عوام کے لیڈر

کرہ ارض خالقِ کائنات کی تخلیقات سے بھری پڑی ہے ‘خدا کی عظیم تخلیقات میں سب سے پراسرار اور پیچ در پیچ الجھی ہو ئی تخلیق انسان ہے ‘اِس کے ہزاروں زاوئیے ہیں اورہر زاویہ اپنے اندر سینکڑوں رنگ رکھتا ہے اِس کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ کسی ضرورت یا اپنی سہولت کے لیے وہ نہایت چالاکی سے بڑی مو ثر دلیلیں تراش لیتا ہے اپنی ہی باتوں سے پھر جانا بھی انسان کا خاصہ ہے پھر اپنی ہی باتوں پر عش عش کر اٹھتا ہے ‘انسان کے مختلف رنگوں اور دلیلوں کا اگر مشاہدہ کر نا ہو تو آپ کو چہ سیاست کو ملا حظہ کریں جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ حضرت انسان اپنا رنگ بدلتا نظر آتا ہے اِس کا تا زہ نمو نہ آپ مو جودہ الیکشن میں دیکھ سکتے ہیں ‘ ایماندار دیا نت دار با کردار امیدواروں کی جگہ کر پٹ نسل در نسل سیاستدانوں کو ٹکٹ دیتے ہوئے پا رٹی لیڈروں کا یہ کہنا کہ فرشتے کہاں سے لا ؤں‘ اِیسی لا جواب دلیل کے بعد بنی گالا کے پھا ٹک کھل گئے اور پھر لوٹوں کی ایسی دھکم پیل ہو ئی کہ خدا کی پناہ‘ ایم کیو ایم پر برسوں آگ کے گو لے بر سانے کے بعد آج کل جس طرح جھپیاں ڈالی جا رہی ہیں اور جمہوریت کے لیے ایم کیو ایم کے شاندار ماضی کے جو حوا لے دئیے جا رہے ہیں خدا کی پناہ‘ کسی کو پنجاب کا ڈاکو کہنا اور پھر مدح سرائی کے ریکارڈ تو ڑتے ہو ئے کہا کہ پنجاب میں حقیقی کا م تو صرف آپ کے دورِ حکومت میں ہی ہوا ہے ‘ آزاد امیدواروں کو ناسور قرار دینا انہیں اچھو ت قرار دینا ‘ سیاست کے ماتھے پر کلنک کا دھبہ قرار دینا اور پھر اُنہی آزاد امیدواروں کو خصوصی جہاز میں بھر بھر کے لانا اُن کے گلے میں ہار پہنانا انہیں جمہو ریت کے حقیقی وارث قرار دینا یہ تما شا بھی اہل وطن پھٹی نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ مخالف پارٹی کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر میں مر جاؤں یا اپو زیشن میں بیٹھ جا ؤں ‘ آج گھنٹوں اُن کی مدح سرائی کر نا بھی عجیب نظا رہ اہل وطن نے خوب دیکھا اقتدار کی غلام گر دشوں کے مزے لو ٹنے کے لیے پا رٹی لیڈر تو ہر دور میں رنگ بدلتے آئے ہیں میراثی بن کے ریکارڈ توڑتے آئے ہیں لیکن عوام بھی ایسے عظیم لیڈروں سے زیاد ہ پیچھے نہیں ہیں آپ کسی سے بھی پو چھ لیں سیاسی لوگ کیسے ہیں تو الزامات ، اعتراضات کے پہاڑ کھڑے کر دیں گے ‘ سیاسی لیڈروں کا حقیقی چہرہ دکھا نے کے لیے سوشل میڈیا اورالیکڑانک میڈیا نے بھر پو ر کر دار ادا کر نے کی کو شش کی ہے ‘ وطن عزیز کے بے شما قلم کاروں دانشوروں خطیبوں شاعروں کالم نگا روں نے اپنا اسلوب نثر اور زو ر بیان اِس حقیقت کو اجاگر کر نے پر لگا دیا کہ خدا کے بندو تم جن لیڈروں کو ووٹ دے کر اقتدار کی غلام گردشوں کے شاہسوار بنا تے ہو یہ وہی ما ضی کے مخصوص چہرے ہیں جو روپ اور پا رٹیاں بدل بدل کر تمہیں پھر بے وقوف بنانے آجا تے ہیں جنہیں تم مسیحا بنا تے ہو وہی کمین گاہوں میں تیر اندازی کر تے نظر آتے ہیں جنہیں تم مشعل راہ سمجھتے ہو وہی تمہار ے مقدر کی تاریکیوں کو اور سیاہ کر تے ہیں جنہیں تم زندہ باد کے نعروں سے اپنے سروں پر بٹھا تے ہو وہی تمہیں تاریک کنوؤں میں گراتے ہیں ‘جنہیں تم خوابوں کی سہا نی تعبیر سمجھتے ہو وہی تمہاری بربا دی کے ذمے دار ہیں ‘یہ سر فروش نہیں وطن فروش ہیں یہ ارباب سیاست نہیں ارباب تجارت ہیں ‘ یہ خدمت خلق کے مسا فر نہیں عوام کے اصل لٹیرے ہیں ‘ یہ محافظ نہیں ڈاکو ہیں ‘یہ وہ بھیڑیے ہیں جن کا عوام رکھوالی کے لیے انتخاب کرتی ہے ‘ اِن سیاستدانوں کو جتنا بھی آئینہ دکھا ئیں مجال ہے جو اِن کے ما تھوں پر عرق ندامت کا ایک قطرہ بھی نمو دار ہوا ہو‘ سیاست وہ خاردار وادی ہے جس میں دن رات حکمران اور اپو زیشن ایک دوسرے کھا ل اتا رتے میں مصروف نظر آتے ہیں ‘ حکمران اپوزیشن کاشجرہ نسب کھنگالتے نظر آتے ہیں اوراپوزیشن حکمرانوں کی سات پشتوں کا گند با ہر نکالتی ہے اِس طرح یہ دونوں ایک دوسرے کے سلطانی گواہ بنتے نظر آتے ہیں ‘ کو چہ سیاست اب کو چہ ملامت ہے ہر روز نیا جھگڑا ‘ الزامات ‘تہما ت کی با رش ‘ گالی گلو چ کی آبشار ‘ نفرت و غصے کے گو لے دن رات بر سائے جاتے ہیں یہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کے لیے انسانیت کی آخری حدوں سے بھی گزر جاتے ہیں یہ خو د کو فرشتوں سے افضل اور دوسروں کو شیطانوں سے بھی آگے قرار دیتے ہیں ‘ غرض اِن کے باہمی جھگڑے ایسے ہیں کہ خدا کی پنا ہ لیکن بھو لے عوام یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی سبق نہیں لیتے حکمران ایسے کہ وقت حالات بدل گئے دنیا مہذب اور ترقی یا فتہ دور میں داخل ہو گئی لیکن پاکستانی لیڈروں کے سر پر جو تک نہیں رینگی نہ تو حکمرانوں نے اپنے آپ میں سدھار پیدا کیا اورنہ ہی عوام نے بیداری کی انگڑائی لی ‘ سیاستدانوں کی با ہمی لڑائیاں ایسی کہ قبروں سے مر دے نکل پڑیں لیکن عوام کی جبیں بے نیاز کہ جہاں دھری تھی دھری رہی‘ پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیاستدانوں نے کر پشن لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کئے ہیں اِن سے کتابوں نے دامن بھرے اور شاعری کی بیا ضیں کل نظر آتی ہیں صحافی لوگوں نے اِن کے شجرے نسب زمین کی تہوں سے کھود نکالے ‘ وسیع و عریض رقبوں کے یہ ما لک کیسے کو چہ سیاست میں آئے ‘ اِن کی مدد کس گھناؤنے طریقے سے ہو ئی کس کے تلوے چاٹنے کے بعد یہ کو چہ اقتدارکے کیڑے بنے کس کے در پر سالوں مدح سرائی کا تحفہ انہیں کس طرح ملا یہ سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ کس طرح کرا ئے کے گھروں سے سینکڑوں کنال کے محلات میں منتقل ہو ئے ابھی وہ نسل زندہ ہے جس نے اِن کو اہل اقتدار کے چرنوں میں جو تے چاٹتے دیکھا ‘ گر دش زمانہ کے بعدآج یہ خود اُس مقام پر فائز ہو چکے ہیں دانشوروں اورمیڈیا نے کس کس کی عباء کو نہیں کھو لا ‘کس کے کپڑوں کو نہیں اتا را ‘ کو ن سا نقاب نہیں سرکایا ‘ کس کی دستار کے نشیب و فراز پر تبصرہ نہیں کیا مگر یہ لیڈرنہ بدلے اور نہ ہی عوام بدلے کیا عوام نہیں جانتے اِن وڈیروں کے ڈیروں پر عوام کو بو ل براز لینے پر مجبور کیا جا تا ہے ‘ زندہ انسانوں کو آگ کی چمنیوں میں زندہ جلا دیا جاتا ہے ‘ انسانوں کو جانوروں کی طرح باندھ کر رکھا جا تا ہے ‘ کیا بلو چ نہیں جانتے اُن کا وڈیرہ کتنی پاک باز لڑکیوں کی عزت تار تار کر چکا ہے ‘ سندھ کے ہا ری نہیں جا نتے اُن کی زمینوں پر کس کا قبضہ ہے ‘ پنجاب کے چوہدری کس طرح بنے ہیں کیایہ پنجابی نہیں جانتے ‘ پختون بھی خوب جانتے ہیں اُن کے لیڈروں کی رگوں میں دوڑتاہوا خون اُن کے جسموں سے نچوڑے خون کا فیض ہے لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی جس طرح لیڈروں نے قسم کھا رکھی ہے انہوں نے اپنی بد حرکات اور کر پشن سے باز نہیں آنا اِسی طرح عوام نے بھی ضد کر رکھی ہے کہ انہی کر پٹ لیڈروں کو ووٹ دے کر ایوانوں میں پہنچا کر اپنا خون نچوڑنے کا ایک بار پھر موقع دینا ہے ‘ نہ تو لیڈر بدلے اور نہ ہی عوام بدلے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.