کافی وقت گزر گیا کسی اپنے سے بات ہوئے میں روز سوچتا ہوں
کوشش کرتا ہوں کہ اس سے رابطہ بحال کروں کافی بحث مباعثے کے بعد میں نے
فیصلہ کیا کہ آج اُسے منا ہی لیتا ہوں میں سب اپنی رنجشیں اپنے سب درد دکھ
تکلیفیں بھول بھلا کر اُسے نیا رخ دیتا ہوں اُس کی زندگی کو پھر سے زندگی
بنانے کی کوشش کرتا ہوں
پاگل سا تو ہوں میں بھی بھول گیا تھا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا کے لگتا
ہے اور جیسا میں سوچ رہا ہوں
پر نجانے کیوں دل ہے کہ بار بار مجھے مجبور کر رہا تھا کہ ایک قدم بڑھا
مسعود کوشش تو کر کے دیکھ شاید وہ بھی منتطر ہو وہ بھی اِسی انتظار میں ہو
کہ شاہد کوئی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرے پھر کیا تھا میرے پاس ایک ہی
زریعہ تھا وہ بھی فون کا پھر میں نے بھی وہی زریعہ اپنایا فون والا
اپنا موبائل اٹھایا اور سائن آن کیا اسی آئی ڈی سے جس سے کبھی کبھی ہم بات
کیا کرتے تھے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ وہ بھی آن لائن تھا میرا دل تھک
تھک کرنے لگا اُسے آن لائن دیکھ کر
پھر ایسی طرح تقریباً پندرہ منٹ اُس کو اِسی طرح ہی آن لائن دیکھتا رہا اور
ساتھ ساتھ میں یہ سوچتا رہا کہ کہوں گا کیا کس لفظ سے شروع کرونگا بات کہاں
سے شروع کروں گا میں
بس اِسی کشمکش میں میرا زہین ڈلتا گیا میری سوچ اسی سوچ میں یہ سوچ بھی
شامل ہوگئی کہ عرصہ بیت گیا ہے ہوسکتا ہے اس کا معیار بھی بدل گیا ہو اور
اُس کی نظر میں اب ہماری اہمیت نا رہی ہو شاید وہ مجھے بھول چکا ہو
پھر کیا تھا اُنہی سوچوں میں بیتی یادوں میں میری آنکھیں پھر سے بہنے لگیں
کیا بتاؤں میرا دل پھر سے درد سے بھر چکا تھا اتنا اپنے آپ میں کھو گیا کہ
اپنے الفاظ بنتے بناتے اس کی وہی انا سامنے آ گئی وہی اکڑ وہی باتیں جو اس
نے مجھے جاتے ہوئے کبھی کہی تھیں
میرا بار بار اُسے سمجھنا اور اُس کا ایک طرف سے سننا اور پھر بار بار
اگنور کرتا وہ کونسی بات تھی جو اُسے نا سمجھائی ہو میں نے اور نہ بتائی ہو
لوگ کہتے ہیں کہ باہر کے لوگ دوسروں کی زندگی تباہ برباد کرتے ہیں لیکن میں
اُسے بار ہا بار کہا کہ دیکھ تیری زندگی تیرے اپنے ہی مشکل میں ڈال رہے ہیں
وہ کہتا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ تو میرے اپنے ہیں وہ ایسا کیونکر کریں گے
میں کہتا کہ باہر کے لوگوں کو کیا پڑی تیری مشکلات میں اضافہ کرنے میں اور
تیری زندگی خراب کرنے میں وہ تو باہر والے ہیں استعمال تو تجھے اپنے کرتے
ہیں دیکھ تیرے ساتھ اب تو نہیں تیرے ساتھ اور بھی بہت سارے رشتے جوڑے ہیں
بس پھر کیا تھا
اِسی سوچ بچار میں حوصلہ کھو دیتا ہوں لیکن پھر بھی چپ تھا
لیکن وہ آخری دن جس دن وہ جانے لگا میں نے پھر بھی کہا کہ مت جاؤ روک جاؤ
جو تو سمجھتا ہے کہ وہ جو میرا نہیں بس وہی تیرا ہے اور جسے تو سمجھتا ہے
کہ وہ میرا ہے بس وہی تیرا نہیں سمجھنے کی کوشش کر
اپنے اپنے نہیں ہوتے اپنی دھوکہ فریب دیتے ہیں غیروں کو کیا پڑی کہ وہ آپ
سے دشمنی کریں کیوں آپ کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کریں
یہی سوچ رہا رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوا بیس سال بعد پچھتانے اور ہوش آنے سے
بہتر ہے کہ ابھی سوچ در کھلا ہے لوٹ آ جانے والے لوٹ آ جن کو تو اپنا سمجھ
بیٹھا ہے وہ تیرے نہیں تیرے تو وہ ہیں جن کو تو پرایا سمجھ بیھٹا ہے اپنے
وہ نہیں ہوتے جو رونے پر آتے ہیں بلکہ اپنے وہ ہوتے ہیں جو رونے نہیں دیتے.
میں نے تو صرف یہ کہنا تھا کہ دیکھ زمانے والوں سے چھُپ کے رونے کے دن نہیں
ہیں
اُسے یہ کہنا تھا میں جان سکتا ہوں وَصل میں اصل بھید کیا ہے مگر حقیقت
شناس ہونے کے دن نہیں ہیں
میں نے تو بس یہ کہنا تھا جب یقیں کی بانہوں پر شک کے پاؤںپڑ جائیں چوڑیاں
بِکھرنے میں دیر کِتنی لگنی ہے
میں نے تو بس یہ کہنا تھا کہ آ دیکھ تیرے آنے کی سرگوشی کو سُننے کے لیے
میں نے کِتنے پھُول چُنے اور اپنی شال میں سجا رکھے ہیں
یہ کہنا تھا اور یہ بھی کہنا ہے کہ جا رہا ہے تو پھر جا مَیں بد دُعا تو
نہیں دے رہا تجھے مگر میری دُعا یہی ہے تجھے ہم سا اب کوئی نہ مِلے
ایک حرفِ یقین کی آرزو میں مَیں کتنے لفظ لکھتا جا رہا ہُوں یقین جانو مَیں
اپنی عُمر کی قیمت پہ تیرے ہر ایک دُکھ کا ازالہ ہو رہا ہُوں اور یہ بھی
کہنا تھا کہ غضب کا خوف ہے تنہائیوں میں یہی سوچ کر میں اب اپنے آپ سے ڈرنے
لگا ہُوں
بس اسی سوچ میں وہ آف لائن ہو گیا اور میں پگلا پھر سے اسی لائف لائن میں
واپس آج تک تنہا
امید ہے اسے مجھ سے اچھے دوست مل گئے ہوں گے |