کیا پاکستان کی نئی حکومت آزادکشمیرمیں بھی تبدیلی لائے گی؟

آزادکشمیر کی بدلتی سیاسی صورتحال اور عوامی مسائل

آزادکشمیرکی سیاسی ڈائری
مقبوضہ کشمیرمیں جبروتشدد کی بھیانک داستانیں رقم‘عالمی برادری خاموش تماشائی
2ہزارمیگاواٹ سے زائدبجلی کی پیداوارکے خطہ آزادکشمیر کے عوام پن بجلی منصوبوں کے ثمرات سے محروم
ہالینڈمیں توہین رسالتﷺ کی ناپاک جسارت کے خلاف ملت اسلامیہ کابھرپوراحتجاج‘مقابلہ منسوخ کردیاگیا۔۔۔۔۔۔۔!!!

تحریک آزادی کشمیر کابیس کیمپ آزادجموں کشمیر ریاست کے دونوں اطراف کم و بیش ایک کرورڑبیس لاکھ کشمیریوں کی امنگوں اور امیدوں کا محورو مرکزہے۔وطن عزیزپاکستان ہو،امریکہ ،اسرائیل ہو یابھارت کے جابرانہ تسلط کے زیراثرمقبوضہ ریاست جموں کشمیر،خواہ دنیاکاکوئی بھی خطہ ہو،دنیامیں رونماہونیوالی تبدیلیوں اور حالات و واقعات کے اثرات تحریک آزادی کے بیس کیمپ پر لامحالہ ضرور پڑتے ہیں، آزادکشمیرمیں بسنے والے عوام ان حالات و واقعات کااثر لیتے ہیں اور اس پر پنا ردعمل بھی بھرپور اندازسے ظاہر کرتے ہیں،خاص طورپر مسلم دنیاپر اگر کوئی افتاد پڑتی ہے تو ریاستی عوام تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔حال ہی میں ہالینڈ کے ایک ناپاک و نجس قبیل کے سیاستدان نے روح کائینات ،جان عالم، سرورجہاں،جناب آقائے نامدار،حضرت محمدمصطفی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی شان اقدس میں توہین کی ناپاک جسارت کرنے کے ایک عالمی مقابلہ کے انعقاد کا اعلان کیاتھا۔پوری دنیاکے مسلمانوں نے بھرپوراحتجاج کیا اور مہذب اقوام عالم نے بھی اس قبیح گستاخی کی پرزورمذمت کی۔اس ضمن میں ماہ اگست میں عیدالاضحی کے موقع پر آزادکشمیرکی ڈیڑھ سوسالہ قدیمی نمائندہ دینی تنظیم مرکزی سیرت کمیٹی(رجسٹرڈ)نے آزادو مقبوضہ کشمیر سمیت ملک بھرمیں عیدلااضحی کو یوم تحفظ ناموس رسالتﷺ کے طورپر منانے کی اپیل کی تھی جس کا بھرپورخیرمقدم کیا گیا۔آزادکشمیرمیں مرکزی سیرت کمیٹی کے زیراہتمام اجتماع عید کے بعد مرکزی عیدگاہ سے سب سے بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کی قیادت وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمدفاروق حیدرخان نے کی۔اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ چل پڑا،آزادکشمیرکے تمام اضلاع سمیت ملک بھر میں اس اپیل پر ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔عشاقان رسول نے ہالینڈ کے اسلام مخالف سیاستدان ناپاک گیرٹ کے اس عمل کوآزادی ءِ اظہار رائے کی آڑ میں انٹرنیشنل سوشل ٹریررازم (InternationalSocial160Terrorism)قراردیااور توہین رسالتﷺ کو عالمی سطح پر قانون سازی کرکے عالمی جرم قراردینے کا مطالبہ کیا جس کی سخت سے سخت سزا مقررکی جانی چاہئے۔پاکستان میں تحریک انصاف کی نئی حکومت کے قیام اوروزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور پھر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام مخالف گستاخ سیاستدان گیرٹ وائیلڈرزکی جانب سے توہین رسالت ﷺ کی ناہاک جسارت کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ہالینڈ سفارتخانے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور انڈرسیکرٹری کو طلب کرکے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔وزیراعظم عمران خان نے ایوان بالا کے اجلاس سے خطاب میں اس معاملہ کو اوآئی سی کی سطح سے اقوام متحدہ میں اٹھانے کا عندیہ دیتے ہوئے اوآئی سی پر زوردیا کہ وہ مسلم ممالک کو متحد کرے اور دنیامیں توہین رسالت کے واقعات کی روک تھام کیلئے کرداراداکرے۔ دوسری جانب ملک بھر میں تمام طبقات کی جانب سے ہالینڈ کی اس ناپاک سازش اور جسارت کے خلاف بھرپور احتجاج جاری رہا،ترکی سمیت متعدد دیگر اسلامی ممالک میں بھی اس مذموم قبیح حرکت کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہالینڈ کی حکومت نے توہین رسالت ﷺ کی ناپاک جسارت کے مقابلہ کے منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ادھر مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی ایماء پر نام نہادبھارتی این جی اوز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ جب بھارتی سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 35A کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی کئی درخواستوں کی سماعت شروع کی جائے گی تو کشمیر کی مختلف جماعتیں اور حریت کے تمام دھڑے متحد ہوگئے۔یہاں تک کہ مقبوضہ کشمیرکی بھارت نوازکٹھ پتلی جماعتیں بھی وحدت کشمیر کیلئے حریت قیادت کے موقف سے متفق ہو گئیں۔مقبوضہ کشمیر میں چھ لاکھ سے زیادہ فوج اور سکیورٹی فورسز کے دستے تعینات ہیں۔بھارتی آئین کی یہ دفعہ 35A غیرکشمیریوں کوریاست جموں کشمیر میں جائداد خریدنے، نوکریاں حاصل کرنے یا کشمیری شہریت حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ شق ختم کی گئی تو کشمیر فلسطین بن جائے، کیونکہ بھارت کے کروڑوں ہندو یہاں آباد ہوجائیں گے اور کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار اقلیت میں بدل جائے گا۔کشمیری سمجھتے ہیں کہ اگر یہ شق ہٹائی گئی تو یہ کشمیر پر نیوکلیئر بم گرانے سے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔بھارتی سپریم کورٹ میں اس شق کو چینلج کرنے والی این جی اوز یا افراد آر ایس ایس کے حامی ہیں اور حکومت ہند نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ بی جے پی کی سوچ ہے کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی اسی دفعہ 35A کی وجہ سے یہاں ہند مخالف جذبات اور علیحدگی پسند رجحانات پروان چڑھتے ہیں، اور اگر کشمیر کا مکمل انضمام بھارتی وفاق میں ہوجائے تو کشمیریوں کی خواہشات بھارت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گی۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں چھرے والی بندوقوں (پیلٹ گن)سے اب تک ہزاروں افرادمردو خواتین اوربچے اپنی بنائی سے محروم ہو چکے ہیں۔حریت پسند رہنماوں سیدشبیراحمدشاہ،سید علی گیلانی، میر واعظ عمرفاروق اور یاسین ملک کا کہنا ہے کہ اس دفعہ کو ہٹانے کا مقصد مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو زائل کرنا ہے۔ تاہم بھارت نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ کشمیر اور بھارت کے درمیان آئینی رشتوں کو ختم کر کے بھارت کشمیر پر اپنا قانونی حق کھو دے گا۔ لیکن کشمیری سیاست کے سبھی دھڑے فی الوقت سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت کشمیریوں کی شناخت اور ان کی 'ڈیموگرافی' کے خاتمہ پر کمربستہ ہے۔اس شق کو 1954 میں ایک صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ 35A کو آئین میں شامل کیا گیاتھا ۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سازشوں کے خلاف بھارتی عدلیہ میں سماعت کے موقع پرریاست گیر احتجاج کیا گیا۔اس احتجاج میں مقبوضہ کشمیر کی طرح آزادکشمیراور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے حصہ لیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے معاملہ پھرٹال دیا اور سماعت 2019ء تک ملتوی کردی۔آزادکشمیر کی بات کی جائے تو اس سال مسلم کانفرنس کی جانب سے یوم نیلہ بٹ گذشتہ برسوں کی نسبت زیادہ اہتمام سے منایاگیا۔معلوم ہواہے کہ صدر مسلم کانفرنس سابق وزیراعظم سردارعتیق احمد نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وزیرریلوے شیخ رشید سمیت متعدد اہم وفاقی شخصیات کو بھی اس تقریب میں مدعوکیاتھا لیکن وفاقی سطح سے کوئی ایک شخص بھی اس جلسے میں شریک نہ ہوا ۔البتہ صدر آزادکشمیر سردارمحمدمسعودخان (جوپاکستان کے بہترین سفارتکار کے طورپر عالمی سطح پر جانے پہچانے جاتے ہیں)نے اس تقریب میں شریک ہو کر اور جوشیلا خطاب کرکے خود کو ریاستی سیاست میں متنازعہ ضروربنادیاہے۔ صدر سردارمسعود مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اس منصب پر پہنچے ہیں لیکن نیلہ بٹ میں ان کا خطاب کسی بھی طرح ن لیگ آزادکشمیر کی پالیسوں سے ہم آہنگ نہیں بلکہ اس کے خلاف تھا۔اس پر لیگی کارکنان نے شدیدردعمل کا اظہار‘یہاں تک کہ انہیں اس منصب سے سبکدوش کرنے کامطالبہ بھی کیا۔دوسری جانب آزادکشمیرکے وزیراعظم راجہ محمدفاروق حیدرخان نے وفاقی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے ۔اس ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے تازہ ترین صورتحال اور نئی حکومت کی نئی کشمیر پالیسی پر تبادلہ خیال کیاگیا، تاہم ریاست کے سیاسی حلقوں نے وزیراعظم آزادکشمیر کی اس پہلی اعلیٰ سطح ملاقات کو بڑی پیشرفت قرارنہیں دیاہے کیوں اس ملاقات میں کشمیری عوام کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی جاسکی۔کشمیر ی عوام اس وقت بہت سے مسائل کا شکار ہین جن میں سب سے اہم اور بڑا مسئلہ نیلم جہلم ہائیڈرل پاورپراجیکٹ سمیت پن بجلی کے دیگر منصوبوں سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مضمرات اور متاثرین ہیں۔خاص طورپر ریاستی دارالحکومت مظفرآباد سے گزرنے والے دریائے نیلم کا رخ موڑنے کے بعد دریا ایک نالہ کی شکل اختیار کرچکاہے جس سے پورا علاقہ بدترین ماحولیاتی مسائل کا شکار ہوچکاہے،اس پر شہریوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے پاکستان واپڈا سے اپنے وعدے پورے کرنے کامطالبہ کیاہے۔واپڈا نے ریاست کو 39ارب روپے کے واجبات بھی اداکرنے ہیں،اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔جبکہ آزادکشمیرمیں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے بھی عوام کا جینا محال کررکھاہے۔آزادکشمیرسے2ہزارمیگاواٹ سے زائدبجلی کی پیدوارہورہی ہے اور اس کی مجموعی ضرورت محض 350سو میگاواٹ کے لگ بھگ ہے ،اس کے باوجود آزادکشمیرمیں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ ریاستی عوام نے باراہے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ آزادکشمیر کولوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قراردینے کے حکومتی وعدوں پر عملدرآمد کیا جائے۔آزادکشمیر کابینہ کے اجلاس میں دارالحکومت کو ماحولیاتی مضمرات سے بچانے کیلئے جھیلیں بنانے کے لئے بند تعمیر کرنے سمیت کئی اہم معالات کو زیربحث لایا گیا اور وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے کابینہ کو یقین دلایاکہ وہ ان ایشوز کو وفاقی حکومت کے سامنے رکھیں گے۔آزادکشمیرکے عوام مین یہ چہہ مہ گوئیاں گردش کررہی ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کی تبدیلی کے اثرات آزادکشمیرپر بھی مرتب ہونگے، پی ٹی آئی آزادکشمیرکے صدر بیرسٹرسلطان محمود چوہدری نے یہاں تک کہہ دیاہے کہ کشمیرمیں ٹنڈی ہوئیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔اب دیکھنا ہو گا کہ ان ہواؤں کی ٹھنڈک کب ریاستی عوام تک پہنچے گی اورکیا پاکستان کی نئی حکومت آزادکشمیرمیں بھی تبدیلی لائے گی؟۔
 

Safeer Ahmad Raza
About the Author: Safeer Ahmad Raza Read More Articles by Safeer Ahmad Raza: 44 Articles with 48066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.