پاکستان کے نئے وزیراعظم نے ہرکسی کے بارے میں سوچا کیا
ان گداگروں کے بارے میں بھی کچھ سوچا کیونکہ ویسے تو شہروں میں گداگرکچھ کم
نہیں ہوتے مگرعیدکے دنوں گداگروں کی کھیپ شہروں کارخ کرلیتی ہے اور گرمی کے
مارے ہوئے لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتے موٹرسائیکل سواروں کے جذبہ
رحم کا امتحان لیتے ہوئے دن بھرطلوع سے غروب اور پھررات ڈھلنے تک ایک قابل
توجہ مشقت میں مصروف رہتے ہیں اور نہایت تکنیکی انداز میں لوگوں کی توجہ
خود کی طرف کرنے کیلئے کئی قسم کے حربے اپناتے ہیں ہزاروں کی تعداد میں
بھکاری ہیں جن میں عورتیں ،بزرگ،بچیاں بچے شامل ہیں اور اگران بچوں کی
آوازوں پرغورکیا جائے توپتا چلتا ہے کہ انہیں سکھانے والا کوئی نہ کوئی
گروہ ہے میں نے ایک دن دیکھا کہ ایک بھکاری کو پولیس اٹھاکرلے گئی ہے اور
میں رات بھر اس سوچ میں نہ سو پایا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا پولیس
نے اور میں اگلے دن کچھ جلدی اس چوک میں گیا کہ کسی سے اس بھکاری کے بارے
میں دریافت کروں میں کسی سے کچھ پوچھتا اس سے پہلے وہی بھکاری مجھے نظرآگیا
میں اس سے جا بتایا کہ آپکی وجہ سے میں رات بھرنہیں سوپایا تواس کی آنکھوں
میں آنسو آگئے تو اس نے کہا کہ آپ میں انسانیت ہے اس وجہ سے سچی بات آپکو
بتاتا ہوں کہ ایسے گروہ ہیں جن کی پولیس خودسرپرستی کرتی ہے اور ان سے
دیہاڑی لیتی ہے یہ سن کر میرے تواوسان خطا ہوگئے ٹریفک سگنل پردیکھیں تو
ایسی عورتیں بھیک مانگتی ملتی ہیں جو جسم سے بلکل صحیح سلامت ہوتی ہیں
مگران کو اتنی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ان میں ڈھیٹ پن بھرجاتا ہے اور انکو
بار بار کوسنے کے باوجود بھی ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہوجاتا ہے بھکاری
عورتیں اچھے گھرانے کی عورتوں سے لپٹ کے بھیک مانگتی ہیں اور وہ بھی اﷲ کے
نام پر دے دیتی ہیں کہ کسی غریب اور مستحق کی امدادکررہے ہیں مگر شاید ان
کی سوچ صحیح نہ ہو اور اگر ان کو کوئی عورت پیسے نہ دے تو بھرے ہجوم میں
انکوذلیک کرکے رکھ دیتی ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں خدانے ان
تمام صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کی مدد سے وہ اپنی روزی پیداکرسکتا ہے زندگی
اس بھاگ دوڑ میں اپنا کردارباآسانی اداکررہے ہیں مگروہ لوگ جن کے پاس ان
میں سے کسی ایک یابہت سی صلاحیتوں کی کمی ہے تو وہ اپنا گزارا کیسے کرے گا
ان کے پیٹ کی دوزخ کون بھرے گا کسی بھی فلاحی ریاست میں ذمہ داری بہرحال
ریاست کی ہے مگرکاش!کبھی وہ ریاست قائم ہوجائے اس حوالے سے اہم پہلو یہ ہے
اس ریلے میں زیادہ ترتعداد ان لوگوں کی ہے جن کو ہم پیشہ ور بھکاری کہتے
ہیں مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں میں فرق کون دیکھے گا اور معاشرے کو
اس گداگری کی لعنت سے کون نجات دلائے گا اگرپیشہ وربھکاری بھی ہے توکیا اس
کی ضروریات نہیں؟کیا اس کے بچے نہیں؟کیا یہ ملک ان کا نہیں؟کیا اسلام کے
مطابق وہ ہمارے بھائی نہیں؟کتنے سوال دل میں آتے آتے رک جاتے ہیں جب ایک
مڈل کلاس آدمی ان کی ضروریات کے آگے چھوٹاپڑجاتا ہے بس وہ کسی مسیحا کی آس
لیے بیٹھے ہیں کہ انکے بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا اﷲ پاک ہمارے ملک کی حفاظت
فرمائے بہرحال جو بھی ہو حضورپاک کی حدیث مبارکہ ہے کسی سے سوال کرنے کی
بجائے محنت کرکے کھانا افضل ہے مگر آج کے دور میں ایسے ایسے گداگردیکھنے کو
ملتے ہیں کہ صحت مند ہونے کے باوجود وہ بھکاری بنے ہوتے ہیں اصل میں انکے
پیچھے ٹھیکیدار نما لوگ ہوتے ہیں جو پہلے تو انکو قرض یا نشہ میں مبتلاکرکے
ان کو پیسے کا لالچ دیتے ہیں پھر پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بھکاری بنا کر
بٹھا دیتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تو یہ شہروں کی طرف ایسے چلے آتے ہیں
جیسے مکھیاں مٹھائی کی طرف محنت کی بات کی جائے تو حضور پاک نے خود ایک
صحابی کو رسی اورکلہاڑی دے کر حلال کمانے کا حکم دیا یقیناًہمارا مذہب
اسلام ایک دوسرے کی مدد کا حکم دیتا ہے مگر ایسے گداگروں اور ٹھگ بازوں
کیلئے سخت وعیدیں فرمائی ہیں مختصراًنے یہ کہ گداگری سے اجتماعی اور
انفرادی برائیاں جنم لیتی ہیں جس میں بے حس ہونا،غیرت سے ہاتھ دھو بیٹھنا
اور جب بھیک نہ ملے تو چوری کرناحکومت وقت کو چاہیے کہ مستحقین کو وظیفہ
دیں اور پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت کروائی کریں ۔بھکاریوں کی طرف
غورکریں توخاص قسم کی عورتیں بھی اب بھیک مانگتی ہیں اور انہی کہ دیکھا
دیکھی میں کچھ نام نہاد مرد بھی انہیں جیساروپ دھار کربھیک مانگتے ہیں اور
مستحق لوگوں کا حق کھاتے ہیں ان دنوں آپ دربار پر جائیں یا مساجد میں تو سب
سے پہلے گیٹ پر آپکی ملاقات ان بھکاریوں سے ہی ہوگی اور بیک وقت آپکو تین
چار بھکاری گھیرلیں گے اور آپکو اﷲ اور اسے رسولﷺ کا واسطہ دینے لگ جائیں
گے اور آپکو خیرات دینے پرمجبوکردیں گے حکومت کو چاہیے کہ پیشہ ورگداگروں
کو تھانے کا مزا چکھائے تا کہ ایسی غلطی کا پھر کوئی سوچے بھی نہ اور انکے
پیچھے جو گروہ ہے انہیں بے نقاب کریں تاکہ ہمارے ملک کا نام دنیا میں اچھے
لفطوں میں لیا جائے اور ہمارے ملک کا مستقبل اایسا ہوں جیس کا عمران خان نے
خواب دیکھا ۔
|