نواب ناظم کی شاعری اورزندگی کے نشیب وفراز اور قلم کاروں
کی آراء پر مبنی کتاب ہے۔ اس کتابی مجموعہ کو تحریر وترتیب کا رنگ لطیف
پیامی صاحب نے دیا ہے ۔لطیف پیامی اردو صحافت کا بڑا نام ہے ۔موصوف کی
معاشرے پر گہری نظرہے ۔اﷲ تعالیٰ نے موصوف کومعاشرے کے داغ جانچنے کی
بھرپور صلاحیت سے نوازا ہے ۔موصوف سے میری ابھی تک کوئی ذاتی ملاقات نہ
ہوسکی ہے البتہ موصوف کی کتاب ’’بھاٹی سے ٹیکسالی تک ‘‘ کا مطالعہ ضرور کیا
ہے ۔ یہ کتاب نواب ناظم صاحب نے مجھے تحفتاًعنائیت کی تھی۔یہ نواب ناظم
صاحب کی کمال محبت وشفقت ہے وہ ہمیشہ جب بھی میں انکے گھر جاتا ہوں کتاب
تحفہ دیتے ہیں ۔علمی سخاوت سے سرشار نواب ناظم دیگر شاعروں سے بالکل ممتاز
ہیں ۔دکھاوا ،تصنع ،بناوٹ ،خود پسندی ،نمائش جیسی مصنوعی حرکات سے نواب
ناظم کی ذات مبراء ہے ۔سادگی ،سنجیدگی ،خوش اخلاقی ،مہمان نوازی اوردوستی
نواب ناظم کے قدکاٹھ کو دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہے ۔
بطور صحافی ناظم گزشتہ چالیس سال سے قلم قبیلے سے وابستہ ہیں ۔صحافتی خدمات
فلاح انسانیت کے لیے بھرپور انداز سے سرانجام دے رہے ہیں۔موصوف کی وساطت سے
اہل علاقہ کے بہت سے مسائل حل ہوئے ہیں ۔واہگہ بارڈر لاہور کا پسماندہ
علاقہ تھا جو نواب ناظم کی توجہ کی بدولت خوشحالی اور ترقی کے زینے چڑھ رہا
ہے ۔نواب ناظم کی شخصیت پر جتنا لکھ جائے کم ہے ۔موصوف کی شاعری میں
ساحرلدھیانوی ،میرتقی میر ،مرزااسدﷲ غالب کی بصیرت دکھائی دیتی ہے ۔موصوف
کاشاعرانہ انداز بناوٹی یا تصوراتی نہیں بلکہ معاشرتی ہے ۔معاشرے میں موجود
منفی کرداروں اوررویوں کو بڑے عمدہ انداز سے شعر کی صورت دی گئی ہے ۔لکھتے
ہیں :
اترا فصیل شہر سے جو آن بان سے
تاوان لے رہا ہے وہ ہیروں کی کان سے
یہ کیسی سلطنت ہے یہاں کس کا راج ہے
اٹھنے لگا ہے آج دھواں ہر مکان سے
ذرا مزید توجہ کیجئے !اوراندازہ لگائیے کے نواب ناظم میو کی معاشرتی بصیرت
کس طرح وڈیروں، جاگیرداروں ،اشرافیہ کی کالی کرتوتوں اورمنفی رویوں کوکس
طرح بے نقاب کرتی ہے ۔
شاید کسی امیر کا لخت جگر تھا وہ
لڑکی اٹھا کے لے گیا جو شادمان سے
پیوست سارے میری رگ وجاں میں ہوگئے
نکلے ہیں جتنے تیر ’’کسی‘‘کی کمان سے
جب معاشروں میں انصاف کی دستیابی مشکل ہوجائے ۔روٹی کپڑا مکان کے لیے لوگ
خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں ۔جب حاکم عیاشیاں کرتے ہوں اوررعایا بھوک
اورمفلسی کی چکی میں پس رہی ہو توبے اختیار نواب ناظم میو کا یہ شعر
لرزتا،تڑپتا ،اچھلتا ،پھسلتا ہونٹوں پے آجاتا ہے ۔
بھوک جب حد سے بڑھے گی توبغاوت ہوگی
شہرمحکوم کو حاکم سے شکایت ہوگی
نواب ناظم میو چونکہ ہجرت زدوں کی نسل سے ہے ۔ان تمام مشکلات والم سے اگاہ
جن کاسامنا مہاجرین کو ہجرت کے دروان مابعد کرنا پڑا اورتاحال کررہے ہیں
۔دوسری جانب وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام جمہوری اورغیرجمہوری تماشوں نے
عامتہ الناس کو خوشحالی کی پٹری پر چڑھانے کی بجائے سفید پوشی کی چادر میں
لپیٹ دیا اس غیرمتوازن صورت حال اورغیرمساواتی تقسیم اوراونچ نیچ اوربے بس
انسانوں کی تصویر کشی یوں کی ہے
سر چھپانے کی چھت نہیں ناظم
اورکہنے کو اک نواب ہے تو
کہنہ مشق صحافی لطیف پیامی کا نتخاب کسی عام فرد سے متعلق نہیں ہے بلکہ ایک
غیرمعمولی ادبی شخصیت جسے اﷲ تعالیٰ نے نواب ناظم سے نواب ادب بنادیا ہے سے
متعلق ہے ۔یہ کتاب 232صفحات پر مشتمل ہے ۔کتاب کے آغاز میں وطن عزیز کے
عظیم قلم کاروں نے نواب ناظم کی شاعری اورانکی سماجی وادبی خدمات پر روشنی
ڈالی ہے۔عابد کمالوی ،صفدرڈوگر،اسلم کولسری،چوہدری عاشق ڈیال،دین محمد
درد،قمرنقوی،مرزا عباس بیگ،شہزاد احمد،اعظم توقیر،ریاض رومانی ،ابن
حمید،بشیر احمددرد،عابدحسین عابد،سردار عظیم اﷲ خاں میو،احمدفہیم
میواورخاکسار شامل ہیں ۔کتاب کی طباعت فکشن ہاؤس لاہور والوں نے کی ہے
۔کتاب کا سرورق ٹائٹل ’’اضطراب ‘‘ کے عنوان سے موسوم ہے ۔نواب ناظم میو کی
تصویرسرورق کا حصہ بنائی گئی ہے ۔
ناظم کہیں بھی ساحل امن وسکوں نہیں
دریا وہ اضطراب کا بہتا ہے شہر میں
قارئین کرام نواب ناظم کے ادبی فن کا مطالعہ کرکے قلب کو تسکین اورروح میں
احساس انسانیت بیدار ہوتا ہے ۔خود ی خود کو جھنجوڑتی ہے ۔اورعلم کی شمع من
میں کچھ کرنے کی نوید سناتی ہے ۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نواب ناظم کاکلام
اشرافیہ کے پھن سے ڈسے معاشرے کوانصاف کی حرارت دینے کے مترادف ہے
۔بلاشبہ’’اضطراب ‘‘ کو ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے ۔اور ہرصاحب ذوق کو
اضطراب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ موصوف کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی
عطاکرے ۔اﷲ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو ۔والسلام علیکم۔ |