یقیناً سادگی ایمان سے ہی ہے

دنیا کا کون سا ملک ہے جو قرضوں کے بوجھ تلے دباہوانہیں ہے ،کیا امریکہ، چائنا ، جاپان یا جمہوریت کاعلم بردار بھارت؟کوئی بیرونی قرضوں میں جکڑا ہے تو کوئی اندرونی ، کوئی آئی ایم ایف سے ڈرا ہے تو کوئی مالیاتی بنکوں سے۔۔۔اقتدار پر برجمان سربراہان اسی ڈرو خوف میں حکومتی دورانیہ گزارتے ہیں او ر ملک کی باگ ڈور کسی اور کو سونپ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔الیکشن جیتنے کے لیے ان قرضوں کا کارڈ عوام کے سامنے پھینکا جاتاہے کئی تو کامیاب ہوجاتے ہیں اور کئی کارڈ کو اگلے الیکشن تک سنبھال لیتے ہیں کیوں کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ملکی قرض اتارنا اتنا آسان نہیں جتنا انتخابی سرگرمیوں میں عوام کے سامنے بیان کیاجاتاہے لہٰذا اس کارڈ کو اگلے الیکشن کے لیے وہ سنبھال کررکھ دیتے ہیں۔

ان میں کم ہی ہیں جو اقتدار میں آتے ہیں اس سعی میں جت جاتے ہیں کہ کسی طرح ملکی قرضوں کو ختم کیاجائے یا کم ازکم اس لعنت کو ملک و قوم کے لیے کسی حد تک کم کردیا جائے ۔ خیر شروع میں توسبھی اس کوشش میں ہوتے ہیں مگر جب ایک دوسال تک اس سعی کو لاحاصل پاتے ہیں تو جہاں ہے جیسا ہے کی منطق کواپناتے ہوئے اس مسئلہ کو ایک طرف کرکے دوسرے ملکی ، غیر ملکی اورسب سے بڑھ کر ذاتی معاملات میں کھپائی شروع کردیتے ہیں ۔یہ سعی لاحاصل جس کاذکر اوپر بیان کیاگیا ہے جس کاشکار اقتدار پرموجودافراد ہوتے ہیں اس کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں جن میں ملک میں قانون وانصاف کایکساں نہ ہونا، سیاسی استحقام کانہ ہونا، امن وامان، ٹیکسوں کابے ترتیب سانظام، کرپشن کاگرم بازار وغیرہ نمایاں عناصر ہیں اس سعی کو لاحاصل کرنے میں ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک عنصر جوکافی حد تک ملکی قرضوں میں کمی میں کسی نہ کسی حد تک اپنا حصہ ڈالتا ہے وہ سادگی ہے :سربراہان ملک کی طرف سے بھی اور عوام کی طرف سے بھی ۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ پاکستان کے ماضی کے سربراہان نے اپنے ذاتی اخراجات یاملکی وغیر ملکی دوروں پر ہونے والے اخراجات اپنی جیب سے دیے یا ملکی خزانے کو نچوڑا مگر یہ حقیقت ہے کہ سادگی نہیں اپنائی گئی لہٰذایہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ماضی کے سربراہا ن نے ملکی قرضوں سے اس مملکت کو اورعوام کونجات دلانے کے لیے کوشش نہیں کی۔ وقتی ہی سہی مگرسربراہ ملک کامالک ہوتاہے اس کے ایک چھوٹے سے عمل پر عوام متاثرہوتے ہیں جب کہ سادگی ایک ایسا عمل ہے جس کے نتائج نظر بھی آتے ہیں اور ملکی وعوامی فلاح و بہبود کے لیے سود مند بھی ہوتے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مملکت اسلامیہ کے سربراہ تھے مگرکیاہم اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماضی کے سربراہان کاکوئی ایسا عمل بتاسکتے ہیں جس سے لگتاہوکہ اس مملکت کے سربراہان نے سادگی کاعملی مظاہر ہ کیاہو؟کروڑوں کے باتھ روم ، کنالوں پر پھیلے محل ، ان میں سیکڑوں ملازمین، گاڑیوں کے انبار،دعوتوں پر پچاس سے اوپر کے انواع واقسام کے کھانے، غیر ملکی دوروں کے انبار ۔۔۔کہا ں کی سادگی ہے اورکون سا طریقہ استعمال کیاجارہا ہے ملکی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کا؟

حضرت عمر فاروق ؓ مملکت اسلامیہ کے سربراہ معلم ومربی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کامنظربیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں نے دیکھا کہ ایک کھجور کی چٹائی پڑی تھی ، ایک کونے میں تھوڑے سے جَو پڑے تھے،دیوار پرایک بکری کی کھال لٹک رہی تھی ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم پرکھجور کی چٹائی کے نشا ن موجود تھے اور جسم مبارک پرایک تہہ بند اورموٹی چادر تھی ‘‘(صحیح بخاری)

پوری کائنات اس سربراہ مملکت اسلامیہ کے لیے بنائی گئی تواس سربراہ کے لیے کس چیز کی کمی تھی مگرسادگی کواپنایا۔۔۔کیوں۔۔۔کیوں کہ سادگی کو اپنانے میں جوفوائد مملکت اور عوام کوہوتے ہیں وہ ڈھکے چھپے نہیں۔پھر تاریخ نے دیکھاکہ خلفاء راشدین نے بھی سادگی کے عمل کی ترویج اپنی ذات سے کی اور عوام کوفائدہ پہنچا۔تبھی آسمان نے وہ دور بھی دیکھا کہ زکوٰۃ دینے والے زکوٰۃ کے مستحق کو ڈھونڈتے رہے مگرانھیں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملا۔۔۔یہ سب سادگی کے آفٹرشاکس ہیں جو تاریخ میں ایک روشن با ب کی صورت محفوظ ہوجاتے ہیں ان کے لیے جو معاشی طور پر اپنا اور اپنے ملک وقوم کافائدہ چاہتے ہیں ۔

یہاں میں رواں ہفتہ اخبار میں شائع ہونے والی یونان کی اس خبر کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھوں گاکہ جس میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ یونان نے سادگی اپنا کربیرونی امداد سے چھٹکارہ پالیا ہے ۔ مجھے پتا ہے کہ میر ے احباب میں کچھ افراد ایسے ہیں کہ جو غیر مسلم ممالک کی مثالیں دینے پر ناک چڑھاتے ہیں اورایسا احتجاج کرتے ہیں کہ میری تمام دلیلیں ان کے سامنے رائیگاں جاتی ہیں۔۔۔خیر مثبت چیز میں بھی منفی نقاط نکالنا ہمارا شیوہ بن گیا ہے توکیاکسی سے بحث ومباحثہ کیاجائے ۔ خیر خبر یہ ہے کہ یونان سخت ترین معاشی بحران کا شکار تھا اور یہ بحران اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ بیرونی قرضے ملنا مشکل ہوگیا تھا ۔اس بحران پر قابو پانے کے لیے یونان نے اپنے سرکار ی اخراجات کو انتہائی کم کیاجس کودیکھتے ہوئے عوام نے بھی اپنے اخراجات کو کم کرکے سادگی اپنائی اور آج یونان نے نہ صرف معیشت میں بہتری پائی بلکہ بیرونی امدادی پیکجز سے بھی چھٹکارہ پالیا، یونان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا اورملک میں بیروزگاری کی سطح 20فی صد سے کم ہوگئی ہے ،یونان کی سرکار نے سادگی اپنانے پرعوام کاخصوصی شکریہ اداکیا ۔

یہاں اس چیز کااندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتاہے کہ سادگی کے فوائد حاصل کرنے کے لیے صر ف حکومتی اخراجات کوکم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ عوام کااس میں شانہ بہ شانہ تعاون اشد ضروری ہے خصوصاً عوام کاوہ طبقہ جومعاشی طورپرکافی مضبوط ہے جب کہ پِسا ہواطبقہ جو دووقت کی روٹی بھی بہ مشکل حاصل کرپاتا ہے وہ بہ ظاہر تو سادگی پرہی چل رہا ہے مگر اس طبقہ کی سادگی بھی کافی اہمیت کی حامل ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے لباس اور غمی وخوشی کی تقریبات میں بھی سادگی کواہمیت دینی چاہئے ۔یہ کہاں کی فہم وفراست ہے کہ خوشی کی تقریبات میں20 سے اوپر کھانے کی ڈشز ہوں اورپھران پراترایا جائے اور عوام میں عام وخاص انھی دعوتوں کواہمیت دیں جہاں بے جا کھانے پیش کیے جائے ۔یاد رہے کہ ایسی دعوتوں میں کھانے کا ضیاع ہوتا ہے کیوں کہ کھانا کھانے والے ایک ڈش کے ساتھ انصاف کرنہیں پاتے توان کی نظردوسری ڈش پر پڑجاتی ہے جس کی وجہ سے کھانا پلیٹوں میں پڑارہتاہے اورکھانے کا بے حد ضیاع ہوتا ہے جس کاگنہ ظاہری بات ہے مہمان کے ساتھ ساتھ میزبان بھی وصول کرتا ہے۔گوکہ دعوت ایک سنت عمل ہے اوررحمت کا باعث بھی ہے مگر ایسی دعوت کے جس میں سادگی کو بالائے طاق رکھ کر بے جا خرچ کیاجائے اور پھر کھانا ضائع بھی بہت ہوتو یہ دعوت رحمت بننے کے بجائے پوری امت کے لیے عذاب کاباعث بنتی ہے۔لہٰذافہم وفراست کواپناکر زندگی کے ہرشعبہ میں سادگی اور کفایت شعاری کواپنایاجائے ۔

18اگست کو حکمرانیت کے منصب پر فائز ہونے والے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں بھی عوام کو سادگی وکفایت شعاری اپنانے کامشورہ دیا ، اس مشورہ کی خاص بات یہ کہ موصوف نے خود سادگی وکفایت شعاری اپنانے کا تہیہ بھی کیا۔دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس عزم میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں مگر چوں کہ امید اچھی رکھنی چاہیے لہٰذاہمیں بھی اچھی امید ہے باقی رہا منفی سوچ تو وہ اس قوم کا شیوہ بن چکا ہے تبھی تو ہراچھے کام میں سے یہ قوم کیڑے نکال کر جہاں شکوک وشبہات پیداکرتی وہاں ہی معاشرے میں منفی سوچ کاپرچاربھی کرتی ہے ۔ الفاظ کو کاغذ کی زینت بناتے ہوئے اطلاع ملی کہ چند دنوں بعد ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس کے لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ان افراد کی لسٹ دی گئی جنھوں نے اجلاس کے لیے بیرون ملک جانا تھا ، یہ لسٹ40 افراد پر مشتمل تھی جس کودیکھ کروزیراعظم پاکستان نے پوچھا کہ40 افرادکیوں توان کوبتایا گیا کہ پہلے سربراہان مملکت60 سے80 افراد کوساتھ لے کرجاتے تھے مگر آپ کی کفایت شعاری کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے40فراد کو اس دورے کے لیے منتخب کیاگیا ۔جب ان چالیس افراد کاپوچھاگیا کہ ان کاوہاں کیاکام ہے تو مناسب جواب نہ ملنے پروزیراعظم عمران خان نے وہ لسٹ پھاڑ دی اور صرف4افراد کا نا م تجویز کیاجو اس دورہ میں ملک سے باہر جائیں گے ۔۔۔یہ اطلاع تبھی اچھی ہوگی جب ایسا ہواورنہ ہماری قسمت ۔

الغرض سادگی جہاں ملک وقوم کے لیے معاشی طور پرانقلاب کاباعث ہے وہاں ہی سادگی مایوسی سے چھٹکارہ پانے کابھی ذریعہ ہے تبھی تو رسالت مآب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ سادگی ایمان سے ہے ۔حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے دنیا کاذکر کیاتو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیاتم سنتے نہیں ، کیاتم سنتے نہیں ، یقیناً سادگی ایما ن سے ہے ، یقیناً سادگی ایمان سے ہے ‘‘(ابوداؤد)
 

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86048 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.