"سرفراز زاہد "کی شاعری "لفظوں سے پہلے "کے تناظر میں
سرفراز زاہد کی شاعری معنویت ،جذبے کی شدت ، گہرائی ،معرفت اور عرفان ذات
کے شعور سے عبارت ہے ۔ آپ کے کلام کی فنی خصوصیات کا جائزہ لیا جاۓ تو سہل
متمنع، فصاحت وبلاغت ،ندرت بیانی،خیال آفرینی کی خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں
۔ سہل متمنع کی خوبی کو چھوٹی بحر نے مزید نمایاں کیا ہے ۔ بحر کی نغمگی
مصرعوں کو خوبصورت آہنگ عطا کرتی دکھائی دیتی ہے ۔
آپ کا شعری مجموعہ "لفظوں سے پہلے "کے نام سے منظر عام پہ آیا۔
لفظوں سے پہلے "الست بر بکم "کا عالم تھا اور اس عہد سے پہلے کیا تھا ؟
ہم انسان کہاں تھے ؟ تحیر آمیزی لیے ہوۓ سوالات کلام کو انفرادیت عطا کرتے
نظر آتے ہیں ؟کائنات کیا ہے ؟ انسان کا مقام کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب غالب
نے بھی تلاش کیا ۔ اقبال نے بھی ۔
غالب کا استعارہ" تمنا "ہے
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون ِ ٰجگر ہونے تک
غالب
اقبال نے خودی کا لفظ ایجاد کیا اور اس کے سہارے درون بینی کی ہے ۔ ن۔ م
راشد نے جدید انسان کا تصور پیش کیا لیکن شدید ابہام کی بنا پہ اس کو نبھا
نہ سکے ۔
ہر اچھا شاعر درون بینی کے ذریعے حقیقت تک رسائی چاہتا ہے اور یہ خوبی
سرفراز زاہد کے کلام میں بہت نمایاں ہے ۔ "جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے
خدا کو پہچانا ۔"
اپنی پہچان کی یہ جستجو نئے رنگ، نئے ڈھنگ کے ساتھ سرفراز زاہد کے ہاں جلوہ
گر ہوئی ہے آئیے کچھ کلام دیکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنایوں اور تشبیہوں سے پہلے
کہاں ہوتے ہیں ہم لفظوں سے پہلے
.........
کہیں بیٹھا ہوا تھا دِل سے لگ کر
جبیں کا داغ کچھ سجدوں سے پہلے
......
......................
ہمیں برتا گیا خوابوں کے مابین
ہمیں دیکھا گیا آنکھوں سے پہلے
.....
دریچے نے جگہ لے لی ہے اس کی
تکلف تھا جو دیواروں سے پہلے
.........
کسی پتھر کے سینے میں تھے محفوظ
ہمارے عکس آئینوں سے پہلے
....
اُترنا ہے کسی امکاں کے اُس پار
پہنچنا ہے کہیں رستوں سے پہلے
......
صفاتِ نور میں ہوتے تھے شامل
یہ سارے عیب ہم ایسوں سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑھاپے کے زینے سے جھُک کر
کسی کی جوانی میں جھانکا
.............
حقیقت سے آنکھیں ہوئیں چار
پلٹ کر کہانی میں جھانکا
.... انالحق کی سولی پہ چڑھ کر
تری لن ترانی میں جھانکا
......
میں لفظوں کی مٹھی سے پھسلا
جب اپنے معانی میں جھانکا
............
سوچوں نے جب خلا بنایا
لفظوں نے اک خدا بنایا
...........
کھڑکی سے جھانک کر کسی نے
منظر کو واقعہ بنایا
..................
شاید ہو کوئی اپنے جیسا
تھا جس نے آئینہ بنایا
........
اُفق کے دریچے سے کس نے
مری بےکرانی میں جھانکا
................
فضاؤں میں پنپ رہی ہیں سازشیں
سو بال و پر بھی دھیان سے نکالیئے
..............
سمے گزر رہا ہے سانس روک کر
صدی کو امتحان سے نکالیئے
............
نکل نہ جائے بات دوسری طرف
لکیر اب زبان سے نکالیئے
..............
سرفراز زاہد کے کلام کی نمایاں خصوصیت ان کے لہجے کی تازگی ہے
کوئی ایمان لے آئے گا اک دن
مری خود ساختہ خوش فہمیوں پر
...............
بھنور میں مشورے پانی سے لیتا ہوں
میں ہر مشکل کو آسانی سے لیتا ہوں
جہاں دانائی دیتی ہے کوئی موقع
وہاں میں کام نادانی سے لیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرفراز زاہد آج کل کی مشاعروں کی مفاد پرستانہ فضا سے دور دکھائی دیتے ہیں
۔ وہ اپنی ذات کے حجرے میں مقید اپنی جستجو میں لگے ہوۓ ہیں ۔ ان کی شاعری
روایتی عاشقانہ مضامین کی بجاۓ نئی شاعری کے چشمے سے فیض یاب دکھائی دیتی
ہے ۔جو کہ ان کے شاعرانہ شعور کی سند ہے ۔
آج کا شاعر سرفراز زاہد ہے ۔ جو کہ روایت شکن بھی ہے اور آدمیت کا علمبردار
بھی ۔
ان ہی خصوصیات کی بنا پہ سرفراز زاہد اپنے ہم عصر شاعروں سے بلند ہوتے نظر
آتے ہیں ۔ یہ بلندی انکے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے ۔
-------------------
دکھ سے دو چار سال چھوٹا ہوں ہجر سے ایک دن بڑا ہوں میں
.........
کنویں کی سمت بُلا لے نہ کوئی خواب مجھے
میں اپنے باپ کا سب سے حسین بیٹا ہوں
.............
بھٹک جاتے ہیں اکثر راستے میں
تو کیا ہم راہ پر آنے لگے ہیں….!!
.................. قیمت مرے سونے کی وہاں خاک لگے گی
ہو خاک کی قیمت جہاں سونے کے برابر
...............................
سرفراز زاہد ادب کے منظر نامے میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں ۔
ان کا فن انکی غزل میں تازگی سے عبارت ہے
اللہ تعالی یہ تازگی برقرار رکھے ۔ آمین |