’’ شب و روز‘‘
’’آپ سے تواچھی نظر مکھّی کی تھی ‘‘
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ایسے’’ صاحب نظر‘‘ ہیں کہ ان کی نگاہ
کسی حسن پر ٹھیرے نہ ٹھیرے مگر فوراً سے پیشتر عیب پر ضرور رُکے گی اور
پورے ٹھسے کے ساتھ اس کی نشاندہی کر کے فوراً ثواب سے جھولی بھر لیتے ہیں
بالخصوص ہماری شعرا برادری میں آپ کو کثرت سے ایسے اصحاب ملیں گے ۔ ماضی
قریب کے ایک حضرت یاد آتے ہیں، ہم لوگوں نے جن کا نام علامہ عیب جٗو رکھ
چھوڑا تھا ۔ دوست اس پر متفق تھے کہ انھیں وہ تحریر دِکھاؤ جس میں متفقہ
طور پر کوئی عیب نہ ہومگر علامہ عیب جوٗؔ اس میں کم از کم کوئی ایک عیب
ضرور بتائیں گے۔
ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ میاں! شاعروں ( وغیرہ) میں ایک’ صفت‘عام طورپر
پائی جاتی ہے کہ جیسے راستے میں کسی خوبصورت عورت کے سامنے سے کوئی دوسری
حسین عورت گزرے تو وہ اُس کے ایک ایک پہلو پر نگاہ ڈالے گی اور جب وہ عورت
اس کی نگاہ سے گزر جائیگی تو اس عورت کے مُنہ سے سب سے پہلے جو جملہ نکلے
گا وہ یہ ہوگا :۔۔۔’’ ہونہہ چلتی ٹیڑھی ہے‘‘۔۔۔
یہی حال شاعروں کا ہے کہ آپ اِن کے سامنے چاہے جتنی اچھی تخلیق سنائیں وہ
اسے دیکھیں گے تنقیصی نگاہ ہی سے ، گزشتہ دِنوں ہم نے فیس بک پر ایک مشاعرہ
سنا اور دیکھا ، مشاعرے کی صدارت اُردوکے ایک سینئر تر شاعر کر رہے تھے ان
کے علاوہ شعرا میں وہی سب تھے جو عام طور پر اِس وقت مشاعروں میں سُنے
جارہے ہیں۔ جب صدر ِمشاعرہ کلام سنانے کیلئے مائیک پر رونق افروز ہوئے تو
اُنہوں نے نثر میں مشاعرے کے منتظمین کی تعریف میں کہا کہ آپ نے ایک اچھا
مشاعرہ منعقد کیا وغیرہ وغیرہ اس کے بعد انہوں نے شعرا کے بارے میں کہا کہ
’’ پند و نصائح کے شعرسنائے۔‘‘
پورے مشاعرےمیں حضرتِ صدر یوں بیٹھے رہے جیسے کسی نے اُن کےسَر پر شیشے کے
برتن رکھ دِیے ہوں اور اس شرط کے ساتھ کہ اگر سَر ہلا اور نتیجے میں ایک
برتن بھی ٹوٹا تو آ پ کی گردن مار دِی جائے گی۔ ظاہر ہے ایسے میں کوئی کیا
کر سکتا ہے کہ زبان ہِلی تو سَر بھی ہلے گا اور سَر ہلا تو شیشےکا برتن ٹوٹ
سکتا ہے اور اگر برتن ٹوٹا تو گردن ماردِی جائے گی۔
اسےہماری اُردو تہذیب کہیے یا کوئی اور نام دِیجیے اس میں ایک بات ہم شروع
سے دیکھ رہے کہ آپ کوئی بہت اچھی بات کہیں تو لوگ ایسے سنیں گے کہ بس سُن
لیا اور اگر کسی نے حضرت کی رائے جاننی چاہی تو جواب میں ایک ہلکے سے تبسم
کے ساتھ، ہلکی سی آواز میں منہ سے یہ نکلے گا کہ’’ میاں! اچھا کہاآپ نے
!‘‘۔۔۔۔۔
اوپر ہم نے علامہ عیب جٗو کا ذکر کیا ہے ان کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔بھنڈی
بازار (بمبئی)کا علاقہ کئی لحاظ سے ہمیشہ مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے ۔
یہاں مولانامحمد علی جوہرؔ چوک پرواقع وزیر ہوٹل نے توایک تاریخی حیثیت
اختیار کرلی تھی۔ ملک کی آزادی کے بعد کوئی چار دَہے اس ہوٹل کے تعلق سے
بڑے اہم رہے ہیں ۔شاید ہی اُردو کا کوئی شاعر ہو جواِس وسیع و عریض اور
تاریخی ہوٹل میں نہ بیٹھاہو بلکہ اس ہوٹل نے تو شعرا کی ایک چھوٹی سی ’منڈی
‘کی صورت اِختیار کرلی تھی۔
یہ واقعہ جو آج لطیفے کی طرح سنایا جاتا ہے ،ہماری بات کی تصدیق کے لئے
کافی ہے کہ کسی مِنی بس جیسی گاڑی میں، مضافات میں کسی مشاعرے کے لئے شعرا
کو لے جایا جا رہا تھا، گاڑی کے ڈرائیور نے جب غیرمعمولی رفتار اختیار کی
تو کسی نے ٹوکا کہ بھئی اس میں شعرائےکرام بیٹھے ہوئے ہیں ذرا آہستہ لے
چلو کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے توڈرائیور کا جواب تھا:’’اماں کیا ہوگا اگر
حادثہ ہوگیا تو اور(شعراکو)بھر لاؤں گا وزیر ہوٹل سے۔‘‘۔۔۔۔۔۔
وزیر ہوٹل کی روداد میں عالم حیدری کے رُعب کے بھی کئی قصے ہم نے سن رکھے
تھے۔ اُن کا دبدبہ بیان ہوتا تھا، دِلّی سے تعلق رکھنے والے عالم ؔحیدری کی
بر جستگی اوراُن کی صفت ِ خاص کی، ایک دلیل یہ واقعہ بھی ہے۔ ممبئی میں
مجردزندگی گزارنے والے عالم حیدری کے شب وروزہوٹل ہی میں گزرتے تھے۔کسی شب
وہ کھانے میں مشغول تھے۔ایک نوجوان جو چرب زبانی میں طاق تھا ، ہوٹل میں
داخل ہوا۔
عالم حیدری سے جب آنکھیں چار ہوئیں توبزرگ عالم حیدری نےکہا:
۔۔۔’’میاں!آئیے روٹی کھائیے۔‘‘۔۔۔
نوجوان کی خصلت نے جلوہ دِکھلایا:۔۔۔’’حضرت!کھائیے کھائیے ،میں تو
روزکھاتاہوں۔‘‘۔۔۔
یہاں یہ وضاحت ہوجائےکہ دہلی اورمغربی یوپی میں عام طورپرلوگ
’’ آئیے !کھانا کھائیے‘‘ نہ کہتے ہوئے ’’آئیے! روٹی کھائیے‘‘
کہتے ہیں۔نوجوان کے اس کٹیلے اور دھار دار جواب پر عالمؔ حیدری تلملائے اور
جواباً سَوسنار کی ایک لوہار کی ہوئی۔جو یوں ہے :
''میاں!آج سالن کے ساتھ کھائیے۔"
پھر وہ نوجوان ہوٹل سے باہر کی راہ لیتا ہی نظرآیا۔ ممبئی کے مشہور مداحِ
شعر و شاعرنثار حسین خاں (گڈ لک بیکری۔ سیوڑی)نے ہمیں اُن کا یہ شعر
سنایاتھا:
جب تجربہ انساں کو سِکھا دیتی ہے عمر÷کیا رازِ مشیت ہے کہ مَر جاتا ہے
اور عالمؔ مرحوم کے اس شعر میں تو اُن کے طنطنے نے کس حُسن سے مثبت روپ
اختیار کر لیا ہے:
تہی ظرفوں کو آسکتے نہیں آدابِ میخانہ
کہ مینا سے کبھی بھی جھک کے پیمانے نہیں ملتے
عالم حیدر ی کے بعداس ہوٹل نے جو پُر رُعب منظر دیکھا، وہ علامہ عیب جٗوؔ
کا تھا ، اسی ہوٹل سے متعلق واقعہ ہے کہ ایک نوجوان شاعرسے علامہ عیب جوؔ
نےفرمایا کہ میاں صاحب زادے! سنا ہے کہ آپ بھی شعر کہتے ہیں ،کچھ سنائیں
تو۔ ۔۔!!
نوجوان نے کچھ شعر جب سنائے تو حضرت اُستاد نے بغیر کسی رعایت کہا کہ میاں
یہ تو ناموزوں ہیں۔ حضرتِ اُستاد : کچھ اور سناؤ، نوجوان نے کسی دوسری غزل
کے چند شعر سنائے تو پھر وہی کہ یہ بھی ناموزو ں ہیں۔ نوجوان بھی کم نہ تھا۔
دوسرے دِن وہ ماضی بعید کے شعرا کے کچھ شعر یاد کرکے آیا اور حضرتِ عیب
جوٗسے التماس کی:
حضرت! کچھ تازہ شعر ہیں اگر سمع خراشی نہ ہو تو سماعت کے شرف سے نوازیں۔
علامہ عیب جٗو نے فرمایا :۔۔۔ ضرور ضرور۔۔۔
نوجوان نے شعر سنائے اور پھر وہی جملہ اُس نوجوان کو سننا پڑا کہ۔۔۔
’ ناموزوں ہیں۔‘۔۔۔اب اُس نوجوان نےکوئی رعایت نہیں کی اور سارا حساب ایک
ساتھ چکا دِیا:
حضرت!آپکے پھندے میں مَیں نہیں آنے والا، کسی اور کو ناموزوں کے جال میں
پھانسئے اپنی اُستادی کا جال کسی اور پرڈالئے تو جناب کی فہرستِ شاگرداں
میں اضافہ ہوجائے گا، جو اشعار میں نے ابھی سنائے، میرے نہیں مولانا عروج
دہلوی کے تھے۔ اب آپ کیا فرمائیں گے۔ ؟۔۔۔
علامہ کا پیشہ ہی یہی تھا کہ وہ اس طرح نوجوانوں کو شاگردی کی طرف راغب
کرتے تھے اور طریقہ یہی استعمال کرتے تھے۔
ہم نے اسی شہر (ممبئی) میں شدید ہی نہیں ، سعید روحیں بھی دیکھی ہیں برادرِ
محترم محمد سعید انصاری مرحوم( نیوز ایڈیٹر روزنامہ انقلاب) کا بیان کردہ
ایک واقعہ ہے کہ سڑک پر دو قلمکار چل رہے تھے۔ ’ش‘ نے س‘ سے کہا :
ارے دیکھو ،گوبر میں گلاب پڑا ہے اور بالکل تازہ ، شاید کسی پری وَش کے
جٗوڑے سے گر گیا ہے ،افسوس گلاب ۔۔۔ اور۔۔۔ گوبر۔۔۔ میں!!
’س‘ نے’ ش‘ کی پوری بات جب سن لی تو مسکرایا اور گویا ہوا:۔۔۔
حضرت!آپ کی فطرت بھی خوب ہے ہمیشہ منفی منظر ہی آپ کو نظر آتا ہے آپ نے
گلاب تو گوبر میں دیکھ لیا اور فوراً اُس کی روداد بیان کرنے میں لگ گئے
جبکہ دوسرےہی لمحے ایک مکھی اُڑتی ہوئی آئی اور وہ گوبرپر نہیں، گلاب پرجا
بیٹھی۔ آپ نے وہ منظر نہیں دیکھا ۔حضرتِ والا!آپ سے تواچھی نظر اُس مکھی
کی تھی ۔ جس نےگوبرسے اِجتناب اور گلاب سے اِکتساب کیا ۔۔۔۔
ہائے افسوس آپ کی نظر اور گوبر۔۔۔!!
کسی بزرگ کا یہ قول بھی مذکورہوجائے کہ میاں! یہ دُنیا ایک دستر خوان ہے
دستر خوان،۔۔۔ قدرت نے اس میں حلال و حرام دونوں رکھ دِے ہیں مگر اُس نے
حلال و حرام کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔۔۔ اب آپ کی نگاہ ہے اور آپ کی
پسند۔۔۔کہ اپنی فطرت کے مطابق اس میں سے جو چاہیں اپنے لئے انتخاب کرلیں
مگر یاد رہے کہ علامہ عیب جوؔ آج بھی ہیں البتہ نام اُن کا بدل گیا ہے۔ |