ہمارے دین یعنی اسلام میں کسی قسم کا ٹیکس (محصول) کا کوئ
تعلق و کانسپٹ نہیں ہے. بلکہ ٹیکسیشن ایک ظلم ہے، چاہے کسی قسم کا ٹیکس ہو.
چاہے مال دار پر ہو یا پھر غرباء و مساکین پر ہو. اسلام میں دو کانسپٹس ہیں
یعنی انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی رضا کے لیے اخلاص کے ساتھ مال خرچ
کرنا اور زکوۃ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ
مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ".
ترجمہ: سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر دینے والا مالدار ہی رہے اور ہر
حال میں اوپر کا ہاتھ ( دینے والے کا ) نیچے کے ( لینے والے کے ) ہاتھ سے
بہتر ہے اور ( خرچ کی ) ابتداء ان سے کرو جو تمہاری نگہبانی میں ہیں ۔
(صحیح بخاری، رقم: 5355)
یہاں پر انفاق کی کوئ حد نہیں بتائ بلکہ خرچ کرنے کی طرف لوگوں کو ترویج دی
گئ۔ اس لیے حکومتوں کو زبردستی محصول لاگو کرنا ایک عظیم ظلم ہے۔ مثال
کےطور پر ایک شخص نے محنت کر کے لاکھوں یا کروڑوں کمایا مگر اس پر دس فیصد
یا پندرہ فیصد وہ حکومت کو دے؟ سبحان اللہ، یہ تو ایک ظلم ہے۔ حکومت کا کوئ
حق نہیں کے اسکے حلال مال سے بغیر کسی وجہ کے محصول وصول کرے، بلکہ یہ ایک
ظلم و بربریت ہے اور یہ ایک جمہوری باطل طریقہ ہے۔ حکومت وقت کا حق و فرض
یہ ہے کہ مالداروں اور غنی لوگوں کے مال سے زکوۃ لے جیسے کہ اللہ نے
فرمایا:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ
عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ
وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ
وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
صدقے (زکوۃ) صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے
والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں
اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض
ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے
(سورۃ توبہ 9 آیت: 60)
یعنی زکوۃ بھی مالدار و غنی دے اور ٹیکس و محصول بھی وہ دے؛ زکوۃ ایک فرض
ہے جو اللہ نے مالدار کے مال کو صاف کرنے اور ان مصارف پر خرچ کے لییے فرض
قرار دیا جو اوپر درج کیے گیے ہیں۔ مگر محصول ایک ظلم ہے چاہے کسی سے بھی
وصول کیا جاۓ۔
اسلام کا کونسپٹ مال و جانور پر زکوۃ ہے اور زمین اور اسکی پروڈکشن پر عشر
ہے. اسکی شرح مختلف جانوروں اور زمین کی نوعیت کی پروڈکشن پر مختلف ہے
مگرعام طور پر مال پر % 2.5 کے حساب سے زکوۃ نکالی جاتی ہے.
اسلیے مسلمان ریاستوں کو بجائے ٹیکسیشن کا باطل نظام نافظ کرنے کے تمام
مسلمان حکومتوں کے حکام کو چاہئے کہ اللہ کے دین کے اس نظام کو عوام پر
نافظ کریں اور جب جمع شدہ مال پر سال گزر جائے تو % 2.5 کی شرح سے زکوۃ پر
مالدار و غنی سے وصول کریں اور جب بھی کاشت کار اپنی فصل کاٹے تو اسی وقت
اس سے عشر وصول کیا جائے جو مساکین اور ضرورت مندوں کا حق ہے.
محصول و ٹیکس جھوٹ کا دروازہ کھولتا ہے۔ مثلا حکومت نے ایک شخص پر کسی مد
میں پچاس ہزار ٹیکس عائد کیا اب اس کو بچانے کے لیے وہ کوئ شخص تلاش کرے گا
کہ ٹیکس کم ہوجاۓ اور چاہے اسے کچھ رشوت دینی پڑھے۔ جبکہ اسکے مقابلہ میں
زکوۃ میں برکت ہےاور حق گوئ اور سچ کا راستہ ہے کیونکہ جو جان بوجھ کر علم
رکھتتے ہوۓ زکوۃ و عشر کا انکار کرے یا اس سے گریز کرے تو یہ یا تو کفر ہے
یا پھر کفر کی طرف پیش قدمی ہے اور ہر مسلمان یہ جانتا ہے، اللہ ہمیں اسس
سے بچاۓ، اللھم آمین
اسی طرح ہماری رائے میں ہر اسلامی مملکت میں صرف ایک حکم سے سود کو بالکل
ختم کر دیا جائے کیونکہ اس میں جتنا ڈیلے کیا گیا مختلف ممالک اور تنظیموں
کا پریشر حکام پر اتنا زیادہ ہوگا . جب یہ امور انجام دیے جائیں گے تو ہر
مسلمان ملک کی معیشت مکمل صحیح طرف راغب ہو جائے گی.
ہر غریب و مالدار کے لیے بغیر سودی بینک اکاونٹ کھولنا لازمی قرار دیا
جائے. غنی لوگوں کے مال پر جب سال گزر جائے گا تو اسکے اکاونٹ سے
اوٹومیٹیکلی ڈھائ فی صد زکوۃ کاٹ لی جائے اگر وہ پیسہ زکوۃ کی مد کو پہنچا
ہو. اسطرح حکومتوں کو ہر مہینہ بہت پیسہ مل سکتا ہے جو اس مللک کے غرباء کی
مختلف مد میں خرچ کیا جاسکتا ہے. یہ کام یقینا گمبھیر ضرور ہے مگر ناممکن
نہیں. اس مد میں مختلف حکومتیں کمپیوٹر پروگریمرز کی خدمات حاصل کر سکتی ہے
جو ایسے کمپیوٹر پروگریمز ڈیزائن کریں جو اس مد میں اپلیکیبل ہوں.
انگریزی کا محاورہ ہے:
When there is a will there is a way.
اللہ تمام مسلمان ملکوں اور بالخصوص پاکستان کی حفاظت فرمائے، اللھم آمین
|