میں اقبال کی ضرورت کا جائزہ لیا جاتا ہے، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ بند گلی میں پہنچ جانے کے بعد اکیسویں صدی کے انسان کو فکرِ اقبال کی مدد سے کوئی راہ سجھائی دیتی ہے یا نہیں؟

۱۹۳۶ء میں ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ لکھتے ہوئے اقبال نے جن خیالات کااظہار کیا تھا، وہ عہد حاضر کی سنگینی پر پوری طرح صادق آ رہے ہیں۔ اقبال نے سرمایہ دارانہ نظام کی شان میں ابلیس کے خیالات پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
مَیں نے دِکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
مَیں نے توڑا مسجد و دَیر و کلیسا کا فسوں
مَیں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
مَیں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ درُوں

یہی وہ سرمایہ داری ہے، جس نے اوّل اوّل قوم پرستی اور پھر اس کی بنیاد پر جدید وطنیت کا پرچار کیا۔ یہی سرمایہ داری کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنی، یہی سرمایہ داری بنی نوع انسان کی وحدت کو پارہ پارہ کرتی ہے، یہی سرمایہ داری انسانوں کو مختلف سرحدوں میں مقید کرتی ہے، یہی سرمایہ داری جغرافیائی تقسیم کے بعد جنگ و جدل کا درس دیتی ہے، یہی سرمایہ داری ایک عالمی تہذیب کے نام پر اپنی مصنوعات کے ذریعے پوری دنیا کے سرمایے کو سمیٹنا چاہتی ہے۔ یہ سرمایہ داری اپنے گماشتوں کے ذریعے کہیں جمہوریت، کہیں فوجی آمریت، کہیں بادشاہت اور کہیں شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اقبال نے ابلیس کے پہلے مشیر کی زبانی سرمایہ داری کے انھی ہتھکنڈوں کی نشاندہی کی تھی۔ وہ کہتا ہے:
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اَور ہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں ، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن ، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر

توجہ فرمائیے کہ اقبال نے مغرب کا جو کریہہ چہرہ دِکھایا تھا، آج وہ پوری طرح عیاں ہو چکا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں دنیا نے اشتراکیت کے دامن میں پناہ لے کر بظاہر کسی حد تک سکھ کا سانس لیا تھا۔ اَور تو اَور، خود اقبال نے بھی اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ یورپی سرمایہ داری اور صنعت کاری نے بنی نوع انسان کو جس سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی ابتری سے دوچار کیا تھا؛ روسی انقلاب سے اس کے سدِباب کے آثار دِکھائی دینے لگے تھے۔ ابلیس کا تیسرا مشیر کارل مارکس کے اَوصاف بیان کرتا ہے:
وہ کلیم بے تجلی ، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتاؤں ، کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب
اس سے بڑھ کر اَور کیا ہو گا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب

لیکن اقبال اس بات کو تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ اشتراکیت میں وہ دم خم نہیں، جو سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ کر سکے اور انسانیت کو اس کے جبر سے تحفظ دے سکے۔ اقبال نے ’بے تجلی‘ اور ’بے صلیب‘ کہہ کر کارل مارکس کی فکری نارسائی اور ابلیس کے مشیروں کے ذریعے اشتراکیت کی عاقبت نااندیشی کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ اگرچہ ابلیس کے مشیر سرمایہ داری کے خلاف اشتراکیت کو فتنہ قرار دیتے ہیں اور اپنے نظام کی تباہی سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن ابلیس اپنی شرانگیزیوں کے لیے اسے خطرہ قرار نہیں دیتا، بلکہ اسے اگر خوف ہے تو صرف اسلام سے:
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
جانتا ہے ، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں ، اسلام ہے

لیکن اسے یقین ہے کہ اہلِ اسلام اَب اس قابل نہیں رہے کہ عالمی سطح پر وہ کوئی کردار ادا کر سکیں، کیونکہ خود مسلمانوں نے سرمایہ داری کو قبول کر لیا ہے۔ ان کی معاشرت پوری طرح مغربی تہذیب کے زیرِ اثر ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن، مغربی طرزِ معیشت اور مغربی طرزِ فکر ان پر غالب آ چکی ہے؛ خصوصاً مسلم حکمرانوں سے مغربی قوتوں کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ وہ تو اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ جہاں تک مسلم عوام کا تعلق ہے، انھوں نے قرآن کے پیغامِ عمل کو بھلا دیا ہے اور اگر وہ اسے پڑھتے بھی ہیں تو محض ایصالِ ثواب کے لیے۔ اس کے باوجود ابلیس اور اور اس کے حواری خوف زدہ ہیں:
جانتا ہوں مَیں ، یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں
الحذر! آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر!
حافظِ ناموسِ زَن ، مرد آزما ، مرد آفریں

۱۹۱۷ء سے ۱۹۹۲ء تک سرمایہ دارانہ نظام کا سارا زور اشتراکیت کے خاتمے کے لیے صَرف ہوا اور دونوں معاشی نظاموں کے مابین سرد جنگ نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ اس عرصے میں مسلم ممالک کے حوالے سے مغربی دنیا کا رویہ قدرے بدلا بدلا رہا، لیکن جونہی سویت یونین کا خاتمہ ہوا، اقبال کے خدشات درست ثابت ہوئے اور مغرب نے ’آدم بو، آدم بو‘ کہتے ہوئے مسلمانوں کی قوتِ ایمانی اور غیرتِ اسلامی کو نابود کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ مختلف انداز میں مسلمانوں کی دل شکنی کر کے ان کے ایمان کی پختگی کا اندازہ لگایا گیا، قرآنِ پاک کے حوالے سے ان کی حرارتِ دینی کو پرکھا گیا، حضور نبی کریمؐ سے ان کی محبت کو جانچنے کے لیے متعدد منفی حربے آزمائے گئے۔ ایران اور عراق میں تصادم کے ذریعے ان کی عسکری طاقت ختم کر دی گئی، کویت پر عراقی حملے کا بہانہ بنا کر خلیجی ممالک میں در اندازی کی گئی اور باوجود سیکولر ہونے کے عراق کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ پھر خود ساختہ ۹؍۱۱ کو جواز بنا کر افغانستان کو ملیاملیٹ کر دیا۔ تیونس، لیبیا اور شام میں وہ قیامت برپا کی کہ الامان و الحفیظ۔ ذرا توجہ فرمائیے، سامراجی قوتیں فلسطین، افغانستان، لیبیا، شام اور دیگر مسلم ممالک پر حملہ آور ہوئیں تو ان کے ہمسایہ ممالک ان کی مدد کو نہ آ سکے، بلکہ وہ کسی نہ کسی طور حملہ آوروں سے تعاون پر مجبور تھے۔ ایسے حالات میں نہ تو جمہوریت کسی کے کام آئی، نہ فوجی آمریت اور نہ ہی بادشاہت۔ ہر ملک نے محض اپنے تحفظ کو یقینی بنایا اور بس۔

یورپ کے تصورِ وطنیت نے نہ صرف یورپ، بلکہ مشرق کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اسی کی ’برکات‘ سے یورپی ممالک آپس میں گتھم گتھا ہوئے اور کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے، اسی نے سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، اسی کی کوکھ سے مشرق وسطیٰ کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے جنم لیا، اسی سے ملت ِمسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوا اور اسی کی مدد سے مسلمانوں میں باہم جنگ و جدل شروع ہوئی۔ اسی وطنیت کی بنیاد پر عرب ممالک میں اسلامی اخوت کے بجاے عربوں کی برتری کا احساس پایا جاتا ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اسلامی کانفرنس کے اعلامیے سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ’اگر آئندہ کسی عرب یا اسلامی ملک پر حملہ کیا گیا تو برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔ عرب اور اسلامی کی تفریق سے قوم پرستی اور وطن پرستی کے مضر اثرات کا پوری طرح اندازہ ہو جاتا ہے۔ اقبال درست کہتے تھے:
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

ماضی میں مسلم علاقوں پر قبضے کے بعد سامراجی قوتوں نے مسلمانوں کو اُن کے تہذیبی ورثے اور تہذیتی تفاخر سے محروم کر کے ان میں جو انفعالیت پیدا کر دی تھی، وہ ہنوز باقی ہے۔ آزادی جیسی نعمت پانے کے باوجود، کوئی مسلم ملک اسلامی اقدار کا امین نہیں بن سکا۔ کسی مسلم ملک میں وہ خود داری پیدا نہیں ہو سکی، جو مسلمان کی پہچان ہے۔ مسلم ممالک آزاد ہونے کے بعد بھی ذہنی غلامی سے نجات نہیں پا سکے اور ایک صدی تک خود مختار رہ کر بھی خودداری کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ مسلمانوں کے اسی طرزِ عمل سے ابلیسی قوتیں خوش ہیں اور انھیں اسی صورتِ حال سے دوچار رکھنا چاہتی ہے، چنانچہ ابلیس اپنے مشیروں کو کئی قسم کے طریقے بتایا ہے:
توڑ ڈالیں جس کی تکبریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے ، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہم نے واقعی ایسا کر دِکھایا اور معاشرتی، معاشی، سیاسی اور عالمی کردار سے دستبردار ہو گئے۔ سامراج نے ہماری بے عملی اور انفعالیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں معاشی، تعلیمی، سائنسی اور سیاسی حوالوں سے اپنے زیرِ اثر رکھنے کے لیے نوازنا شروع کیا تو ہمارے حکمران بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے چلے گئے اور پیامِ اقبال کو نظر انداز کر کے گداگری تک جا پہنچے، حالانکہ اقبال یہ کہتے رہے:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر دارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

ہم اقبال کے اس پیغام کو سمجھ نہ سکے اور اِس وقت وطنِ عزیز بیرونی قرضوں میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ ہرپاکستانی لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ اب تو یہ صورتِ حال ہو چکی ہے کہ ہمیں بیرونی قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔ ہماری ملّی غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم کبھی سود کے خلاف شریعت کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہیں اور کبھی علما سے سود کے لیے گنجائش نکالنے کی درخواست کرتے ہیں۔

اس وقت عالمی ایجنڈے کے تحت سرمایہ داری کو تحفظ دینے کے لیے یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان سمیت تمام سرمایہ دار ممالک متحد ہو چکے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں اپنی مصنوعات کی کھپت بڑھانے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ خود متعدد مسلم ممالک تجارتی بنیادوں پر اپنے تعلقات استوار کرتے ہیں، چنانچہ کتنے ہی مسلم ملک ہیں، جو دیگر مسلم ملکوں کے مفادات کی قطعاً پروا نہیں کر رہے۔ تجارتی مفادات نے یورپی وطنیت کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ وہی وطن پرستی ہے، جس پر اقبال نے شدید تنقید کی تھی:
یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نَوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تِرا دیس ہے ، تُو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے
اے مصطفوی! خاک میں اس بُت کو مِلا دے

ہم نے اقبال کے پیغام پر توجہ نہ دی، بلکہ اس جہانِ عمل کو دوسروں کے لیے چھوڑ کر خود گوشہ نشین ہو گئے۔ یہ گوشہ نشینی صوفیانہ نہیں، بلکہ اپنی ذات کے اندر گم ہونے سے عبارت ہے۔ افسوس کا مقام یہ کہ جو دِین ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الآخرۃ حسنہ کا درس دیتا ہے، اس کے ماننے والے نہ دِین کو پوری طرح سمجھ سکے اور نہ دنیا کو۔ دنیا کے ہوئے تو محض ذاتی آسائشوں میں کھو گئے اور دِین کے ہوئے تو اپنی نجات کو کافی سمجھ لیا؛ گویا ہم ذاتی خوش حالی اور ذاتی بخشش سے آگے نہیں سوچ سکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھی ہمارے ہاتھ سے گئی اور دِین بھی۔

بات یہیں تک نہیں رُکی، بلکہ ہم نے اپنی ہر ناکامی اور ہر کامیابی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ذاتی ناکامی سے لے کر عالمی کردار میں اپنی ناکامی تک کو اپنی تقدیر سے تعبیر کیا اور اپنے دامن میں منہ چھپا کر بیٹھ گئے۔ اس کیفیت کو اقبال نے اپنی نظم ’تن بہ تقدیر‘ میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے:
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
’تن بہ تقدیر‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ’ناخوب‘ ، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

تقدیر پرستی ہمارا اُس وقت بھی شیوہ تھا، جب پہلی جنگ عظیم ہوئی اور آج بھی، جب تیسری عالمی جنگ کے سایے منڈلا رہے ہیں۔ اُس دَور میں اقبال نے مسلمانوں کو آمادۂ عمل کیا تھا، اس کی آج بھی اُتنی ہی ضرورت ہے، جتنی خود اُن کے عہد میں تھی۔ اقبال نے صاف صاف کہہ دیا تھا:
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات

گویا آزاد کے لیے کوئی تقدیر نہیں، بلکہ وہ خود اپنی تقدیر ہے؛ جب کہ غلاموں کے لیے ایک ہی تقدیر ہے، یعنی مرگِ مفاجات۔ یہ مرگِ مفاجات اُس غلام کے لیے ہے، جو تقدیر کے تابع ہے؛ چنانچہ جب پوری کی پوری قوم تقدیر کے تابع ہو جائے تو اس کی خودی کے تحفظ کے لیے کوئی دوسری قوم نہیں آتی۔ اقبال نے واضح کر دیا تھا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

کیا یہ بات محض اقبال کے عہد تک درست تھی؟ کیا آج جرمِ ضعیفی کی سزا بدل چکی ہے؟ کیا آج عالمی طاقتیں کمزور ملکوں کو جینے کا حق دینے لگی ہیں؟ کیا آج اقوامِ عالم کی کوئی تنظیم افریقہ و ایشیا کی ترقی میں ہاتھ بٹانے لگی ہے؟ نہیں، یقینا ایسا نہیں؛ آج بھی قوموں کی کمزوری ان کے خاتمے کا اعلان کر رہی ہے، اسی لیے اقبال نے فرد کو خودی کا درس دیا، جس سے وہ اپنی تخلیق، اپنے خالق کی منشا اور کائنات میں اپنے کردار سے بخوبی آشنا ہو سکے اور اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے اس تکون میں اپنی ہستی کا اثبات کرے۔ پھر ایک ایک فرد مل کر قوم بنے اور قوم اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود میں ہاٹھ بٹا سکے۔ دوسری طرف یہ بھی بتا دیا کہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ، لیکن جب ملت اپنی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہو جائے اور فرد کی مہارتوں سے استفادہ نہ کر سکے تو جو صورتِ حال درپیش ہو گی، اقبال نے اس کا برملا اظہار کر دیا:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

یعنی آج ہمارے انفرادی اعمال ہمیں اس چنگل سے بچانے کے لیے کافی نہیں، ضرورت ہے ملّی کردار ادا کرنے کی۔ یہ وہ وقت ہے، جب بنی نوع انسان فکری بحران کا شکار ہے، بالخصوص مسلم ممالک اور ان کے عوام تہذیبی و فکری قیادت سے محروم ہیں۔ ان ممالک میں بعض نہایت پسماندہ ہیں، بعض ترقی پذیر ہیں اور چند ایک میں وسائل اور دولت کی فراوانی ہے؛ لیکن ایک بات ان سب میں مشترک ہے اور وہ ہے ان کی فکری پسماندگی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عالمِ اسلام میں بے عملی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، تیونس، لیبیا، یمن اور شام میں ہونے والے انسانی المیے نے ہمیں کسی عمل پر نہیں اکسایا، بلکہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ اﷲ سے دعا کریں، وظائف پڑھیں اور بس! ہم دعاؤں کے ساتھ جنگ جیتنے کا منظر ۱۲۶۵ھ میں بغداد اور ۱۹۷۱ء میں ڈھاکا میں دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ حضور سرورِ کائناتؐ نے مدینے سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا تھا۔ اقبال ایسے مواقعے پر محض مذہبی رسوم پر عمل کا ناکافی قرار دیتے ہیں اور عملی کردار پر زور دیتے ہیں۔ آج مسلمان سوشل میڈیا پر یہ لکھ کر اپنا فرض ادا کر رہا ہے کہ
’اے اﷲ! کشمیر کے مسلمانوں پر رحم فرما‘
’اے اﷲ! فلسطین کے مسلمانوں پر رحم فرما‘
’اے اﷲ! شام کے مسلمانوں پر رحم فرما‘
’اے اﷲ! برما کے مسلمانوں پر رحم فرما‘

لیکن پوری دنیا میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہمارے کسی کام نہیں آ رہی۔ وجہ وہی، جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھا:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
تِرے دِین و ادب سے آ رہی ہے بوے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادُو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری

اقبال کے خیال میں، رسمِ شبیری کو ترک کرنے سے ملت اسلامیہ اپنے وجود کے خاتمے کا اعلان کر رہی ہے۔ محض فکر و خیال کی انجمنیں سجانے سے، محض اجتماعات کرنے سے، محض کانفرنسوں کے انعقاد سے، محض مشترکہ اعلامیے سے کام نہیں چلے گا۔ ایک وقت تھا کہ مسلم سلطنت کی سرحدیں ایشیا، افریقہ اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھیں اور ایک یہ وقت ہے کہ مسلمان چھوٹی چھوٹی جغرافیائی وحدتوں میں منقسم ہیں اور فقط اپنے اپنے مفادات کی خاطر سامراجی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اقبال نے قوموں کی اجتماعی زندگی میں نت نئے تجربات اور واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

سامراجی قوتوں اور ان کے نمک خواروں کی خواہش ہے کہ عروج و زوال کے اس کھیل سے مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال باہر کیا جائے، اس کے لیے وہ امت مسلمہ کے دِلوں سے اﷲ کی توحید، آنحضورؐ کا عشق، قرآن سے تعلق اور اکابر کے افکار سے ان کا رشتہ توڑنا دینا چاہتے ہیں۔ اقبال نے اپنی نظم ’ابلیس کا فرمان، اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ میں اسی شیطانی منصوبہ بندی کا انکشاف کیا،کیونکہ محض اسی طرح اقبال کی عصری معنویت کی نفی کی جا سکتی ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

اقبال ایسے ’غزل سرا‘ کو چمن سے نکال دینے کی ایک کوشش اغیار کی طرف سے ہو رہی تھی، کیونکہ وہ ان کے عالمی سامراجی و مادّی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے اور دوسری طرف خود مسلمانوں کی بے حسی انھیں مایوس کر رہی تھی۔ اپنی معروف نظم ’شکوہ‘ کے آخر میں وہ اسی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
بُوے گُل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
عہدِ گُل ختم ہوا ، ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اَب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اَب تک
قمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھولوں کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روِشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عریاں بھی ہوئیں
قیدِ موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش! گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

اس صورتِ حال میں وہ اپنی بے تابی کو قوم کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں کہ سامع اور قاری تڑپ کر رہ جاتا ہے:
لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزہ جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مِرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مِرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں

’شکوہ‘ کے اختتامی بند میں وہ اپنی تڑپ کو دعائیہ انداز میں یوں پیش کرتے ہیں کہ ایک طرف ان کی صدا بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت حاصل کر لے اور دوسری طرف اُمت مسلمہ ازسرِنَو اپنے عالمی کردار سے روشناس ہو جائے:
چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دِل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دِل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دِل ہوں
پھر اُسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دِل ہوں

Khalid Nadeem
About the Author: Khalid Nadeem Read More Articles by Khalid Nadeem: 14 Articles with 40078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.