آپریشن کے ذریعے بچّے کی پیدائش کیوں ؟

 یوں تو سوشل میڈیا ( فیس بک) پر نظر آنے والے پوسٹ پڑھ کر عموما ذہن میں مِلا جلا رّدِ عمل ابھرتا ہے مگر کبھی کبھار ایسا نشتر بھرا پوسٹ بھی ہوتا ہے کہ قلم خود بخود صفحہ قرطاس پر مچلنے کو بیقرار ہو جاتا ہے۔اسی طرح کا ایک چشم کشا پوسٹ لقمان بھائی کے آئی ڈی پر پڑھنے کو مِلا ۔ جس میں یورپ اور پاکستان میں بچے کی پیدائش یعنی ڈیلیوری کے طریقۂ کار میں فرق واضح کیا گیا تھا اگر چہ یہ تحریر ہمارے ایک کالم نگار دوست طیبہ ضیاء چیمہ ،جو نیویارک میں ہوتی ہیں، کے تحریر سے اخذ کیا گیا تھا مگر پاکستانی عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے اشاعتِ عام کیا جائے،بوجوہ اس کا کچھ حصہ کالم ہذا میں شام کیا جا رہا ہے۔

قارئین کی اکثریت اس بات سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ وطنِ عزیز میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس کا وجوہات کا پتہ بچے کو جننے والی ماں جانتی ہیں نہ اس کے عزیز رشتہ دار جانتے ہیں۔مگر عموما گائنا کالوجسٹ ڈاکٹرز آپریشن تجویز کر دیتے ہیں۔اس سلسلے میں کچھ سینئرز گاینا کا لوجسٹ کی رائے لی گئی تو انہوں نے بتایا کہ آپریشن میں اضافے کی ایک بڑی وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔نارمل ڈیلیوری کے دس بارہ ہزار جبکہ آپریشن کے چالیس پچاس ہزار روپے مِل جاتے ہیں۔ایک وجہ بعض دفعہ جونئیرز ڈاکٹرز کو سکھانا بھی مقصود ہوتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15فی صد سے زیادہ نہیں ہو نا چاہئیے مگر پاکستان میں یہ تناسب کئی گنا زیادہ ہے۔ترقی یا فتہ ممالک میں 99فی صد ڈیلیوری نارمل طریقے سی کی جاتی ہے وہاں ڈیلیوری سے پہلے دوا دی جاتی ہے نہ ڈیلیوری کے بعد دوا دی جاتی ہے۔کسی قسم کا ٹھیکہ بھی نہیں لگایا جاتا۔ بچہ جنتے وقت ماں یقینا بہت زیادہ تکلیف دہ مراحل سے گزرتی ہے،جب وہ درد سے کراہ رہی ہو تی ہے،فریاد کر رہی ہوتی ہے تو نرس اسے صبر کرنے کی تلقین کرتی ہے ڈیلیوری کے وقت اس کا خاوندپاس کھڑے ہو کر عورت کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہوتا ہے تاکہ اس کو حوصلہ برقرار رہے۔ بچے کو صرف ماں کا دودھ پلانے کو کہا جاتا ہے۔زچہ یا بچہ دونوں کو کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی، سوائے ایک پیدائشی ٹیکہ کے، جو بچے کو پیدائش کے فورا بعد لگایا جاتا ہے۔پہلے دن سے لے کر پیدائش تک سب کچھ فری ہوتا ہے۔مگر افسوس صد افسوس، کہ پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے، لیڈی ڈاکٹرز کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلیوری کو آپریشن والی ڈیلیوری میں تبدیل کیا جائے۔خاتون کے گھر والوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ کیس کافی خراب ہے، آپریشن کرنا پڑیگا،گھر والے بیچارے’’ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘ کے مصداق آپریشن کے لئے راضی ہو کر زچہ بچہ کی صحت یابی کے دعا مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ڈیلیوری سے پہلے متعدد دوائیں منگوا لی جاتی ہیں۔ پھر خاتوں کو اندر کمرے میں لے جایا جاتا ہے۔جہاں خاوند تو درکنار خاتون کے ماں بہن کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہو تی۔اپریشن کے بعد مبارکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور پیسہ بٹورنے کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

یہ صورتِ حال صرف سرکاری ہسپتالوں کا ہی نہیں بلکہ قدم قدم پر قائم پرئیویٹ ہسپتال اور میٹرنٹی ہومز بچہ پیدا کرنے کے لئے اپریشن تجویز کرتے ہیں۔حالانکہ ڈاکٹروں کے مطابق بچے کی پیدائش اپریشن کے ذریعے صرف اس صورت میں ہونی چاہئیے جب ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لا حق ہو۔کیونکہ جب بچے کی پیدائش کے لئے ماں کا پیٹ کا ٹا جاتا ہے تو اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے،زخم جلدی نہیں بھرتا، کبھی خون نہیں رکتا ، کبھی پیٹ بڑھ جاتا ہے اور کبھی پیٹ میں مستقل درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔پہلی اولاد اپریشن ہونے کے باعث امکان بڑھ جاتا ہے کہ ہر بار اپریشن ہی کرنا پڑے گا۔جس سے ان کی صحت پر نہایت نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ سی سیکشن کے عمل سے بچے اور ماں کی صحت کو تین گنا زیادہ رسک ہو تا ہے۔

اب جبکہ عمران خان کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور بقول ان کے نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے ،صحت اور تعلیم ان کے منشور کے مطابق ترجیحات میں شامل ہے،بناء برایں پی ٹی آئی کی حکومت سے گزارش کی جاتی ہے کہ پورے ملک میں محکمہ صحت میٹرنٹی کے حوالے سے ایسے ضوابط بنائے، جس میں بِلا اشدضرورت آپریشن کرنے والوں یا سی سیکشن کی ترغیب دینے والے ہسپتالوں،کلینیکس اور ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کی جا سکے۔ہم امید رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت معاشرے میں موجود اس مسئلے کے سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس کو جلد از جلدحل کرنے کے لئے مناسب اقدام اٹھانے میں پہل کرنے سے گریز نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284301 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More