ہمارے ہاں ایک باقاعہ ہ منصوبہ ساز فیکٹری وجود رکھتی ہے
۔یہ فیکٹری نت نئی رنگ بازی پر کام کرتی رہتی ہے۔عجب عجب فریب ڈھونڈنا اس
فیکٹری کی واحد ذمہ داری ہے۔یہ فیکٹری عوام کا رجحان دیکھتی ہے۔ حالات کے
تقاضوں کو سمجھتی ہے۔اور پھر ان سب کے حساب سے ٹوپی ڈرامے ترتیب دیتی
ہے۔کبھی جمہوریت کے نام پر اس فیکٹری نے دھوکہ متعا رف کروایااور کبھی
آمریت کے نام پر فراڈسازی کی۔یہ فیکٹری مذہب کے مقدس ایشو کو بھی استعمال
کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔اس طرح کا اہتمام کیا جاتاہے کہ ایک نورانی چہرے
والے حضرت آتے ہیں۔قسمیں اٹھاتے ہیں کہ سیاست نہیں کررہا۔دین کی سرفرازی کے
لیے آیا ہوں۔ماروں گایا مر جاؤں گا۔میرا ساتھ دو۔درویش کی بات پر یقین
کرلیا جاتاہے۔قوم کفن باندھ کر ساتھ ہولیتی ہے۔پھر یہ حضرت شیطانوں سے
مذاکرات کرتے ہیں اپناخرچہ ورچہ وصول کر کے رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں
مدینے کی ریاست قائم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔عمران خاں اور ان کے ساتھی
بار بار پاکستا ن کو مدینے جیسی ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔
پچھلے دنوں بھی لاہور آئے تووزیراعظم عمران خاں نے ایک بار پھر انہوں نے
ملک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بات کی۔وہ ملک سے کرپش مٹانے
کی بات کررہے تھے۔سادگی اور دیانتداری کا ماحول بنانے کا ذکر کررہے تھے۔کچھ
حکومتی لوگوں پر میڈیامیں تنقید ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ میڈیا سے خوفزدہ
نہیں مگر کم ازکم چھ ماہ دیے جائیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے ملک میں اصلاح
کی خواہش کا اظہار قابل تحسین ہیں۔اگر واقعی یہاں مدینے کی ریاست قائم
ہوجاتی ہے تو بلاشبہ تمام تر قباحتیں جاتی رہیں گی۔یہاں حکمرانی کا مطلب
صرف اختیارات پر قابض ہونے اور بعد میں ان کے ذریعے اپنی تجوریاں بھرنارہا
ہے۔حکمران جب بھی گئے۔ان کے چہرے کی لالیاں بنک بیلنس اوراثاثوں میں ناقابل
یقین حد تک اضافہ ہوا۔عمران خاں پاکستان کی موجودہ صورت حال سے مطمئن
نہیں۔وہ یہاں انصاف ۔قانون اورشرافت کا دور دورہ دیکھنا چاہتے ہیں جو فی
الحال ناپیدہے۔جو نظام یہاں چل رہا ہے۔اس کے پہرے دار بڑے سخت ہیں۔وہ کسی
طور عمران خاں کو آسانی سے مدینے کی ریاست نہیں بنانے دیں گے۔اس کام میں
کئی رکاوٹیں آئیں گی۔خودتحریک انصاف سے جڑے کچھ قصے بھی اس جماعت کی نیک
نتی پر سوالیہ نشان ہیں۔اس جماعت نے تبدیلی کا نعرہ لگایا جسے بڑی پذیرائی
ملی۔عمران خاں دو جماعتوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا ذکر کیا کرتے تھے۔وہ
گلی کوچوں میں کہتے پھرتے کہ جب تک یہ دونوں جماعتیں قابض ہیں تبدیلی نہیں
آسکتی ۔عمران خاں کی باتوں میں وزن تھا۔بڑی پذیرائی ملی۔پھر یہ حمایت سکڑنے
لگی۔ جب تبدیلی کے دعوے داروں کی طرف سے جھول مارا جانے لگا۔جب یہ محسوس
کیا گیا کہ ان کی جدوجہد ایک مخصوص جماعت کے خلاف ہے۔ان کی توپوں کا رخ صرف
اور صر ف ایک فیملی کی طرف ہے توپھرتبدیلی کا نعرہ متنازعہ ہوگیا۔کچھ عمر
کے لوگ تونہ سمجھ پائے مگر تاریخ سے شناسائی رکھنے والے دانا بینا ۔اور
سنجیدہ حلقوں میں تشویش تھی ۔یہ لوگ مسائل کی موجودگی پر تو متفق تھے۔مگر
صر ف اور صرف ایک شخص یا ایک فیملی کو اس سارے بگاڑ کی ذمہ دار قراردینے پر
معترض تھے۔یہ طبقہ ان مسائل کو ایک اجتماعی خرابی قراردیتاتھا۔ عمران خاں
کی سب کچھ نوازشریف کے گلے ڈال دینے کی پالیسی نے اس طبقے کومایوس کیا۔
منصوبہ سازی فیکٹری مسلسل متحرک ہے۔یہ نت نئے پاکھنڈ تیار کرتی رہتی
ہے۔مدینے کی ریاست کا تصور بڑا ایمان افروز ہے۔مگر اس طرح کی ریاست وجودمیں
لانے کے لیے جو کردار چاہیے نظر نہیں آرہا۔عمران خاں اس گروہ کو لیڈ کررہے
ہیں۔جو مدینے کی ریاست قائم کرنے کا نعرہ لگارہاہے۔خاں صاحب کا کردار کسی
طور بھی شرافت ۔راستبازی اور سادگی کا پرتو نہیں رہا۔وہ
کھلنڈرے۔لاابالی۔عیاش اور مغرب زدہ امیج کے حامل ہیں۔عمران خاں کے جلسوں
میں کبھی بھی مدینے کی ریاست کا رنگ نظر نہیں آیا۔ان سے کسی آزاد خیال اور
کھلی ڈلی لادین قسم کی ریاست کی امید تو کی جاسکتی ہے۔مگر مدینے کی ریاست
کی امید کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ۔وہ ایسے لوگوں کے ساتھ مدینے کی
ریاست بنانا چاہتے ہیں۔جنہیں وہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کہا کرتے
تھے۔جنہیں وہ اتنا نالائق سمجھتے تھے کہ چپڑاسی رکھنے کو بھی آمادہ نہ
تھے۔جن سے ہاتھ ملانے کو وہ مفافقت کا نام دیا کرتے تھے۔وہ سب لوگ اس وقت
ان کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں۔اس ٹیم کے ساتھ مدینے کی ریاست قائم کرنے کا
دعوی فریب کار ی کے سوا کچھ نہیں۔بظاہر یہ بھی منصوبہ ساز فیکٹری کا کوئی
نیا پروگرام محسوس ہورہاہے۔ |