مجھے کسی پارلیمنٹیرین نے کہا تھا کہ پاکستان کا آئین
دنیا کا دوسرامضبوط ترین آئین ہے اور اگر اس پر ہوبہوعمل درامد ہو جائے تو
پاکستان کے تمام مسائل بہت جلد حل ہوجائیں گے اس پر جب میں نے ریسرچ کی تو
پتا لگاکہ یہ بات تو واقعی سوفیصد سچ ہے کہ پاکستان کا آئین اپنے شہری کو
حد سے بڑھ کر حق دیتا ہے اب میں سارے حقوق گنوانے لگ جاؤں تو بات آگے نکل
جائے گی لہذٰمیں غربت کے خاتمہ کے متعلق کچھ دستورِپاکستان کے آرٹیکل آپکے
سامنے رکھتا ہوں اور تجویز کروں گا کہ اگر ہر شہری ایسا کرے تو پاکستان سے
غربت کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔
جوکہتے ہیں پاکستان میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہی دے سکتے انکے لیے اسلامی
جمہوریہ پاکستان کا دستور ـ:آرٹیکل[25a]. یہ کہتا ہے کہ ریاست پانچ سے
سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقہ کارپرجیساکہ قانون کے
ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔آرٹیکل37b]:کم سے کم
ممکنہ مدت میں کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور کازمی ثانوی
تعلیم مہیا کرے گی۔
لہذٰ اب جو یہ کہتا ہے ہم اپنے بچے کو پڑھا نہی سکتے لیکن ووٹ دے سکتے ہیں
تو جسکو ووٹ دیا ہے اسکے پاس جائیں ان آرٹیکلز کا حوالہ دیں اور کہیں ہمارا
حق ہمیں مہیّا کرے،
اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہم اس قدر غریب ہیں کہ ہمارے لیے دولت کے وسائل نہیں
ہیں اور دولت صرف چند حضرات کے ہاتھ میں آگئی ہے ان کے لیے مملکت کا یہ حق
ہے جو کہ آرٹیکل 38a} { میں صاف صاف لکھ دیا گیا ہے، ــــعام آدمی کے معیار
زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائل پیداواروتقسیم کو چند ہاتھوں میں اس طرح
جمع ہونے سے روک کر اس سے مفادِعامہ کو نقصان پہنچے اور آجر وماجور اور
زمیندار اور مزراع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ
جنس،ذات،مذہب یا نسل ،عوام کی فلاح وبہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔
یعنی اس آرٹیکل کے مطابق اگر آپ یہ محسوس کریں کہ پاکستان میں دولت صرف چند
ہاتھوں میں محصورہو کر رہ گئی ہے تو یہ آئین آپکو آواز اٹھانے کا پورا پورا
حق دیتا ہے چاہے آپ عورت ہیں یا مرد ،جٹ ہیں یا سید،مسلم ہیں یا غیرمسلم اس
سے کوئی سروکار نہیں اس آرٹیکل کی رو سے آپ اپنا حق انسے جا کر مانگ سکتے
ہیں جنہیں آپنے ووٹ دے کر منتخب کیا۔
اب اگر پاکستان میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو اپنی روزی خود کمانے سے قاصر
ہے یا بے روزگار ہے تو مملکت کا حق ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل {38d} کے
تحت جو یہ کہتاہے ، ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری ،بیماری یا بیروزگاری
کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلا لحاظ جنس،
ذات،مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریات زندگی مثلاً خوراک ،لباس،رہائش،تعلیم اور
طبی امداد مہیاکرے گی۔
اب پاکستان کی ریاست کے دستور میں یہ چیز شامل ہے کہ اگر کوئی کمانے سے
قاصر ہے بے روزگار ہے یا بیمار ہے تو مملکت اسے اسکی جنس ،ذات،مذہب یا نسل
دیکھے بغیر اسے اسکی خوراک ،لباس،رہائش،تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی
لہذٰ آئین پاکستان تو اپنے شہری کو اس قدر حق دیتا ہے اب مسئلہ صرف اتنا ہے
کہ یا تو ہمیں اپنے حق کا پتہ نہیں ہے یا پھر اپنا حق لینا نہیں آتا ،مملکت
نے یہ ٹھیکہ اٹھایا ہے غریب آدمی کو ہر بنیادی ضرورت فراہم کرنے کا اب
مملکت کی تعریف بھی میں کرتا چلوں آئین پاکستان کی رو سے تو شاید سمجھنے
میں زیادہ آسانی ہوگی کہ اپنا حق مانگنے کے لیے کس کے پاس جانا چاہیے؟
آرٹیکل{7-} مملکت کی تعریف:اس حصہ میں تا وقتیکہ سیاق و سباق سے کچھ
اورمفہوم نہ نکلتا ہو، مملکت سے وفاقی حکومت [مجلس شوریٰ] پارلیمنٹ کوئی
صوبائی اسمبلی اور پاکستان میں ایسی مقامی ہیت ہائے مجاز مراد ہیں ،جنکو
ازروئے قانون کوئی محصول یا چونگی عائد کرنے کا اختیا ر حاصل ہو۔
یعنی آپ ان آرٹیکلز کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا حق اپنے حلقے کے نمائندہ
کسی قومی اسمبلی کے ممبر یا صوبائی اسمبلی کے ممبر یا پھر وہ لوگ جنکو فنڈز
جاری کیے جاتے ہیں یعنی چئیرمین وٖغیرہ انسے اپنے حق کی ڈیمانڈ کر سکتے ہیں
بلکہ کرنی چاہیے تاکہ جب یہ ووٹ لینے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو انکو یہ بات
بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بطورِ ممبر آف پارلیمنٹ یا ممبر آف صوبائی
اسمبلی انکے فرائض کیا کیا ہیں ۔
اس طرح ہمارے پاکستان کا آئین اپنے شہری کو حقوق فراہم کرنے کے لیے کسی قسم
کی ترمیم کا محتا ج ہرگز نہیں ہے بس اپنے آپ میں ہمت پیدا کی جیئے اور اپنے
حق کو حاصل کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کریں تا کہ ہر روز غربت کا رونا
رونے والے لوگوں کی نسلیں یہ رونا مت رو سکیں لہذٰ قدم بڑھائیں اپنے حق کے
لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے۔(ختم شد) |