ایچ آئی وی/ ایڈز

عائشہ طارق
ایڈز ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے۔ جس کا سائنس میں اتنی ترقی کے باوجود آج بھی علاج ممکن نہیں ہے۔ ہم بہت زیادہ ماڈرن بنتے ہیں مگر آج بھی اس بیماری کے بارے میں بات کرنے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دن بہ دن یہ بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ اور اس کے چلتے کتنے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس کے بارے میں بات کی جائے اور اس بیماری کو مزید تباہی مچانے سے روکا جائے۔

دنیا کے کئی علاقوں میں ایڈز کی وباء خطرناک حد تک پھیلتی جارہی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں کروڑوں افراد ایڈز کے باعث موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ 2008 میں 3 کروڑ 34 لاکھ یعنی 33.4 ملین افراد ایچ آئی وی ( HIV) میں مبتلا تھے۔ صرف اس ایک سال کے دوران ایڈز کے 20 لاکھ مریض ہلاک ہو گئے جبکہ 27 لاکھ نئے افراد اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ وزارت صحت حکومت پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان میں 96000 افراد ایڈز کا شکار ہے۔ اور ان میں سے 27000 ہزار خواتین ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد تین چار لاکھ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ ایچ آئی وی کی بڑھتی ہوئی تباہیوں کے باعث ہمارا اس کے بارے جاننا ضروری ہے۔ کہ آخر ایچ آئی وی کیا ہے؟

ایچ آئی وی آنگلش کے تین لفظ کا مجموعہ ہے۔ ایچ مطلب human ( انسان)، وی مطلب immune (قوت مدافعت)، اور وی مطلب virus (جراثیم)، یعنی یہ انسانی جسم کی قوت مدافعت سے متعلق وہ وائرس ہے جو قدرت کے بنائے ہوئے دفاعی نظام پر حملہ کرتا ہے اور اسے کمزور کرکے کسی بھی بیماری کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اس کی وجہ سے انسان بہت سی بیماریوں کا شکار باآسانی بن جاتا ہے۔ یہ وائرس جسم میں داخل ہوتے ہی اپنے اثرات نہیں دیکھتا بلکہ آہستہ آہستہ اپنا کام کرتا ہے اس کے اثرات ظاہر ہونے میں آٹھ سے دس سال بھی لگ جاتے ہیں۔ جب اس بیماری کے بارے میں پتا چلتا ہے تب تک انسانی جسم کا دفاعی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس حالت کو ایڈز کہتے ہیں۔

ایڈز علامات اور اثرات کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو ایچ آئی وی وا‎ئرس کے ذریعے سے پھیلتی ہے یہ وائرس ایک بار جسم میں داخل ہو جائے تو پھر ہمیشہ کے لیے جسم میں ہی رہتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ جسم میں اپنی تعداد اور تخریب کاری میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ نقصان خون کے سفید خلیات کو پہنچاتا ہے جن کا سائنسی نام T-خلیہ ہے، ان سفید خلیات کو CD4 خلیات بھی کہا جاتا ہے۔

جب یہ ایڈز وائرس، خون کے CD4 خلیات کو مستقل مارتا اور ختم کرتا رہے تو انسانی جسم میں انکی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اسی کی وجہ سے انسان میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ سفید خلیات کی CD4 قسم مدافعتی نظام میں بہت اہم کردار رکھتی ہے اور جب یہ وائرس کے باعث ختم ہوجاتے ہیں تو جسم کی مدافعت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ عام طور انسانی جسم میں انکی تعداد لگ بھگ ایک ہزار تک ہوتی ہے اور جب یہ HIV کی وجہ سے کم ہو کر 200 تک رہ جائے تو اس شخص کو ایڈز کا مریض تشخیص کر دیا جاتا ہے۔ اور ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اب اس کے پاس موت کا انتظار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔

جب یہ وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو فوراً خون کا ٹیسٹ کروانے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔ اور پاکستان میں اس کا جو ٹیسٹ کیا جاتا ہے وہ خون میں اس کی اینٹی باڈیز کی شناخت کے لیے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر جسم میں اینٹی باڈیز بارہ ہفتوں کے بعد بنتی ہیں، اگر اس دوران اس کا ٹیسٹ کیا جائے تو وہ اس میں ظاہر نہیں ہو گی اور اس ٹیسٹ کا نتیجہ نیگیٹیو آئے گا۔ لیکن اس عرصے کے دوران متاثرہ شخص یہ وائرس دوسرں میں منتقل کر سکتا ہے اور اس عرصے کو ونڈو پیریڈ کہا جاتا ہے۔

ایچ آئی وی وائرس انسانی جسم میں خود بخود پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کسی متاثرہ شخص سے دوسروں میں منتقل ہوتا ہے۔ وہ طریقے درج ذیل ہیں جن کی وجہ سے یہ منتقل ہوتا ہے۔
1:- آلودہ سرنج یا کان، ناک چھدوانے اور دانت نکلوانے کے لیے استعمال ہونے والے آلودہ اوزاروں کے استعمال سے پھیلتا ہے۔
2:- غیر محفوظ جنسی تعلقات سے۔
3:- متاثرہ شخص کا خون یا خون سے بنی اشیاء کسی اور شخص کے جسم میں منتقل کرنے سے یا متاثرہ شخص کے اعضاء کی منتقلی سے۔
4:- متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچوں کو حمل کے دوران، پیدائش کے وقت اور بعد میں ماں کا دودھ پینے سے منتقل ہوسکتا ہے۔
مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ متاثرہ شخص کے ساتھ بات کرنے سے بھی یہ وائرس پھیلا سکتا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ کیونکہ
1:- سماجی تعلقات مثلاً ہاتھ ملانے، گلے ملنے، ایک ساتھ کھانا کھانے یا ایک ہی کمرے میں رہنے سے یہ نہیں پھیلتا۔
2:- ایک ساتھ کھلنے کودنے اور اٹھنے بیٹھنے سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔
3:- مریض کی تیمارداری کرنے سے، اس کے کپڑے اور برتن دھونے سے یا ان کے استعمال سے منتقل نہیں ہوتا ہے۔
4:- ہوا کے ذریعے سے، کھانسنے اور چھینکنے وغیرہ سے یا پسینہ اور آنسو لگ جانے سے منتقل نہیں ہوتا ہے۔
اس لیے ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا کہ یہ چھوت چھات کی بیماری ہے جو ہاتھ لگاتے ہی پھیل جائے گی۔
ایڈز کی علامات درجہ ذیل ہیں۔
1:- نزلہ زکام یا کھانسی وغیرہ کا مسلسل رہنا اور عام دوائیوں کے استعمال کے باوجود ٹھیک نہ ہونا۔
2:- مسلسل کئی مہینہ تک بخار کا رہنا اور دوائیوں سے ٹھیک نہ ہونا یا مسلسل دست کا آنا۔
3:- وزن میں تیزی سے کمی آنا۔
4:- اعصابی کمزوری کا احساس ہونا یا نیند میں کمی ہو جانا۔
5:- رات کو سوتے وقت پسینہ کا زیادہ اخراج ہونا۔
6:- جسم پر بڑے بڑے سرخ دھبے نکل آنا یا ناک، کان، گلے میں سرخ یا سرخی مائل دانوں کا نکلنا۔
7:- جسم کے مختلف غدودوں کا بڑھ جانا۔

اگر کسی شخص کو ان میں کوئی بھی علامات ظاہر ہو تو خوف وہراس میں مبتلا ہونے کی بجائے سب سے پہلے اپنے خون کا ٹیسٹ کروائیں اور اس سلسلے میں گورنمنٹ کے کسی بھی قائم کردہ مرکز سے براہ راست رابطہ کریں۔ ٹیسٹ کے نتائج اور ڈاکٹرز کی مشاورت سے آئیندہ کا لائحہ عمل تیار کریں۔ اگرچہ اس کا کوئی مکمل علاج موجود نہیں ہے۔ مگر ایسی ادویات دستیاب ہیں جن سے اس وائرس کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

ایڈز میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر نوجوان ہوتے ہے جن کی عمر 15 سے 25 کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل کو ان باتوں کے بارے میں شعور ہی نہیں دیا جاتا۔ اور ایک کی وجہ سے دوسرا بھی موڈی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک بات یاد رکھے یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ہر ایڈز کا مریض بدکردار ہو۔ کچھ لوگ انجانے میں بھی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس مرض کے مریض کو جج کرنے یا ان کو سزا سنانے کی بجائے۔ ان کا خیال رکھیں۔ تاکہ ان کی باقی کی زندگی آسانی سے گزر جائے۔ اس بیماری سے بچنے کے لیے چند باتوں کا خیال رکھیں۔
1:- اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے غیر ازدواجی جنسی بے راہ روی سے دور رہنے سے انسان اس موڈی مرض سے بچ سکتا ہے۔
2:- قربت کے تعلقات میں احتیاط سے اور جنسی تعلقات کو محفوظ بنا کر۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک اس سے متاثر ہو تو اس صورت میں یہ بہت زیادہ ضروری ہے۔
3:- ٹیکہ لگوانے کے لیے ہمیشہ نئی سرنج اور ناک، کان چھدوانے اور دانت نکلوانے کے لیے صاف اوزاروں کے استعمال سے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
4:- نشہ بازوں کی صحبت اور ان کے زیر استعمال اشیاء خاص طور پر نشہ لینے والی سرنجوں سے دور رہا جائے۔
5:- ضرورت کے وقت ایچ آئی وی سے پاک خون کا انتقال کروانے سے آپ اس موڈی مرض سے بچ سکتے ہیں۔

اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ہمیں احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

یاد رکھنے! "زندگی" اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ جتنی بڑی یہ نعمت ہے اس کی حفاظت کا تقاضا بھی اس قدر زیادہ ہے، اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی صحت کی حفاظت کرے۔ جلوت و خلوت ہر موقعہ پر بطور مسلمان ہم عفت، پاک دامنی اور پاکیزگی و طہارت کو اصل روح کے مطابق اپنا کر ہم اپنے آپ کو، اپنے خاندان کو، اپنے معاشرے کو اور قوم کو اس لاعلاج موذی اور جان لیوا مرض اور اس کے بتاہ کن اثرات سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ یوں ہم اللہ تعالیٰ کی امانت زندگی کی پاسداری کا حق ادا کرسکیں گے اور اپنے پیچھے ایک صحت مند اور پاکیزہ معاشرہ چھوڑ سکیں گے۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.