نصرت سوچ رہی تھی کہ وہ کوئی کام کر لے ، اسے مالی مسائل
کا سامنا تھا۔ اب جب کہ اس کی گود میں ارحم بھی تھا تو اسے کام کرنا بہت
مشکل لگ رہا تھا۔ اس کی ساس دبے لفظوں میں اسے کہیں بار ارحم کے منحوس ہونے
کا کہہ چکی تھی لہذا وہ اسے ان کے پاس بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ روز امی کے
گھر بھی ارحم کو چھوڑنا مشکل تھا۔ اس لیے اس نے ایک کام والی کو صبح چھ بجے
سے شام پانچ بجے تک کے لیے کام پر راضی کرنا تھا۔ بہت دنوں بعد ایک کام
والی نے اپنی بیٹی کو نصرت کے پاس چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اب مسلہ کام
ڈھونڈنے کا تھا۔ نصرت کو جہاں اس کی بھابھی نے جاب کا کہا تھا وہ جگہ پر ہو
چکی تھی۔ نصرت نے کالج میں جاب کے لیے انٹر ویو دینے کا سو چا ۔ وہ کالج اس
کے رشتہ داروں کا ہی تھا۔ اس لیے اسے فوراً جاب مل گئی ۔ نصرت کو فوراً ہی
اندازہ ہوا کہ کام کرنا اس قدر آسان نہیں جس قدر معلوم ہوتا ہےلیکن اس نے
دل ہی دل میں ٹھان لی کہ وہ ضرور کام کرئے گئی۔ کسی بھی وجہ سے پیچھے نہیں
ہٹے گی۔ جہاں سٹاف میں اسے اچھی دوستیں ملی ،وہاں کچھ میل سٹاف میں کچھ
ایسے لوگوں سے بھی اس کا واسطہ بھی پڑا جو باظاہر تو کچھ نہیں کہتے مگر
ایسے گھورتے اور ایسی حرکتیں کر جاتے جو اسے سخت ناگوار گزرتی ۔ اسے اندازہ
ہوا کہ کیوں اکثر آدمی اپنی بیوی کا باہر جا کر کام کرنا پسند نہیں کرتے ۔
نصرت سٹاف روم میں مس لبنی کےساتھ بیٹھی تھی کہ سر عارف اندر آئے ۔ انہوں
نے الماری کھولتے ہی بہت اخلاق سے کہا، اسلام علیکم ، آپ لوگوں نے آج تو
صبح ہی گپ شپ شروع کر دی۔سر عارف کالج سٹاف میں سب سے سینئر اور قابل
احترام تھے۔ ان کی عمر بھی ساٹھ کے قریب تھی۔
اس پر لبنی نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے تمسخر خیز لہجے میں کہا۔ گپ شپ نہیں
سر ،ہم تو کل ہونے والے واقعے پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ سر عارف نے دلچسپی
لیتے ہوئے ، صوفہ پر بیٹھ کر کہا۔ کیسا واقعہ !
لبنی نے حیرت سے کہا آپ کو نہیں پتہ وہ جو نئی ٹیچر مس سمن آئی تھیں ، وہ
سر فرید کے ساتھ بھاگ گئی۔سر عارف نے حیرت سے پھٹی بھٹی آنکھوں سے دیکھتے
ہوئے کہا۔ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ،وہ تو شادی شدہ تھے دونوں۔ فرید کے
تو چار بچے ہیں،بہت پیارے ہیں ۔ابھی ان کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ مس لبنی
نے کہا۔ مس سمن کے جو نہیں تھے ۔ وہ تمسخر خیز ہنسی ہنستی ہوئی اُٹھ کھڑی
ہوئیں۔ نصرت افسردگی سے ،ان کے ساتھ چلتی ہوئی باہر آ گئی۔ اسمبلی شروع ہو
چکی تھی۔
وہ اسمبلی میں سے کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔ اس کا دماغ بہت سے
خیالوں سے الجھا ہوا تھا۔سمن جیسی عورتیں سب عورتوں کو شرمندہ کرتی ہیں ۔
اسی لیے گھٹیا قسم کے مردوں کو ہر عورت ہی سمن جیسی لگتی ہے اور وہ ٹرائی
کرنے سے باز نہیں آتے ۔ کاش کے سمن نے سوچا ہوتا کہ وہ کیا کرنے جا رہی
ہے۔نفس کا شرپسماندہ ذہن مرد و عورت کو برابر متاثر کرتا ہے۔ معاشرے میں بے
راروی بڑھنے سے ایسے واقعات تو اب عام سننے کو ملتے ہیں ۔اس نے تلاوت شروع
ہونے پر اپنے سر کو جھٹکا ۔
طلبہ نے سورت العصر کی تلاوت کے بعد ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ نصرت پیچھے
پیچھے دہرا رہی تھی جب کہ اس کے لب خاموش تھے۔قسم ہے العصر کی ۔ بے شک
انسان نقصان میں ہے ۔ مگر وہ لوگ جوایمان لائے اور جونیک عمل کرتے رہے۔
نیکی کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
نصرت کےدماغ میں فوراً آیا اس نے کیوں مس لبنی کو غیبت کرنے سے نہیں روکا۔
ہم کہا ں نیکی کی نصیحت کرتے ہیں ،کہاں اپنے نفس کے اُکسانے پر صبر کرتے
ہیں۔ اصل صبر تو خود سے جنگ ہوتی ہے۔ جس میں انسان کو سخت مجاہدہ کرنا
پڑتاہے اسمبلی ختم ہو چکی تھی ۔ مس لبنی نے نصرت کو کھویا ہوا دیکھ کر سوال
کیا۔ آپ کو کیا ہوا نصرت ؟ آپ کے شوہر کا کچھ پتہ چلا۔
نصرت نے مس لبنی کی طرف دیکھے بغیر نہیں میں سر ہلایا۔ مس لبنی نے افسوس
کرتے ہوئے کہا۔ ہمارے ہاں ہر چیز میں ہی خرابی ہے۔ بہت سے لوگ لاپتہ ہو
جاتے ہیں ،عمر بھر ان کا پتہ نہیں چلتا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ نصرت نے
ان کی طرف بیزار ی سے دیکھا اور پھر دھیرے سے کہا۔ کچھ بھی ہو ، ہمیں
دوسروں کو مثبت سوچ دینی چاہیے۔ زندگی امید ہے،نا امیدی نہیں ۔ مجھے یقین
ہے کہ میرے شوہر ضرور واپس آئیں گئے۔ مس لبنی نے فوراً کہا ، جی جی ۔ میرا
مطلب یہ نہیں تھا۔ دیکھیں ایک آپ ہیں اور ایک سمن ۔ کس قدر فرق ہوتا ہے نا
لوگوں میں ۔ شوہر کو کیسے دھوکا دیا۔ اس عورت نے۔ نصرت نے افسردگی سے کہا۔
ہم کسی کی ذاتی زندگی نہیں جانتے ۔ کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے ہاتھوں
مجبور ہو کر گناہ کر بیٹھتا ہے۔ ہمیں دوسروں کے گناہوں کی تشہیر سے گریز
کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ ہم سب ہی
میں کمیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھے عمل کرنے کی توفیق دیے۔ مس لبنی
تھوڑی دیر خاموش رہی ،پھر مسکرا نے کی کوشش کر کےانہوں نے کہا۔ جی جی ۔ کہہ
تو آپ ٹھیک رہی ہیں ۔
نصرت کلاس میں جا چکی تھی، مس لبنی کسی دوسری ٹیچر سے سمن کے گناہوں کا
تذکرہ کر رہی تھی، جس کی ہلکی ہلکی آواز نصرت کے کانوں میں آ رہی تھی۔
نصرت نے افسردگی سے دل ہی دل میں کہا۔ اے اللہ مجھےاپنی ذات اور دوسروں کی
ذات کے شر سے محفوظ رکھ ۔ کبھی کبھی اپنے ہی منہ کو بند رکھنا کس قدر مشکل
ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفہ اور وقار گھر واپس آ رہے تھے۔ عارفہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے
کہا۔ میں تو شکرانے کے نفل پڑھوں گی گھر جا کر ، چلیں بچوں کو لیتے ہوئے
جاتاے ہیں ۔ وقار نے بھی ایک لمبی سانس لیتے ہوئے ،ہلکی آواز میں کہا۔
ٹھیک ہے۔ عارفہ اپنی بہن کے گھر پہنچی تو وہ باورچی خانے میں کام کر رہی
تھیں ۔ اس نے انہیں پیش آنے والے واقعات کا مختصراً بتایا اور بچوں کا
پوچھا۔نمرہ نے کہاوہ تو اندر کھیل رہے ہیں ۔ عارفہ بچوں کو دیکھنے کمرے میں
گئی تو ساکت ہو کر رہ گئی سات سال کا ابو بکر اپنی چار سال کی بہن عاتکہ کے
ساتھ وہی حرکت کر رہا تھا جو اس نے رمشہ کو کرتے دیکھا تھا تو اس کے منہ پر
ذور دار طمانچہ دے مارا تھا۔ اس نے خود کو سنبھالا۔ یہاں رمشہ نہیں تھی ،اس
کا اپنا بیٹا تھا ۔ جس کی تعریفیں کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کا
اپنا بچہ ۔ایک تھپڑ کا حق دار تو وہ بھی تھا مگر تھپڑ کھا کر وہ روتا تو وہ
دوسروں کو کیا بتاتی ۔ اس نے اسے کیوں مارا ۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی
نے اس کے منہ پر ذور دار طمانچہ دے مارا ہو۔ اس کی انکھوں سے آنسو جاری
تھے ۔ اس نے پاس جا کر ابو بکر کو فوراً سے پیچھے کیا۔ کمرے کے دروازے کی
طرف دیکھتے ہوئے عاتکہ کے کپڑے ٹھیک کیے ۔ اسے ڈر تھا کہ اس کی بہن نمرہ نہ
آ جائے۔ اس نے ابو بکر کی طرف گھور لر دیکھا ، جو ڈرا ڈرا لگ رہا تھا۔نمرہ
کمرے میں آ چکی تھی۔ عارفہ ،کھانا بس بن ہی چکا ہے۔ عارفہ نے انکھوں کے
آنسو صاف کئے ۔ نمرہ نے پیار سے کہا۔ اللہ کا شکر ادا کرو ۔ جس نے بچا لیا
تمہیں مصیبت سے۔
عارفہ نے اپنی مٹھیاں بند کرتے ہوئے کہا۔ نہیں باجی کھانے کو رہنے دیں ۔
نمرہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ارے کیسی بات کر رہی ہو۔
کھانے کا وقت ہے ۔ تم لوگ کھانا کھا کر ہی جاو گئے۔ یہ کہتی ہوئی نمرہ کمرے
سے چلی گئی۔ نمرہ کے کمرے سے جاتے ہی ابو بکر کے پاس آ کر بازو پکڑ کر
گرتے ہوئے آنسووں میں عارفہ نے کہا۔ کیا میں نے آپ کو منع نہیں کیا تھا۔
یہ سب کیوں کیا۔ ابو بکر نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ سوری مما۔ عارفہ نے غصے کو
نگلنے کی کو شش کرتے ہوئے۔ آہستہ سے کہا۔ یہ جواب نہیں ہے۔ میرا جی تو
چاہا رہا ہے ایک طمانچہ ماروں آ پ کو ۔ آپ کو شرم نہیں آتی۔ مما نے آپ
کو بتایا تھا نا۔ وقار کمرے میں آ چکا تھا۔ عارفہ خاموش ہو گئی۔ وقار نے
آتے ہی عاتکہ کو گود میں اُٹھا کر پیار کیا۔ ابو بکر نے عارفہ سے بازو
کھنچتے ہوئے وقار کی طرف دوڑ لگائی ۔ آپ کہاں تھے ۔ اس نے وقار سے پوچھا۔
وقار نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔ بیٹا میں واش روم میں
تھا فریش ہو رہا تھا۔ آپ کیا کرتے رہے خالہ کے گھر۔ ابو بکر نے ایک نظر
اپنی ماں کے خوفزدہ چہرے کی طرف دیکھاپھر اپنے پاپ کی طرف منہ کرتے ہوئے
کہا۔ کچھ نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ نے ابھی کالج کے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ اسے سامنے خرم نظر آیا جو
اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ نقاب کے باوجود بھی وہ آمنہ کو اچھے سے پہچان
لیتا تھا۔ اس نے آمنہ کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ آمنہ نے دوسری طرف
دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ اس نے غصے سے موبائل نکال کر
میسج لکھا ۔ آمنہ نے اسے بھی نظر انداز کرتے ہوئے اپنی وین میں بیٹھنے کو
ترجیح دی۔ وہ وین کے قریب سے جب موٹر سائیکل سے گزرا تو چیختے ہوئے بولا ۔
تم بہت پچھتاو گی۔
آمنہ نے گھر آتے ہی جب میسج پڑھے تو آگ بگولا ہو گئی۔ اس نے اسے ملنے کا
کہا تھا اور نہ ملنے پر بہت سی دھمکیاں دی تھیں ۔ آمنہ سوچ رہی تھی کہ
اپنی ماں کو بتا کر اپنی غلطی کا اعتراف کر لے ۔ آفاق کے گم شدہ ہونے کے
بعد سے تنزیلہ نے آمنہ کو ڈانٹنا چھوڑا ہوا تھا۔ وہ بہت پریشان اور غمزدہ
رہتی تھی۔ عارفہ کے نوکری کرنے سے گھر کے مالی اخراجات میں تو سہولت ہو گئی
تھی مگر اس کے دل کا قرار اسے میسر نہ تھا۔ آفاق کہا ں ہو گا کس حال میں
ہو گا ۔یہ سوچ اسے ہر پل کھائے جاتی تھی۔ نصرت کو اپنی ساس کی حالت کا
اندازہ تھا۔ وہ ان کی ہر بات کو صبر سے سنتی اور برداشت کرتی۔ آمنہ ایسے
میں اپنی پریشانی کا تذکرہ ان سے کرتےہوئے جھچک رہی تھی۔ اس نے کالج نہ
جانے کا فیصلہ کیا۔ تین دن سے وہ کالج نہیں جا رہی تھی جبکہ خرم کے میسج
اسے پریشان کر رہے تھے۔ اس نے میسج میں اسے گالیاں دیتے ہوئے اس کی جان
چھوڑنے کا کہا۔ دوسری طرف سے خرم نے اسے مذید دھمکیاں دی۔
اتوار کے دن آمنہ اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب اُٹھا کر اس کے صفحے الٹ پلٹ
رہی تھی کہ نصرت کمرے میں آئی ۔ نصرت نے آمنہ سے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
اسے گھر کا سودا لانا تھا۔ ارحم سات ماہ کا ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھ سودا
لانا نصرت کو بہت مشکل لگتا تھا۔ آمنہ نے پہلے تو کوشش کی کہ انکار کر دے
۔ نصرت کے اصرار کرنے پر وہ ساتھ چلنے پر راضی ہو گئی ۔ وہ ایک بڑے اسٹور
کے پاس رکشے پر اُتری ہی تھیں کہ اس کی نظر خرم پر پڑھی ۔ جو اپنی موٹر
سائیکل پر اس سے دو فٹ ہی دور تھا۔ اس نے انجان بنتے ہوئے فوراً اپنا منہ
دوسری طرف کرتے ہوئے اسٹور کے اندر جانے میں عافیت سمجھی۔ انہوں نے تقریباً
ایک گھنٹے میں تمام شاپنگ مکمل کر لی۔ مہینے بھر کا سودا لے کر وہ باہر
نکلی ہی تھی کہ انہیں ایک رکشہ خالی نظر آ گیا۔ نصرت نے ارحم کو گود میں
لیتے ہوئے آمنہ سے کہا۔ تم جاو اس رکشے والے کو لے آو۔ آمنہ کچھ فاصلہ
پر گئی ہی تھی کے تین لڑکوں نے اسے ذبردستی گاڑی میں دھکیلا اور وہاں سے
فرار ہو گئے۔ نصرت چیختی چلاتی رہ گئی۔ اس نے اپنے بھائی وقاص کو فون کیا ۔
جو کچھ دیر بعد اسٹور پہنچ گیا۔ نصرت حواس باختہ وہیں کھڑی تھی۔ اس نے سارا
واقعہ بتانے کی کوشش کی۔
وقاص اسے سامان کے ساتھ اس کے گھر لے آیا۔ تنزیلہ کو جب سارے واقعے کا پتہ
چلا تو وہ چلا چلا کر رونے لگی ۔ ہائے میرے بچے۔ ہائے میری بیٹی ۔ ان کا
بلڈ پریشر بہت ہائی ہو چکا تھا ۔ انہیں فوراً ہوسپٹل لے جانا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وڈیرے کی بیٹی کا پتہ چل گیاتھا۔ اس نے آفاق کوقتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس
کے ملازم آ فاق کو لے کر جا رہے تھے تا کہ اس کا کام تمام کر دیں ۔ شراب
پینے کی وجہ ڈرائیور نے گاڑی درخت میں گھسا دی ۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا
تھا۔ دوسرا آگے بیٹھا ہوا ملازم بھی شدید زخمی ہوا۔آفاق نے پیچھے بیٹھے
ملازم سے پستول چھین لی۔ اس کے سر پر پستول کو ذور سے مارا ۔ اللہ تعالی ٰ
نے آفاق کو بھاگنے کا موقع دیا ہے یہ سوچ کر وہ لڑکھڑاتا ہوا وہاں سے
نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ کافی دیر چلنے کے بعد اسے گاوں کی سڑک پر چلتی
ہوئی بس دیکھائی دی۔ اس نے پستول وہیں پھیکنے کی بجائے اپنی پھٹی ہوئی قمیض
کی جیب میں ڈال لی۔ بس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا ۔ بس کے قریب آتے
ہی اس کے سامنے بازو پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔ بس والے نے بس روک لی ۔ وہ بڑھی
ہوئی دھاڑی اور کپڑوں سے کوئی بھکاری ،فقیر لگ رہا تھا۔ اس نے جب شہر جانے
کے لیے راستہ معلوم کیا تو بس والے اور کنڈکٹر نے حیرت سے اسے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ کے ماموں اس کی تلاش کے لیے پولیس والوں کو چوکس کر چکے تھے۔ ان لڑکو
ں کے گھر والوں کا پتہ لگایا جا چکا تھا۔ لڑکے تینوں اپنے گھروں سے غائب
تھے ۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کہاں گئے۔ گاڑی انہوں نے ایک سنسان جگہ چھوڑ
دی تھی۔ آمنہ کے ماموں نے آمنہ کے موبائل کا تمام ڈیٹا بھی نکلوا لیا
تھا۔ انہیں خرم سے متعلق اور آمنہ کے اغوا کی وجہ بھی پتہ چل چکی تھی۔ خرم
ایک دو دفعہ چوری کے جرم میں سزا بھی کاٹ چکا تھا۔ موبائل چھننے والے گروپ
میں بھی شامل تھا۔
جب ساری باتوں سے متعلق تنزیلہ کو پتہ چلا تو وہ آمنہ کو کوستے ہوئے ، اس
کے مر جانے کی بددعائیں دینے لگی۔ نصرت نے انہیں روکتے ہوئے کہا۔ امی پلیز
ایسا نہ کہیں ۔ کسی وقت کی بات پوری ہو جاتی ہے۔ تنزیلہ نے روتے ہوئے کہا۔
کاش یہاں آفاق ہوتا تو دیکھتا ۔ میں کیوں منع کرتی تھی ۔ جوان لڑکی کو
موبائل دینے سے ۔ اسے ہی کچھ ذیادہ یقین تھا نا۔ عورت اور مرد کی برابری کا
ڈھول پیٹتا تھا نا۔ جس عورت کی عزت چلی جائے اس کا مر جانا ہی اچھا ہوتا
ہے۔ کون کرئے گا اس سے شادی ۔ ناک کٹوا دی میری ۔ وہ آہ و زاری کرتے ہوئے
رو رہی تھی۔ اسی دن کے ڈر سے لوگ بیٹی ہونے پر پریشان ہو جاتے ہیں ۔ اسی دن
کے ڈر سے۔ نصرت بھی ان کے ساتھ رو رہی تھی، تنزیلہ روتی ہوئی پیچھے کو گری۔
نصرت نے اپنے وقاص بھائی کی مدد سے انہیں ہوسپٹل پہنچایا ۔انہیں ہارٹ اٹیک
ہوا تھا۔
آفاق نے گھر پر تالا لگا دیکھا ۔ وہ دروازے پر ہی بیٹھ گیا۔ اس کی حالت
ایسی تھی کہ کوئی اسے اگر غور سے نہ دیکھتا تو نہیں پہچانتا۔ نصرت جب
ہوسپٹل سے واپس آئی تو اس نے گھر کے دروازے پر ایک لمبے بالوں والے ، پھٹے
کپڑے پہنے آدمی کو ننگے پیر اپنے بازوں کو گھٹنوں پر رکھ کر سر رکھے
دیکھا۔ تو پرس سے پیسے نکال کر دینے کا سوچا ۔ پرس کو کھولنے کی کوشش کر
رہی تھی کہ ارحم بھوک سے رونے لگا۔ آفاق نے نظر اُٹھا کر نصرت کی طرف
دیکھا جو پرس ٹٹول رہی تھی۔ اس کی گود میں گول مٹول پیارا سا بچہ تھا۔ اس
نے اسے پکارتے ہوئے کہا۔ نصرت۔نصرت کے ہاتھ سے پرس گِر گیا۔
|