پاکستان کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مدتوں بعد تحریک
انصاف کو پاکستان کی تقدیر سنوارنے کا موقع ملا ہے، ہمسایہ ممالک کے علاوہ
عالمی برادری بھی پاکستان کے بدلتے حالات پر نظریں لگائے ہوئے ہے۔گویا
پاکستان دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایران کے وزیرخارجہ
جواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور آج اس وقت امریکی وزیر خارجہ
مائیک پومپیو ، امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ہمراہ
پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان سے پہلے امریکہ نے پاکستان پر اپنا
سفارتی اور اقتصادی دباو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا، شاید اس دباو کے بڑھانے
کا مقصد اس دورے کو کامیاب کروانا تھا۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی
دورے کی کامیابی کا انحصار ایجنڈے پر عملدرآمد پر ہوتا ہے، یوں تو پاکستان
کئی دہائیوں سے امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کرتا چلا آرہا ہے لیکن اس
مرتبہ شاید امریکہ ہمیشہ کی طرح اپنے مقاصد مکمل سو فیصد حاصل نہ کرپائے۔
امریکی ایجنڈے کی عدم تکمیل کی ایک وجہ عوام میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت
کا پایا جانا بھی ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی لوگ امریکہ سے نفرت کرتے تھے لیکن
اس مرتبہ عوام کے اندر خاصا اعتماد پایا جاتا ہے، اس اعتماد کی ایک وجہ
پاکستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ اور ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی بندش
بھی ہے۔ عوام کو اب یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم بھی بحیثیت قوم ایک وزن اور
حیثیت رکھتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کا تندوتیز لہجہ اور بھارت کی طرف نمایاں جھکاو بھی اس
مرتبہ تعلقات کو سنوارنے اور آگے بڑھانے میں آڑے آئے گا۔
امریکہ نے اس منطقے میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کے لئے گزشتہ چند
سالوں میں طالبان کا کنٹرول بھارت کے ہاتھوں میں دیدیا ہے۔اب طالبان یعنی
مجاہد بھائی جان بھارتی ایجنڈے کے مطابق پاکستانی و افغانی عوام کو کشت و
خون میں غلطاں کرتے ہیں اور اس کا ملبہ حکومت پاکستان پر گرادیا جاتا ہے۔
پاکستان جو ایک عرصے سے اس منطقے میں امریکی و سعودی اتحادی تھا اور طالبان
کے بنانے کے عمل میں برابر کا شریک تھا اس کے لئے یہ سب کچھ ایک بہت بڑا
دھچکا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے افغانستان کے حساس مقامات پر طالبان سے حملے
کروا کر امریکہ و افغانستان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اب بھی طالبان کے
بعض دھڑے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور وہ یہ سب کارروائیاں ، پاکستان کی
ایما پر کر رہے ہیں۔
ان دنوں افغانستان میں داعش کو بھی آباد کیا جا چکا ہے جو کبھی بھی
پاکستان کی سیکورٹی اور سلامتی کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اس وقت
پاکستان امریکہ کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے بجائے طالبان و داعش
نیز بھارتی بالا دستی کے مسائل میں ہی الجھا رہے گا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی سلامتی سے کوئی
دلچسبی نہیں ، لہذا امریکی ہمیشہ کی طرح محض احکامات صادر کریں گے اور کوشش
کریں گے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح ان حکمرانوں کے سامنے بھی پیسہ پھینکیں
اور تماشا دیکھیں۔
پاکستان اگرچہ اقتصادی دباو اور مشکلات کا شکار ہے تاہم اس مرتبہ صرف پیسے
کی خاطر امریکیوں کی ہاں میں ہاں ملانا آسان نہیں ہوگا اور اگر امریکیوں
کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی تو پاکستان کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے۔
امریکہ فقط یہ چاہے گا کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی کو بھارتی احکام کے
تابع انجام دے۔یہ پاکستان کے حکمرانوں کے لئے کڑے امتحان کا وقت ہے کہ وہ
پیسہ لے کر بھارتی بالادستی کو تسلیم کر تے ہیں اور یا پھر انکار کر کے
اپنے لئے مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔
انکار کی صورت میں پوری ملت پاکستان کو ایک صبر آزما دور سے گزرنا پڑے گا
، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومیں مشکلات سے گزر کر ہی کندن بنتی ہیں۔
یہاں پر یہ بھی قابل ذکر نکتہ ہے کہ طالبان کے گوریلا کمانڈر جلال الدین
حقانی کی موت کی خبر گزشتہ پانچ سالوں میں کئی مرتبہ چلائی گئی ہے لیکن اس
مرتبہ امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان سے صرف ایک دن پہلے افغا ن طالبان
کی طرف سے حقانی کی ہلاکت کا باضابطہ اعلان بھی کسی اہم راز کا پیش خیمہ ہو
سکتا ہے۔
المختصر یہ کہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے
لئے ایک کڑوا گھونٹ ہے،اس گھونٹ کے بعد اس کے نتائج ناقابلِ یقین حد تک
مثبت یا منفی ہو سکتے ہیں۔
امکان ہے کہ اس مرتبہ پیسہ پھینکو اور تماشا دیکھو کا منصوبہ زیادہ کارگر
ثابت نہیں ہوگا۔ |