ڈاکٹر انور سدید( محمد انوار الدین) نے ترک ِ رفاقت
کی ۔اردو ادب کا وہ نیر تاباں جو 4۔دسمبر 1928کو سرگودھا کی تحصیل بھلوال
کے قصبہ میانی مولوی امام الدین کے گھر سے طلوع ہوا وہ اپنی ضوفشانیوں سے
ادبی دنیا کو منور کے نے کے بعد 20۔مارچ2016کو اپنی جنم بھومی میں غروب ہو
گیا اور سرگودھا کے نواح میں اپنے آبائی گاؤں میں پیوندِ خا ک ہو گیا۔
ڈاکٹر انور سدید گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے اور علالت کے باعث اُ ن کے
گردے شدید متاثر تھے ۔انھیں تبدیلی ٔ آ ب و ہوا اور آرام کے لیے لاہور سے
سرگودھا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیامگر راستے ہی میں ان کی طبیعت بہت
زیادہ خراب ہو گئی۔شدید علالت اور طویل سفر کی صعوبت کے باعث ان پر غنودگی
طاری ہو گئی ۔اس کے چند روز بعد انھوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا ۔ان کی وفا
ت سے اردو ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو ہر عہد میں شدت سے محسوس کیا
جائے گا ۔ وہ عالمی ادبیات پر گہری نظر رکھنے والے ایک کثیر المطالعہ ادیب
تھے۔نئے ادبی مجلات اور نئی تصانیف پر ان کی گہری نظر رہتی اور ان کے
افادیت سے لبریز تجزیاتی مطالعے اردو زبان و ادب کے طالب علموں اور ادبیات
کے با ذوق قارئین میں بہت مقبول تھے ۔ عالمی ادب اورپاکستانی ادبیات کے اس
نباض اور یگانۂ روزگار تخلیق کار نے ادیانِ عالم ،ادبی تحقیق و
تنقید،اخبارات و جرائد کی ادارت،افسانہ نگاری،انشائیہ نگاری، تاریخ نویسی
،ترجمہ نگاری، تبصرہ نگاری ، ترتیب و تالیف ،خاکہ نگاری، سفرنامہ نگاری،
سوانح نگاری، شاعری،صحافت، فلسفہ ،کالم نگاری، لسانیات ،نفسیات اور تحلیل
نفسی اور یاد نگاری میں اپنی تخلیقی فعالیتوں اور ادبی کا مرانیوں کی دھاک
بٹھا دی ۔ ڈاکٹر انور سدید کے معاصر ادب کے بارے میں مفصل تجزیاتی مضامین
اور زُود نویسی کا ایک عالم معترف تھا ۔اگرچہ انھوں نے ہر صنف ِ ادب میں
طبع آزمائی کی مگر ادبی تنقید میں انھوں نے جس محنت ،لگن اور جانفشانی سے
کام کیا وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔اسی لیے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی
جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر انور سدید نے اردو تنقید کو اس قدر بلند آہنگ عطا کیا
کہ انھیں ارد و کا دبنگ نقاد سمجھا جاتا ہے ۔وہ بنیادی طور پر ایک تجزیاتی
نقاد تھے اور اس شعبے میں انھوں نے ناقابل تسخیر موضوعات پرجو وقیع کام کیا
اس میں کوئی ان کا شریک وسہیم نہیں۔ ڈاکٹر انور سدیدنے تحقیق و تنقید اور
تخلیقی ادب کی ا سّی (80)سے زائد کتب لکھ کر اردو ادب کی ثروت میں اضافہ
کیا ۔ ان کی وقیع تصانیف جن کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی ان میں اردو حج
نامے کی روایت ،محترم چہرے،اقبال کے کلاسیکی نقوش،اردو ادب کی تحریکیں،غالب
کے نئے خطوط ( خطوط غالب کی پیروڈی) ،ڈاکٹر وزیر آغا، 1975کی بہترین
نظمیں،اقبال شناسی اور ادبی دنیا ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ،اردو افسانے کی
کروٹیں ، اردو ادب کی تاریخ ، اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش ،پاکستان
میں ادبی رسائل کی تاریخ ،سفر نامہ اردو ادب میں ،انشائیہ اردو ادب میں ،
فکر و خیال ،سعید صورتیں ،مولانا صلا ح الدین احمد ،میر انیس کی اقلیم سخن
اور ہنوز دلی دُور نہیں شامل ہیں۔ سال 1994میں ڈاکٹر انور سدید کو پہلی
مرتبہ پاکستان سے باہر جانے کا موقع ملا ۔اس سفر کی یادداشت انھوں نے سفر
نامے کی صورت میں لکھی جو ابتدا میں ادبی مجلات میں مضامین کی صورت میں
شائع ہوئی اس کے بعد یہ مکمل سفر نامہ کتابی صورت میں شائع ہوا ۔ اس کتاب
میں مصنف نے دہلی شہر کی علمی ،ا دبی ،تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی تاریخ کے
بارے میں اپنے تمام تجربات، مشاہدات اور تاثرات زیب قرطاس کیے ہیں ۔ انور
سدید نے تخلیق ادب میں پہلا قدم سال 1942 میں رکھا جب ان کی پہلی کہانی
’چترا اور گُرو ‘ شائع ہوئی ۔اس کے بعد خوب سے خوب تر کی جانب ان کا سفر
جاری رہا ۔
گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا سے میٹرک کرنے کے بعد انور سدید نے گورنمنٹ کالج
آ ف انجنئیرنگ رسول( ضلع منڈی بہاؤالدین) میں داخلہ لیا اور سال 1948 سب ا
نجنئیرنگ میں طلائی تمغہ لیا۔سال 1966میں انھوں نے ڈھاکہ انسٹی ٹیوٹ آ ف
انجئنیر نگ میں داخلہ لیا اور AMIEکی ڈگری حاصل کی ۔ان کی ادبی کا مرانیوں
کا سلسلہ سال 1948میں شروع ہوا جب انھوں نے سرگودھا سے شائع ہونے والے
ممتاز ادبی مجلے ’’اُردو زبان ‘‘کی ادارت سنبھالی ۔انھوں نے سال 1966تک اس
رجحان ساز مجلے کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس مجلے کو ادبی
معیار اور وقار کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔اس کے بعد وہ
ڈاکٹر وزیر آغا کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’اوراق‘‘کی مجلسِ
ادارت میں شامل ہو گئے اور اقتضائے وقت کے مطابق قارئین میں مثبت سوچ اور
عصری آگہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ وہ پانچ سال (1988-1992)تک
اوراق کی مجلس ادارت میں شامل رہے۔ مجلہ اوراق کے ذریعے قارئین کے ذوق سلیم
کو مہمیز کرنے میں ان کا کردار بہت اہم رہا ۔اس کے بعدوہ پاکستان میں
قارئین کے مقبول مجلہ قومی ڈائجسٹ کے چھے سال (1990-1995) مدیررہے ۔ وہ سال
1995 میں روزنامہ خبریں کی مجلس ادارت میں شامل رہے۔ ڈاکٹر انور سدید
روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ آخری لمحات تک وابستہ رہے ۔ ڈاکٹر انور سدید کی
علمی ،ادبی اور قومی خدمات کوپوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ان
کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس پر ہر دِل سوگوار اور ہر آ نکھ اشک
بار ہے ۔اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام شروع ہونے والے ایک تحقیقی
منصوبے ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘کے تحت ممتاز ادیب پروفیسر سجاد نقوی نے
اپنی تحقیقی تصنیف ’’ڈاکٹر انور سدید شخصیت اور فن ‘‘ ( سال اشاعت 2010)میں
اس عظیم انسان اور با کمال تخلیق کار کی زندگی کے تمام پہلوؤ ں کا احاطہ
کیا ہے ۔
ڈاکٹر انور سدید شعبہ انجینئرنگ سے وابستہ رہے اور محکمہ زراعت ( پنجاب )
میں ایکزیکٹو انجئینر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ادبی زندگی میں وہ ممتاز
ادیب ڈاکٹر وزیر آغا کے زیادہ قریب تھے اور ان کی تحریک پر انھوں نے اردو
زبان و ادب میں اپنی تعلیمی استعدا دمیں اضافہ پر توجہ مرکوز کر دی۔انھوں
نے جامعہ پنجاب سے ریکارڈ نمبر حاصل کرکے ادیب فاضل کاامتحان پاس کیا یہ
ریکارڈ اب تک بر قرار ہے ۔ سال 1968میں وہ جامعہ پنجاب کے امتحان میں
ایم۔اے اُردو کے پرائیویٹ اُمیدوار کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس امتحان میں
پنجاب بھر کے ایم۔اے اردو کے پرائیویٹ طلبا میں اول آئے اور انھیں مولوی
عبدالحق طلائی تمغہ عطا کیا گیا ۔اس کے بعد انھوں نے جامعہ پنجاب سے ڈاکٹر
عبادت بریلوی کی نگرانی میں ’’اردو ادب کی تحریکیں ‘‘ کے موضوع پر تحقیقی
مقالہ لکھ کر اردو زبان میں پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اس مقالے کے
ممتحن ڈاکٹر سید عبداﷲ اور ڈاکٹر شمس الدین صدیقی تھے ۔ممتحنین کی منظوری
کے بعد ڈاکٹر وحید قریشی نے اس مقالے پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری عطا کرنے کی
منظوری دی ۔ حریت ِ فکر کا علم تھا م کر حریتِ ضمیر سے جینے کی روش اختیار
کرنے والے اس راسخ العقیدہ مسلمان،سچے عاشق رسولﷺ، جری تخلیق کار ،حاضر
جواب صحافی ،معاملہ فہم مدبر،محب وطن پاکستانی،ذہین محقق اور وسیع المطالعہ
نقاد نے دبستانِ سرگودھا سے جو پیمان و فا باندھا اسی کو علاج گردشِ لیل و
نہار سمجھااور اپنے ادبی موقف سے کبھی سرِ مُو انحراف نہ کیا۔ ڈاکٹر انور
سدید نے اردو شاعری میں بھی اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں ۔ان کی
شاعری میں رنگ ،خوشبوِ ،حسن و خوبی ،تجربات و مشاہدات اور جذبات و احساسات
کا دل نشیں آ ہنگ قاری کو مسحور کر دیتا ہے ۔
ڈھونڈ اپنا آ شانہ آسمانوں سے پرے
یہ زمیں تو ہو گئی نا مہرباں انور سدیدؔ
جب بھی گزرا ہوں اس شہر کی گلیوں سے سدید ؔ
آنکھ ہنستی ہے تو دِ ل آ بلہ پا ہوتا ہے
انور سدید ؔ یہ بھی ہے فطرت کا معجزہ
پھل پُھول لگ رہے ہیں جو سُو کھے درخت کو
ڈاکٹر انور سدید نے ایک بھرپور اور فعال زندگی گزاری ۔اﷲ کریم نے انھیں ایک
مضبوط اور مستحکم شخصیت سے نوازاتھا۔اپنی زندگی کے آخر ی ایام میں جب شدید
علالت کے باعث ان کے اعضا مضمحل ہو گئے تھے شدید علالت اور ضعف پیری کے
باوجود وہ تخلیق ِ ادب میں مصروف رہے ۔اپنی علالت کے دوران انھوں نے اپنے
جذبات و احساسات کو نہایت خلوص کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے :
ہیں سامنے جو آپ کے دو چار اِن دِنوں
یاروں کے بھیس میں ہیں یہ اغیار اِن دِنوں
کی اِس طرح ضعیفی نے یلغار اِن دِنوں
بے ربط ہوتی جاتی ہے گُفتاراِن دِنوں
احباب جِن کی دوستی پہ ناز تھا کبھی
تبدیل اُن کے ہو گئے اطواراِن دِنوں
ملاح کو ہے چاہ الیکشن میں جِیت کی
کشتی ہماری کیسے لگے پار اِن دِنوں
پِیرِ مغاں نے مے میں ہے پانی مِل ا دیا
آتا نظر نہیں کوئی سرشار اِن دِنوں
کیجیے نہ تبصرے کا تقاضا کتاب پر
انور سدید ؔ رہتا ہے بیمار اِن دِنوں
وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ،سچے عاشق رسول اور محب وطن پاکستانی تھے۔ان کی
شاعری میں اسلامی تعلیمات کا عکس جلوہ گر ہے ۔ افکار تازہ سے مزین ان کی
شاعری میں جذبات کی تمازت ،احساسات کی شدت اور تخیل کی جولانی قاری کو ایک
جہانِ تازہ کی نوید سناتی ہے ۔
اے خدا کربِ نا صبوری دے
درد بھی دے تو لا شعوری دے
ربِ کعبہ میری گزارش ہے
مجھ کو دیدارِ آ نحضوریﷺ دے
مجھ کو کچھ خواہشِ دوام نہیں
زندگی دے مگر ادھوری دے
یہ ہے انور سدید ؔ کی مرضی
اس کو منظوری ٔ ضروری دے
ڈاکٹرانور سدید نے بیس سال کی عمر میں پرورش لو ح و قلم کا سلسلہ شروع کیا
۔ ابتدائی دور میں انھوں نے مختصر افسانے پر توجہ دی ،ان کی تخلیقات مجلہ
’ہمایوں‘ اور’ نیرنگِ خیال ‘ کی زینت بنتی رہیں ۔ اردو زبان و ادب کے فروغ
کے لیے انور سدید کی چھے عشروں پر محیط خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
سرگودھا سے شائع ہونے والے ممتاز ادبی مجلہ ’ اردو زبان ‘کی پیہم اٹھارہ
برس( 1948-1966) تک ادارت کے فرائض انجام دیئے اور اس رجحان ساز ادبی مجلہ
کو معیار اور وقار کی رفعت سے آ شنا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اُنھوں
نے انھوں نے اپنی ستر ( 70)وقیع تصانیف سے اردد ادب کی ثروت میں اضافہ کیا
۔ 4۔دسمبر 1988کوسرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے ادب اور صحافت
کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ان کی طویل ادبی و صحافتی خدمات کے اعجاز سے
حریت فکر و عمل کے جذبات کو مہمیز کرنے میں مدد ملی۔انھوں نے جن اخبارات
،جرائد اور ادبی مجلات کے لیے لکھا ان میں الحمرا،امروز،اوراق (
1988-1992)، تخلیق ، جسارت ،حریت ، خبریں ،نوائے وقت،قومی ڈائجسٹ
(1990-1995)،قومی زبان اور مشرق شامل ہیں ۔ ڈاکٹر انور سدید کی صحافتی،
علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا :
۱۔ اقبال کے کلاسیکی نقوش : اس کتاب پر رائٹرز گلڈ ایوارڈ اور داؤد ادبی
انعام ملا۔
۲۔ اردو حج نامے : اس کتاب پر نقوش ایوارڈ ملا ۔
۳۔اردو ادب کی تحریکیں : اس کتاب پر سال 1989میں اکادمی ادبیات پاکستان کی
طرف سے ہجرہ ایوارڈ دیا گیا ۔
۴۔سال 1989میں ڈاکٹر انور سدید کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں انھیں
APNSایوارڈ سے نوازا گیا۔
۵۔سال 1995میں ڈاکٹر انور سدید کو بابائے اردو ایوراڈ دیا گیا ۔
۶۔ سال 2008 میں صدر پاکستان کی طرف سیتمغہ ٔ امتیازعطا کیا گیا ۔
انگریزی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے میں انور سدید نے گہری دلچسپی لی
۔ان کی ترجمہ نگاری میں ان کی انفرادیت قاری کو بہت متاثر کرتی ہے ۔مسئلہ
کشمیر پر گورنر جگ موہن کی کتاب کو انھوں نے نہایت محنت سے اردو کے قالب
میں ڈھالا ۔ان کی ترجمہ نگاری کی تفصیل درج ذیل ہے :
1.Stanley Wolpert:Zulfi Bhutto Of Pakistan,2.Tehmina Durrani: My Feudal
Lord ,3. Willie Collins: Moonstone
خاکہ نگاری میں انور سدید نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ مختلف شخصیات
کے خاکوں پر مشتمل اپنی کتاب ’ محترم چہرے ‘ میں انور سدید نے احسا ندانش
،امتیاز علی تاج اور مولانا صلاح الدین احمد کے یادگار خاکے لکھے ہیں۔ان کی
کتاب ’ قلم کے لوگ ‘ بھی ناقابل فراموش ہے ۔ اپنے والد کے خاکے ’’ مولوی
صاحب ‘‘ میں انھوں نے عقیدت ،محبت اور صداقت کا حسین امتزاج پیش کیاہے ۔
انھو ں نے سال 1991میں سالانہ ادبی جائزہ لکھنے کاسلسلہ شروع کیا۔کراچی سے
شائع ہونے والی ادبی مجلہ ’ صریر ‘ میں ہر سال یہ ادبی جائزہ بڑ ے اہتمام
سے شائع ہوتا تھا ۔اس ادبی جائزہ کو ادبی مقیاس کا درجہ حاصل تھا ۔سال بھر
کی ادبی سر گرمیوں اور نئی شائع ہونے والی کتابوں کے تعارف پر مشتمل یہ
سالانہ ادبی جائزے ذوق سلیم سے متمتع قارئین کے کیے جامِ جہاں نما ثابت
ہوئے ۔ڈاکٹر انور سدید کی رحلت کی خبر سن کر دلی صدمہ ہوا ۔ندا فاضلی نے سچ
کہا تھا:
اِک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا |