احمد کی کمپنی کے افسر نے اسلام آباد سے اُسکو ٹیلی فون
کر کے کہا کہ ہم نے آپکو تجربے پر ملازمت دی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری
پروڈکٹ بھی معیاری ہے۔لیکن ابھی تک لاہور میں آپ کی مارکیٹنگ کمزور ہے اور
آرڈر نہیں آرہے۔اب آپکے بارے میں کیا فیصلہ کریں؟
احمد نے جواب دیا ۔سر آپ جانتے ہیں کہ میں نے تو اپنے ماضی کے تعلقات
استعمال کرتے ہوئے کام مکمل کر لیا تھا اور آپکی طرف سے مہیا کی گئی لسٹ کے
مطابق بھی پارٹیوں سے ملاقاتیں کر لی تھیں ۔ جدید طریقوں کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے رابطے نمبر ،ای میل آئی ڈیز وغیرہ حاصل کر کے اولین قیمتیں و اشتہار
تک ارسال کر دیئے تھے۔لیکن سوال اُٹھایا گیا سیزن کا۔ جسکا آغاز ماہِ اگست
سے ہونا تھا۔
افسر نے کہا تو پھر جی اب ؟
ٹھیک ہے سر چند روز سے رابطے میں ہوں لیکن ملکی حالات کی آواز۔سر لگتا ہے
کام صرف پاکستان میں میڈیا کے پاس ہے ۔اگر وہ ہر خبر کو دِن بھر بریکنگ
نیوز کر کے نہ چلائیں تو ہمارے پاس بھی کام ہو۔
افسر ! اس معاشرے میں میڈیا کو اہمیت ہم نے دی ہے۔ اب اس سے برداشت بھی ہم
نے ہی کرنا ہے ۔ اپنے معاملات چلانے کیلئے حل بھی ہم نے ہی نکلنا ہے۔لہذا
نظام نے ایسے ہی چلتے رہنا ہے اور ہمیں ایسے ہی آگے بڑھنا ہے۔ایک بات یاد
رکھنا جیسے ہم ہیں ویسے ہی وہ افراد بھی ہیں جن سے ملاقات کر کے کاموں کا
سلسلہ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ بس اگلے ایک دو روز میں دوڑ لگا دو۔
احمد نے اگلے روز پہلے ایک دفعہ پھر تمام ماضی رابطوں پر اپنے موبائل سے
ایس ایم ایس، واٹس ایپس اور ای میلز کیں اور ایک دفعہ پھر اپنی اور اپنے
پروڈکٹ کی پہچان کرواتے ہوئے آخر میں لکھا کہ اگر آپ کو یہ پیغام موصول ہو
گیا ہے تو صرف "اوکے" لکھ کر جواب دے دیں تاکہ میں آپ حضرات سے ملاقات کا
وقت مقرر کر کے حاضر ہو جاؤں۔
اوہ! دو سے تین دن گزر گئے کسی کا جواب نہیں آیا اور دوسری طرف افسر کا فون
آتا رہا کہ وزٹ شروع کرو۔
احمد کیلئے حیران کُن یہ تھا کہ صبح سے لیکر رات گئے تک ،گھر والوں سے لیکر
جہاں بھی جانے تک ، رات گئے ہسپتالوں میں اپنے مریضوں کے لے جانے تک
،قبرستانوں میں میت دفنانے تک ہر ایک ہاتھ میں یا ساتھ میں موبائل ہو تا ہے
اور وہ اپنے ساتھ والے سے زیادہ اُسکو اہمیت دے رہا ہوتا ہے۔کال سننے کی
صورت میں ،یا ٹیکسٹ کی صورت میں ۔لیکن گزشتہ دو تین دن کے دوران اُسکو کسی
نے جواب نہیں دیا۔ نہیں ملنا تو شُکریہ کا پیغام ہی بھیج دیں۔سمجھ آجائے
گی۔ابھی نہیں۔
سیلز مین کی زندگی تو پھر بھی وہاں سے ہی شروع ہوتی ہے جہاں سے شُکریہ سُن
لیتا ہے۔کیونکہ آخر کار خریدار و فروخت کا ر ملے گا ہی تو سلسلہِ روزگار
آگے بڑھے گا۔ یہی نظامِ قدرت بھی ہے جسکی پہلی دفعہ میں سب نفی کرتے ہیں
اور پھر چوری آنکھ سے تعلق بنا کر مستقبل میں ایک کاروباری دوستانہ ترتیب
دے دیتے ہیں۔
بہرحال احمد اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دو روز کی ملاقاتوں کے بعد جب رات
کو گھر پہنچا تو وہ بہت ہی مایوس تھا کیونکہ کسی کا بھی جواب نہ آنے کی وجہ
سے اُس نے ملاقاتوں کی خود ترتیب و ٹائمنگ بنائی اور پھر کہانی یہاں سے
شروع ہوئی :
اتوار کو اپنے ایک دوست کو ٹیلی فون کیا کہ کل آپ نے فلاں پارٹی سے کتنے
بجے ملنے جانا ہے ؟اُس نے کہا میں کال بیک کرتا ہوں ۔رات گئے انتظار کرنے
کے بعد جب احمد سونے جارہا تھا اُس دوست کا ٹیلی فون آیا کل دوپہرساڑھے بار
ہ بجے۔ رات بھر اُس ٹائم پر پہنچنے کی وجہ سے خاص نیند نہ آئی۔معاملاتِ
زندگی چلانے کیلئے پیسے کی ضرورت ہے اور پھر جب خرچے پورے نہ ہوں توکہیں سے
بھی کرن پھوٹنے کی اُمید ہوتی ہے۔
احمد صبح وقت پر اُٹھا کہ مقررہ وقت پر وہاں پہنچا جا سکے کہ اس دوران
والدہ کی آواز آئی کپڑے دھونے والی آئی ہے اور واشنگ مشین چل نہیں رہی۔ دو
دن کے کپڑے ہیں۔اوہ! وہ جان گیا کہ پہلے یہ ضروری ہے لیکن اگلے ایک گھنٹے
میں وہ مشین نہ چلی۔ تھک کر بیٹھ گیا اور پھر نہا نے کیلئے جانے لگا تو
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو گئی۔پانی کی موٹر بند۔وہ تو شُکر تھا کہ کچھ پانی
ٹینکی میں تھا۔
11بج چکے تھے اور احمد تیار ہو رہا تھا کہ کالج سے اُسکی بھتیجی کا فون
آگیا کہ اُسکی طبعیت خراب ہو گئی ہے اُسکو آکر لے جائیں۔
اوہ! احمد نے کہا کہ اُس کا کسی سے ملاقات کا ٹائم ہے 12:30 دوپہر ۔لہذا
دونوں راستے برابری کے فرق پر ہیں۔انتظار کرو کچھ کرتا ہوں۔اُسکے والد کو
ٹیلی فون کیا ۔اُس نے واپس کال کی کہ انتظام ہو گیا ہے وہ آجا ئے گی۔لیکن
احمد سوچ رہا تھا کہ کیا پہلے بیمار کی طرف جانا چاہیئے تھا یا کاروباری
ملاقات کیلئے۔اس ہی پریشانی میں 12بج گئے۔ جلدی سے کار اسٹارٹ کی پٹرول پمپ
پر پہنچا ۔ایک ہزار روپے کا پٹرول ڈلوایا اور مقام کی طرف پہنچنے کیلئے کار
تیز چلائی لیکن ہاہاہاہا۔۔۔قہقہ پریشانی کا تھا یا بد حواسی کا؟
آگے راستے میں سڑک بن رہی تھی اور ٹریفک پھنسی ہوئی تھی۔ایک طرف سے سروس
روڈ کی ذریعے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور احمد گھڑی کی طرف دیکھ
رہاتھا کیونکہ وہاں پہنچنے کا وقت ہو چکا تھا۔ اس دوران موبائل کی گھنٹی
بجی ۔گھر سے فون تھا کہ کسی ایک کمرے کی چابی کھو گئی ہے احمد ایک چابی
تمھارے پاس ہے۔اُس نے کہاٹریفک سے نکل کر پہلے کہاں جاؤں؟ ایک نئی فکر کہ
ایک دفعہ پھر موبائل کی گھنٹی بجی۔اب اُس دوست کا فون تھا جو وہاں پہنچ
چکاتھا۔
جی میں پہنچ رہا ہوں ۔ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوں ۔اُس نے کا کوئی بات نہیں
آرام سے آجاؤ۔احمد کو دِلی تسلی ہوئی اور خوشی بھی کہ چلو کام بن گیا ہو
گا۔اس لیئے دوست کا فون آیا ہے۔چلو ایک معاملہ تو حل ہوا۔گو کہ اُس وقت تک
وہ صبح سے معاملات کی وجہ سے ذہنی طور پر تھک چکا تھا ۔آدھے گھنٹے کا راستہ
تھا پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ آگے دوست ملا۔ اُس نے کہا وہاں کہہ دیا
ابھی انچارج آپکو ملیں گے۔ میں چند منٹوں میں آرہا ہوں۔انتظار کرنا۔
احمد انتظار میں بیٹھ گیا کہ اگلے ہی لمحے انچارج آگئے۔اُنھوں نے مجھے
دیکھا اور بڑی خوش اسلوبی سے ملے۔ احمد۔ تعارف کروایا تو اُنھوں نے فوراً
کہا آج پیر کا دِن ہے اور پہلے ہی ملاقات کرنے والوں کا رش لگا ہوا ہے۔آپ
کل آجایئے گا۔صبح 9تا دوپہر2 بجے تک۔
اوہ! 5 لفظ بس اور صبح سے اس ملاقات کیلئے کیسی تگ و دو۔۔۔اوہ!
چند منٹوں بعد دوست بھی واپس آگیا۔ اُس نے پوچھا ملاقات ہو گئی ہے؟جی کل کا
وقت دیا ہے۔ آپ کا شُکریہ۔
دوست بولا وہ انچارج سے ملاقات میں ذکر کریں گے کہ تمھارے ساتھ تعاون کریں۔
احمد نے پوچھا آپکی پہلے بات ہوئی تھی تو اُنھوں نے کیا کہا تھا۔ دوست بولا
اُ سکی تو ابھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔جی جی !اور صبح سے میری دوڑیں لگ
گئیں۔ اتنی مایوسی ہوئی کہ آہستہ آہستہ کار چلاتے ہوئے ایک دو جگہ سے ہوتے
ہوئے واپس آگیا۔راستے میں یہ سوچتے ہوئے ایک کال،ایک ایس ایم ایس سے۔کیا
جدید دور کی آسانیاں نہیں؟
دوسرے روز بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ۔ہفتہ پہلے ایک پارٹی سے گفت و شنید
کے بعد جب اگلی ملاقات ضروری تھی تو وقت کیلئے ای میل کی۔کوئی جواب نہ آنے
پر یہ سوچ کر کے بڑے لوگ ہیں اس بات پر ناراض نہ ہو جائیں کہ ای میل کر رہا
ہے بذاتِ خود حاضر کیوں نہیں ہو رہا ۔احمد اُنکے دفتر پہنچ گیا۔ چند منٹ
بعد انتظار کرنے کے بعد استقبالیہ پر موجود لڑکی نے کہا کہ :
پہلے آپ نے وقت نہیں لیا ہوا تھا اس لیئے آج منیجر کے پاس وقت نہیں اور
آئندہ دِنوں میں بھی اُنکا شیڈول اتنا مصروف
ہے کہ وقت نہیں۔
بہت خوب اگر ایسی بات تھی تو دوسری دفعہ وقت حاصل کرنے کی ای میل کا جواب
دیا جا سکتا تھا۔ تاکہ احمد کو یہ کوفت اُٹھانا نہ پڑتی۔بلکہ اُسکا اب تک
پندرہ سو روپے کا پٹرول لگ چکا تھا لیکن کہیں سے مُثبت جواب نہیں۔ اپنا
کوئی روپیہ لگتا اور چھوڑتا نہیں اور دوسرے کا ۔۔۔اوہ!!!ہاہاہاہا!!!!
"بناوٹی قہقہ" ۔
کیونکہ یہ پڑھ کر سب جان جائیں گے کہ سب کے گھروں اور ذاتی کاموں کا یہی
حال ہے لیکن دوسرے کا خیال نہیں۔
اس لیئے آج کے جدید دور میں ہر جدید سہولت کا مُثبت استعمال ضرور کریں۔شاید
اس سے بہت سے فوائد حاصل ہو جائیں۔
اسلام آباد کے افسر کا کوئی ذکر نہیں۔
|