ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ہیدرنورٹ نے کہا امریکامائیک
پومپیواوروزیراعظم عمران خان کی بات چیت سے متعلق اپنے موقف پرقائم
ہے۔ترجمان نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیونے وزیراعظم عمران خان
سے تمام دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی فیصلہ کن کارروائی پربات کی۔وہ کہتا
ہے کہ دونوں راہنماؤں کے درمیان اچھی بات چیت ہوئی۔ہم امیدکرتے ہیں پاکستان
کی نئی سول حکومت کے ساتھ امریکاکے موثراورکارآمدتعلقات قائم ہوں گے۔امریکی
وزیرخارجہ نے چندروزقبل آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے ممکنہ بیل
آؤٹ پیکج کی شدیدمخالفت کی تھی تاہم اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر
ہیدرنورٹ نے کہا کہ امریکاکے موقف میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن
مستقبل کے بارے میں ہم کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے۔امریکاکاکہناتھا کہ افغان
امن عمل کوبڑھاوادینے میں پاکستان کاکرداراہم ہے ۔امریکاکے اس موقف
وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کاموقف بعد میں لکھیں گے پہلے یہ پڑھ لیں کہ
امریکاپاکستان پردباؤڈالنے کے لیے اورکیاکچھ کہہ رہا ہے۔امریکانے کہا ہے کہ
پاکستان سے سیکیورٹی تعاون کی معطلی کااعلان جنوری سال دوہزاراٹھارہ میں
کیاتھا۔اس میں کولیشن سپورٹ فنڈبھی شامل ہے۔سیکیورٹی تعاون کی منسوخی میں
کولیشن سپورٹ فنڈبھی شامل ہے۔فنڈکی منسوخی کی حالیہ خبروں سے کولیشن سپورٹ
فنڈکی تفصیلات کومسخ کیاگیا۔پاکستان پرحقانی گروپ سمیت تمام دہشت گردوں کے
خلاف بلاامتیازکارروائی، طالبان قیادت کومذاکرات کی میزپرلانے یا گرفتار
کرکے بے دخلی کے لیے پاکستان پردباؤڈالتے رہیں گے۔ترجمان پینٹاگون کی جانب
سے جاری بیان میں کہاگیا تیس کروڑڈالرامدادمنسوخی سے متعلق اعلان نیا فیصلہ
یانیااعلان نہیں ۔یہ اعلان فنڈزکی ازسرنوترتیب کے لیے مدت ایکسپائرہونے سے
پہلے جولائی کی درخواست کی توثیق ہے۔ترجمان نے کہا کہ کولیشن سپورٹ فنڈکی
معطلی کی صورت حال برقرارہے۔ترجمان نے کہا کہ امریکاجنوری سے پاکستانی فوجی
حکام سے اعلیٰ ترین سطح کے رابطے میں ہے ۔ امریکا اور پاکستان تمام دہشت
گردگروپوں کوشکست دینے کے عزم پرقائم ہیں اورافغانستان کامستقبل پرامن ہونے
کاوژن رکھتے ہیں ۔این این آئی کے مطابق امریکانے کہا ہے کہ اگرپاکستان
امریکاسے بہترتعلقات چاہتاہے تواسے افغانستان کے حوالے سے امریکی حکمت عملی
پرعمل پیراہوناپڑے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی سٹیٹ
ڈیپارٹمنٹ کی حکمت عملی یہ ہے کہ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے طالبان
کوفوجی اورسفارتی دباؤکے ذریعے کابل کے ساتھ کام کرنے پرمجبورکیاجائے ۔ اس
ضمن میں امریکی حکومت نے پاکستان کوگزشتہ ہفتے واضح الفاظ میں پہلاپیغام
پہنچادیاتھا۔جب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیونے وزیراعظم عمران خان
سے فون پرگفتگوکرتے ہوئے پاکستان میں موجودتمام دہشت گردوں کے خلاف
موثرکارروائی کامطالبہ کیاتھا۔اس حوالے سے دوسراپیغام اس وقت دیاگیا جب
رواں ہفتے کے آغازمیں امریکی سیکرٹری دفاع جیمزمیٹس نے واشنگٹن میں بریفنگ
دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی سیکرٹری مائیک پومپیواورامریکی ملٹری چیف
اسلام آبادجاکرپاکستان پردہشت گردوں کے خلاف موثرکرداراداکرنے کے لیے
زوردیں گے۔بعدازاں دوروزقبل پینٹاگون نے امریکاکی افغان حکمت عملی کی حمایت
میں فیصلہ کن اقدامات نہ کرنے کاالزام لگاکرپاکستان کوفراہم کی جانے والی
تیس کروڑ ڈالرامدادروکنے کااعلان کیاتھا۔اس حوالے سے واضح موقف اپناتے ہوئے
امریکی اسسٹنٹ اورڈیفنس فارایشین اینڈ پیسفک سیکیورٹی افیئرزرینڈال جی
شیریورنے کہاتھا افغانستان میں امریکی جنگ ختم ہونے سے قبل امریکاکی جانب
سے پاکستان کودی جانے والی سیکیورٹی امدادکی بحالی ممکن نہیں اوراس سلسلے
میں مزیدپابندیاں عائدکی جاسکتی ہیں کیوں کہ واشنگٹن کوچین کے ساتھ پاکستان
کے بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات پرسخت تشویش ہے۔امریکی ماہرین کاکہنا ہے کہ
اگرپاکستان شکیل آفریدی کوامریکاکے حوالے کرنے ،حقانی نیٹ ورک کے خاتمے
اورطالبان کومذاکرات کی میزپربٹھانے کااعلان کردے توپاکستان اورامریکاکے
تعلقات میں بہتری پیداہوسکتی ہے ۔ اگرپاکستان ایسانہیں کرتاتوپھرٹرمپ آئندہ
چندہفتوں میں آنے والی نئی پاکستان افغانستان پالیسی میں پاکستان پرمشروط
پابندیاں لگانے کااعلان کرسکتے ہیں اوریہ اعلان پاکستان کی معیشت
کومزیدنقصان پہچانے کاسبب بنے گا۔دوسری جانب ٹرمپ بھارت کواس خطے میں
اپنامخلص اتحادی قراردے کردنیاکوبتاناچاہیں گے کہ بھارت کی سپورٹ کرنااس
خطے کے مفادمیں ہے۔پروفیسرالفریڈومینول کاکہناہے کہ پینٹاگون نے پاکستان
کوکولیشن سپورٹ فنڈکی مدمیں تیس کروڑڈالرکی امدادجاری نہ کرنے کااعلان کرکے
ایک واضح پیغام دیا کہ ’’ بات مانویاپھردورہوجاؤ‘‘ اب دیکھنایہ ہے کہ
پاکستان کی نئی حکومت کیاامریکی دباؤکوبرداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے
یانہیں ۔وزیراعظم عمران خان کاکہناہے کہ امریکاکے حوالے سے وہ اپنے موقف
پراب بھی قائم ہیں اوراگرامریکانے بات کرنی ہے توعزت سے کرے۔وزیراعظم ہاؤس
میں سنیئرصحافیوں سے ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان کاکہناتھا کہ
امریکاکی کوئی غلط بات نہیں مانی جائے گی۔امریکاسے لڑ نہیں سکتے ،اس سے
تعلقات بہترکریں گے ۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے
ساتھ ہونے والی ٹیلی فون کال کے حوالے سے شاہ محمودقریشی نے وضاحت کی کہ
امریکی محکمہ خارجہ نے ٹیلی فون کال پرجوموقف اختیارکیاوہ حقیقت کے برعکس
ہے ۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ وزیراعظم کی امریکی سیکرٹری خارجہ سے بہت
اچھی گفتگوہوئی اس نے وزیراعظم کومبارک بادپیش کی۔امریکی سیکرٹری خارجہ نے
کہا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ تعمیری تعلقات چاہتے ہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ
پاکستان میں کام کرنے والے دہشت گردوں کاتذکرہ حقیقت کے برعکس ہے یہ بات
بہت اعتمادکے ساتھ کہہ رہاہوں ۔ان کاکہناتھا کہ پاکستان اب مغرب کامحبوب
نہیں رہا۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ امریکانے ہماری امدادنہیں
روکی بلکہ یہ وہ پیسہ تھا جوپاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خرچ
کیااوریہ پیسہ امریکانے ہم کواداکرناتھا۔امریکاکی جانب سے پاکستان کاکولیشن
سپورٹ فنڈروکے جانے کے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خطیررقم خرچ کی اورامریکانے یہ پیسہ ہمیں
اداکرناتھا انہوں نے کہا کہ یہ کوئی امدادنہیں تھی جوروک لی گئی۔ یہ
ہماراپیسہ ہے جوہم نے خرچ کیا۔ہماری کوشش یہی ہے کہ عزت واحترام کے رشتے
کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے اپنے تعلقات آگے بڑھائیں ۔ پچھلی حکومت کی امریکاکے
ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہورہی تھی۔اب جب نئے سرے سے آغازہورہا ہے توہم کوشش
کریں گے کہ اپنے تحفظات کو مد نظررکھتے ہوئے تعلقات کوآگے بڑھانے کی کوشش
کریں۔ہمارامقصدیہ ہے کہ ہم اس خطے کواوردنیاکودہشت گردی سے پاک کریں۔افواج
پاکستان کی اس کے لیے بے پناہ قربانیاں ہیں۔پاکستان کے شہریوں نے بھی اس
جنگ میں قربانیاں دی ہیں۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کاکہناتھا کہ پارلیمنٹ
کی آوازامریکاتک پہنچاؤں گا۔ پاک امریکاتعلقات کوہم نے بہتری کی طرف
موڑناہے۔سینیٹ رضاربانی کے پاکستان امریکاتعلقات کے حوالے سے جواب دیتے
ہوئے انہوں نے کہا کہ رضاربانی نے اہم نکات اٹھائے ہیں۔میری خواہش ہے کہ
خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت پارلیمانی راہنمائی حاصل کی جائے۔منتخب
نمائندوں کے تاثرات کاعلم ہے ۔ان کے خیالات سے مستفیدہوناچاہتاہوں ۔منتخب
نمائندوں کی رائے سے آگے بڑھیں گے۔ہمیں خارجہ پالیسی سمیت تمام نیشنل
ایشوزپرپارٹی سے بالا تر ہوکرسوچناہوگااس پرہم کوایک ہوناچاہیے۔انہوں نے
کہا کہ وزیرخارجہ کے ٹیلی فون کے حوالے سے جوتنازع سامنے آیا ہے میں پہلے
ہی اس پروضاحت کر چکا ہوں ۔ان کاپریس ریلیزحقیقت کے برعکس ہے۔امریکی
وزیرخارجہ سے ٹیلی فون پربڑی مثبت بات ہوئی جوبات انہوں نے کی ہے پورے
فسانہ میں اس کا ذ کر تک نہیں تھا۔ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔اس سے قبل
سینیٹررضاربانی نے نکتہ اعتراض پرشدیدجذباتی اندازمیں بات کرتے ہوئے کہا کہ
یہ سنجیدہ ایشوزہے ہمارے وزیراعظم سے اختلافات ہوسکتے ہیں مگرہم
ڈومورکاامریکاکامطالبہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔ہم نے اس جنگ میں بے
شمارقربانیاں دی ہیں۔خورشیدشاہ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی پہلی کال پراٹک
گئی ہے۔
امریکاافغانستان میں اپنی بدترین ناکامیوں کاملبہ پاکستان پرڈالنے کی مسلسل
ناکام کوشش کررہا ہے۔پاکستان میں سابقہ دورحکومت میں بھی اس نے ایڑی چوٹی
کازورلگاکرافغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی بدترین ناکامیوں
کاملبہ پاکستان پرڈالنے کی کوشش کرتارہا ۔اب جب پاکستان میں نئی حکومت نے
اقتدارسنبھالا ہے توامریکایہی ملبہ ایک بارپھرپاکستا ن پرڈالنے کی ناکام
کوشش کررہا ہے۔ نوازشریف کی حکومت سے بھی کہتارہا کہ پاکستان طالبان
کومذاکرات کی میزپرلائے۔اب عمران خان کی حکومت سے بھی کہہ رہا ہے کہ
پاکستان طالبان کومذاکرات کی میزپرلائے۔امریکاافغانستان میں اپنی بدترین
ناکامیوں کی سزاپاکستان کودے رہا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ کون
ساتعاون ہے جوپاکستان نے امریکاکے ساتھ نہیں کیا۔وہ کون سا نقصان ہے
جوپاکستان کااس جنگ میں نہیں ہوا۔اس کے باوجودامریکانے پاکستان کووہ پیسہ
بھی نہ دینے کااعلان کرچکا ہے جوپاکستان پہلے ہی خرچ کر چکا ہے ۔ پاکستان
پرامریکہ کے دباؤکے حربے نہ پہلے کامیاب ہوئے تھے نہ اب ہوں گے۔وزیراعظم
عمران خان اوروزیرخارجہ شاہ محمودقریشی پہلے ہی امریکاکوکھری کھری سناچکے
ہیں۔قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ امریکاکی جی سائیں کرنے کی بجائے اس کے ساتھ
قومی حمیت کومدنظررکھتے ہوئے پورے وقارکے ساتھ بات کی جائے۔
اب جب امریکی وزیرخارجہ پاکستان آرہے ہیں تواس کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں بات
کی جانی چاہیے۔وزیراعظم عمران خان اوروزیرخارجہ شاہ محمود قریشی امریکی
وزیرخارجہ سے صاف صاف کہہ دیں کہ وہ افغانستان میں اپنی بدترین ناکامیوں
کاملبہ پاکستان پرڈالنے سے بازرہے ۔افغانستان میں اس کی بدترین ناکامیوں کی
ذمہ داراس کی اپنی جارحانہ پالیسیاں ہیں نہ کہ پاکستان ۔اس لیے
امریکاافغانستان میں اپنی بدترین ناکامیوں کی سزاپاکستان کونہ دے ۔ امریکی
وزیرخارجہ کودوٹوک الفاظ میں بتادیاجائے کہ پاکستان افغانستان میں بھی امن
چاہتاہے کہ افغانستان میں امن سے پاکستان میں بھی امن قائم ہوگا ۔ پاکستان
نہ توطالبان کومذاکرات کی میزپرلانے کاپابندہے اورنہ ہی پاکستان شکیل
آفریدی کوامریکاکے حوالے کرے گا۔امریکاکویہ بھی بتادیناچاہیے کہ پاکستان
دہشت گردوں کے خلاف پہلے بھی کارروائی کررہا ہے اورجب تک یہ دہشت
گردپاکستان میں رہیں گے ان کے خلاف کارروائی کرتارہے گا۔مگریہ کارروائی
پاکستان اپنی پالیسی کے مطابق کرتارہے گانہ کہ امریکاکی ڈکٹیشن کے
مطابق۔پاکستان نے جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی پالیسی کے مطابق لڑنا
شروع کی ہے مسلسل کامیابیاں مل رہی ہیں۔اب پاکستان میں دہشت گردی اختتام
پذیرہورہی ہے تویہ پاکستان کادہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی پالیسی کے مطابق
لڑنے کی بدولت ہی ممکن ہواہے۔ |