مٹی نہ پاؤ، گرد ہٹاؤ۔۔۔!

پاکستان پیپلز پارٹی اپنی طرز سیاست کے حوالے سے منفرد مقام رکھتی ہے، زوال اور صرف سندھ تک یہ قومی جماعت کیوں محدود ہوگئی، اس کی کئی ٹھوس وجوہ ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی پوزیشن کو پی پی قیادت نے نقصان پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی سے اس کی توقع کم کی جاتی رہی ہے کہ پارلیمان میں غیر جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کرے گی۔ (’’غیر جمہوری‘‘ طرز عمل سے مراد زرداری کا پارلیمنٹ میں وفد سے ملاقات سے انکار اور مولانا فضل الرحمٰن کو نامراد واپس کرنا تھا)۔ اگر پی پی پی، مسلم لیگ (ن) کو ووٹ بھی دے دیتی تو بھی عمران خان کی کامیابی یقینی تھی، لیکن پی پی پی کی شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کرنے کی کئی وجوہ، بقول سعد رفیق، ان کے ’’ذاتی مسائل‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کو تھوڑے بہت خدشات تھے، وہ فی الحال کم ہوگئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ متحدہ مجلس عمل تو پارلیمان میں جانے کے خلاف تھی، لیکن انہیں پارلیمانی کردار ادا کرنے پر رضامند کرلیا گیا۔ پی پی پی اور (ن) لیگ کا غیر فطری اتحاد دو پوائنٹ پر مبنی تھا۔ اس لیے اپوزیشن اتحاد میں ہر سیاسی جماعت کو اپنا کردار اپنے سیاسی منشور کے مطابق کرنے میں کوئی قدغن نہیں تھی۔

پی پی پی کے بعض سینئر رہنماؤں سے غیر رسمی گفتگو میں راقم نے پارٹی کے موجودہ رویے پر ا ستفسار کیا تو اُس کی کچھ تاویلیں سامنے آئیں، الیکشن کمیشن کے سامنے جب متحدہ اپوزیشن کا احتجاجی مظاہرہ ہورہا تھا تو بعض رہنماؤں نے ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن بڑے جارحانہ موڈ میں تھے۔ پی پی پی نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور مسلم لیگ(ن) کو اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔ پارلیمنٹ میں دونوں بڑی جماعتوں کا احتجاج طے شدہ تھا لیکن پی پی ذرائع کے مطابق جب انہیں علم ہوا کہ اس احتجاج میں نواز شریف کی تصویر اور پلے کارڈ کے ساتھ مظاہرہ کیا جائے گا تو فوری قیادت نے اسٹرٹیجی تبدیل کردی اور (ن) لیگ کو پی پی پی اراکین کے بغیر ہی احتجاج کرنا پڑا۔ توقع کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے اراکین نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں، اس لیے پی پی پی کے لیے بالکل ممکن نہیں تھا کہ وہ طے شدہ احتجاجی مظاہرے میں نواز شریف کی تصاویر کے ساتھ کھڑے ہوکر احتجاج کرتی۔ مسلم لیگ(ن) نے اس کا خیال نہیں کیا کہ ابھی پی پی پی رہنماؤں سے ان کے تمام گلے شکوے دُور نہیں ہوئے اور یہ کسی طور بھی ممکن نہیں تھا کہ پارلیمنٹ میں پی پی پی اراکین مسلم لیگ(ن) کے سزا یافتہ قائد کی تصاویر کے عقب میں کسی قسم کے مظاہرے کا حصہ بنتی۔ پی پی پی کو نواز شریف اور شہباز شریف پر سخت تحفظات ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں تھی۔

یہاں تک تو بات کچھ قابل قبول تھی کہ مسلم لیگ(ن) کو طے شدہ متحدہ اپوزیشن کے دو نکاتی ایجنڈے تک ہی خود کو محدود رکھنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) نے اسپیکر اور ایم ایم اے کو ڈپٹی اسیپیکر کے لیے ووٹ دیے، لیکن جب عمران خان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار شہباز شریف کے لیے ووٹ دینے کا مرحلہ آیا تو اُن کے نا م پر اعتراض کرکے تحفظات کا اظہار کردیا۔ یہ ایک بے یقینی صورتحال تھی، اُس صورت میں کہ جب مسلم لیگ(ن) نے وزارت عظمیٰ کے لیے پی پی پی کو اپنا امیدوار کھڑا کرنے کی آفر کی تو وہ مسلم لیگ(ن) کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار ہی دینے کا استحقاق دے چکی تھی۔ متحدہ اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں نے ایک فارمولا طے کیا اور اسی کے تحت ایم ایم اے کو ڈپٹی اسپیکر، پی پی پی کو اسپیکر شپ اور مسلم لیگ (ن) کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی مشترکہ سپورٹ پر باقاعدہ اعلان کرکے پریس کانفرنس میں بھی بتادیا گیا۔ اُس وقت اس قسم کی کوئی شرائط سامنے نہیں آئیں کہ کسی شخصیت پر کسی سیاسی جماعت کو اعتراض یا تحفظات ہیں۔

گو پی پی پی ’’حقائق‘‘ بتانے سے گریزاں ہے، لیکن ان کے فیصلے پر سنجیدہ حلقوں میں قیاس آرائیاں ضرور کی گئیں، جس میں الیکشن کمیشن آفس اور قومی اسمبلی اسپیکر کے انتخابات کے موقع پر نواز شریف کی تصاویر کے ساتھ احتجاج اور جس بات پر سب سے زیادہ ’’افواہ سازی‘‘ ہے، اُس میں سابق صدر زرداری کے انتہائی قریبی رفیق اور ان کے بیٹے کی گرفتاری سے ’’پیغام‘‘ ملنا تھا، جس کے بعد ہمیں یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ زرداری نے یہ کیوں کہا ’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔‘ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اگر آصف علی زرداری فعال کردار ادا کرنا چاہتے تو پارلیمان کی موجودہ صورتحال مختلف ہوتی۔ ہمارے سامنے سینیٹ کی مثال موجود ہے کہ کس طرح وہاں پانسہ پلٹا گیا، اس لیے نمبر گیم اگر پی پی پی اور (ن) لیگ کو پورے کرنے ہوتے تو جہانگیر ترین کو ہر جگہ سے مایوسی کا سامنا ہی ہوتا، کیونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ زرداری مفاہمت کے جادوگر ہیں۔ اپنے سب سے دیرینہ مخالف (ق لیگ) کو جس طرح سابق صدر نے اتحادی بنالیا تھا، اس ہنر کا عشر عشیر بھی جہانگیر ترین کے پاس نہیں۔ ان تمام معاملات میں قیاس آرائیوں کا طوفان برپا ہے کہ عمران خان کو عنان حکومت چلانے کے لیے ایک کھلا اور صاف میدان دیا جانا مقصود تھا، تاکہ عالمی برادری میں پاکستان کا ایک نیا امیج سامنے لایا جاسکے، تاہم اب تقاریر اور جلسے جلوسوں سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی آئندہ حکمت عملی پی پی پی کے ساتھ کیا ہوگی۔ اس پر سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جارہے ہیں، کیونکہ متحدہ اپوزیشن کا اگلامرحلہ سینیٹ میں تبدیلی لانے کا تھا اور پھر صدرِ پاکستان کے انتخابات کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔ صدر ِ پاکستان کا انتخاب تمام پارلیمانی اکائیاں مشترکہ طور پر کرتی ہیں، گو صدر پاکستان کے اختیارات ماسوائے ربڑ اسٹیمپ سے زیادہ نہیں لیکن آئینی طور پر اس عہدے کی قدر و قیمت بہرحال اہمیت رکھتی ہے۔

پی پی پی بلائنڈ گیم کھیلنے میں بڑی مہارت رکھتی ہے۔ اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ جس طرح زرداری کے گرد احتساب کا دائرہ تنگ کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسی شطرنج بھی بچھادی جائے، جس میں ایک بار پھر دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتیں ایک ایسے فارمولے پر مفاہمت کرلیں جس میں سینیٹ کی چیئرمین شپ مسلم لیگ(ن) اور صدر کا عہدہ پی پی پی کو مل جائے۔ نمبر گیم میں تحریک انصاف کو کامیابی اور اپنا صدر لانے کے لیے سخت تگ و دو کرنا ہوگی، تاہم ان تمام امور کا انحصار زرداری کی سیاست پر منحصر ہے، کیونکہ مفاہمت کا جادوگر کسی بھی وقت پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام انتخابات میں کروڑوں عوام کو راغب کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے، لیکن منتخب اراکین اسمبلی کی ہارس ٹریڈنگ تو ہماری پارلیمانی سیاست کا ’’جزولاینفک‘‘ بن چکی ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے لیے اپنے احتجاجی مظاہروں کی طاقت کو مناسب وقت کے لیے محفوظ رکھنا بہتر ہوگا۔ ابھی عمران خان کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ہے اور ان کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔ عوام انہیں کئی معاملات پر کلی استثنیٰ دینے کے لیے ذہن بناچکے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کوبے موقع کی راگنی کے بجائے تحمل و قانونی راستے کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ جن جن حلقوں میں مسلم لیگ(ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتراضات ہیں، اس پر قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے حکمت عملی اپنائیں۔ الیکشن ٹریبونل جائیں۔ نادرا سے شناختی مراحل کی ووٹر اور پی او کے مرتب کردہ فارم 45کی بائیو میٹرک اور فرانزک کرائیں، دونوں ایوانوں پر مشتمل مشترکہ پارلیمانی جماعتوں کا کمیشن بنائیں۔ ضمنی الیکشن کی تیاریوں میں دوبارہ اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کریں۔ اب تو اوورسیز پاکستانیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا ہے۔ شاید یہ تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ’’اچھی‘‘ خبر نہ ہو۔ لیکن عوام صرف ایک اچھی خبر سننے کے متمنی ہیں کہ اپوزیشن سنجیدہ اور مدبرانہ سیاست کرے، ماضی کی منفی سیاست کو مزید فروغ نہ دے بلکہ اپنے مثبت عمل سے ثابت کرے کہ وہ عوام کو تکالیف کے نئے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ جو ہوا ’مٹی پاؤ‘۔ لیکن بے یقینی کی چھائی گرد کو ہٹانا ہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744179 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.