نیا کچھ نہیں

نیا کیا ہے؟
کراچی میں شرجیل میمن اور چیف جسٹس کی ملاقات کا جو احوال سامنے آیا ہے اس میں نیا کچھ نہیں ۔جہاں اقربا پروری عام بات ہو۔ڈیرے داریاں چل رہی ہوں۔وہاں ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملتاہے۔بڑے بڑے ڈیروں میں کیا کچھ ہوتاہے آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔میں بھی اور ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی ۔ایسے ڈیرے چلا نا آسان نہیں۔درجنوں لوگوں کا قیام وطعام آسان کام نہیں اس کے لیے لاکھوں کے اخراجات چاہییں۔بڑی بڑی سیاسی جماعتیں ۔گروہ ۔اور ڈیرے۔ان سب کے خرچے شرجیل میمن جیسے لوگ ہی چلاتے ہیں اگر پکڑے جانے کے بعد ان کے آرام وسکون کا خیال نہ رکھا جائے تو ڈیرے نہ بند ہوجائیں گے۔جناب زرداری کو طیش تو بہت ہے ۔مگر بری طرح پھنسے ہونے کے سبب محض اتنا ہی کہہ پائے کہ چیف جسٹس کے ہسپتالوں کے دورے پر کیا کہوں۔شرجیل میمن کے خیر خواہ اب شہد اور زیتون کی کہانیاں بیان کررہے ہیں۔حالانکہ چیف جسٹس کے استفسار پر شرجیل نے ان بوتلوں سے لاتعلقی کا اظہا رکیا تھا۔مطلب یہ کہ ان بوتلوں میں شہد اور زیتون جیسا کچھ ہوتا تو میمن صاحب ملکیت کے انکاری نہ ہوتے۔اس سارے جھنجٹ کا عارضی نقصان یہ ہواکہ میمن صاحب کو دوبارہ جیل منتقل ہونا پڑا۔چیف جسٹس نے کہہ دیا کہ ان کی صحت ٹھیک ہے۔انہیں جیل بھجوایا جائے۔

تحریک انصاف نیا کچھ کرنے کا عز م رکھتی ہے۔ملک کا جو حشر پچھلے ستر سالوں سے ہورہا ہے اس سے عمران خاں مطمئن نہیں ۔چیف جستس ثاقب نثار بھی تبدیلی کے اس سفر میں عمران خاں کے ہم خیال ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار کا سب سے بڑا خواب پورا ہوچکا۔وہ ملک میں پہلی بار صاف وشفاف الیکشن کروانے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔انہیں نوازشریف کے مخالفین کی جانب سے خواب پورا کرنے کا بھرپور موقع ملا۔الیکشن ہوچکے مگر چیف جسٹس کی بھاگ دوڑکا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان الیکشن کے بعد حالات میں جیسا بدلاؤ وہ چاہتے تھے۔ایسا کچھ ہو نہیں پایا۔اب بھی جیلوں کے مجرم بیماری کے بہانوں سے لگژری کمروں میں مزے کررہے ہیں۔انہیں گھر کا سارا ماحول میسر ہے۔ایئرکنڈیشنڈ کمرے ۔ملازم ۔بازاری کھانا۔اور سب سے بڑھ کر مکمل فرصت ۔کوئی دھندہ نہیں کوئی پریشانی نہیں۔گھر کے معاملات بھی چل رہے ہیں۔او ر کاروبار بھی جاری ہے۔صاف اور شفاف الیکشن کے بعد بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔وزیراعظم عمرا خاں بھی الیکشن کے فور ی بعد جو سب کچھ بدل جانے کا سوچے بیٹھے تھے۔انہیں بھی مایوسی ہورہی ہے۔وہ کچھ کہہ رہے ہیں۔وزراء کچھ کررہے ہیں۔اور مشیران کچھ دعوے کررہے ہیں عمران خاں کو گلہ ہے کہ میڈیا پیچھے پڑا ہوا ہے۔اسے کم از کم تین ماہ تک کا صبر کرنا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ میڈیا آخر کیا کرے۔اگر کوئی وزیر کسی اعلی سطحی سرکاری افیسرز سے بدتمیزی کرے گا۔تو میڈیا کیوں کر چپ رہے گا؟اگر کسی وزیر اعلی کے دفتر سے کسی ڈی پی او کوکسی کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے کی بات کی جائے گی۔تو میڈیا کس طرح آنکھیں بند رکھ پائے گا۔

وزیراعظم اور چیف جسٹس نیا کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔دونوں کو میدان بنا کردے دیا گیاہے۔مگر دونوں مطمئن نہیں۔دونوں کے لیے یہاں کی پولیس ۔یہاں کے ہسپتال اور یہاں کے دیگر شعبے جوں کے توں ہیں۔گذارش ہے کہ دونوں مہربان جس طرح کے نتائج چاہتے ہیں۔ا ن کے حصو ل کے لیے جو پگڈنڈی بنائی گئی ہے۔آپ اسے فالو کرنے پر تو آمادہ نہیں۔آپ دونوں چھومنتر والا ذہن رکھتے ہیں۔سوچا تھا کہ نئے الیکشن ہوئے۔تو سب کے سب مسئلے حل ہوجائیں گے۔کیاچیف جسٹس کے سو کالڈ صاف اور شفاف الیکشن ایسے لوگ آگے لانے کا سبب بن سکے جو واقعی تبدیلی لانے کا عزم رکھتے ہوں؟ کیا ان الیکشن سے ایسے تمام لوگ باہر ہوئے جو ملک میں نالائقی اور بدنظمی میں حصے دارہیں؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ وہ سارے لوگ جو بگاڑ کا سبب ہیں۔کسی نہ کسی شکل اور نام سے دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بن چکے۔تبدیلی بالکل نہیں آئی ۔دوجے عمران خاں کو میڈیا کی تنقید کا گلہ ہے۔کیا انہوں نے اتمام حجت کرلیا۔ معاملات میں سدھار کے لیے کیا وہ کوئی مناسب ٹیم ترتیب دے پائے۔ان کے وزراء کے قصے کہانیاں تو آنا شروعی ہوگئیں۔ان کے قائم کردہ مختلف محکموں اور اداروں کے سیکرٹریز بھی کچھ خاص اہمیت کے حامل نہیں۔اکثریتی لوگ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ ایک طویل عرصہ سے کام کرتے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر شہباز شریف کے چنیدہ لوگ ہی آگے آنے تھے تو نیا کیا ہوا۔یہ سب کچھ تو پہلے بھی چل رہا تھا۔اتنا لمبا چوڑ اشور شرابہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اگر یہ لوگ بڑے ہی ایماندار اور قابل ہیں۔تو پھر بے چارے شہبازشریف کو کیوں بدنام کیا جارہاہے ؟ کچھ نیا نہیں ہوا۔بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ چیف جسٹس کے ہسپتالوں کے دور ے ر ک نہ پائیں گے۔وہ جن الیکشن کو صاف اور شفاف الیکشن قرار دے رہے ہیں۔اس کا لب لباب صرف اور صرف نوازشریف گینگ کو آؤٹ کرنا نکلا ہے۔باقی سب جوں کا توں ہے۔پرانے لوگ کسی نئی جماعت اور نئے نشان سے انہیں حکومتی ایوانوں میں آچکے۔عمران خان بھی انہیں لوگوں میں چن چن کر اپنے وزیر مشیر لگارہے ہیں۔عمران خاں جس قسم کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔اس کے لیے بہت کچھ نیا کرنے کی ضروت ہے۔موجودہ پارلیمینٹ او رحکومت میں کچھ بھی نیا نظر نہیں آرہا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 122593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.