UNOکے پس پردہ ناپاک عزائم اور صدیوں پرانے منصوبوں
کوسامنے رکھتے ہوئے مسلمان ممالک پر اس کی رکنیت حرام ہے بلکہ غیر مسلم
ممالک کے لئے بھی جائز نہیں کیونکہ یہ ناصرف ان کی آزادی، خودمختاری بلکہ
ان کی سلامتی اوروجود کیلئے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ ادارہ عالمی
اقتدار (One World Government)کے حصول کے صدیوں پرانے یہودی منصوبے پر عمل
پیرا ہے اوراس کی پلوٹھی کی اولاد (اس کے پر تاثیر شکم سے جنم لینے والے )
دوسرے تمام ذیلی ادارے بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ان کا مشن تمام
اقداروں، تمام مذاہب اور حکومتوں کو تہہ و بالا کرکے عالمی اقتدار کا حصول
ہے ۔اگر اقوام متحدہ کے منشور میں معمولی ردوبدل کے بعد اسے ایک سپر
گورنمنٹ بنا دیا جائے تو اس کے ذیلی ادارے خود بخود وزارتِ تعلیم، وزارتِ
صحت، وزارتِ محنت، وزارتِ انصاف، وزارتِ خوراک بن جائیں گے۔
کافی عرصے سے ایک عالمی پویس فورس قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر یہ
قائم ہوگئی تو اقوام متحدہ کی سپر گورنمنٹ انتہائی طاقتوار پولیس فورس کے
ذریعہ ساری دنیا پر اقتدار قائم کر سکے گی۔ 1950ء کے آخری عشرے میں یہ
پولیس فورس قائم ہوتے ہوتے رہی گئی۔ 1956ء کے نہر سویزکے بحران کے بعد
اقوام متحدہ کی ایمرجنسی فورس کا قیام دراصل ایک تجرباتی منصوبہ تھا۔کیا یہ
کوئی اتفاقی حادثہ ہے کہ ان تمام امور کی ان صہیونی دستاویزات میں منصوبہ
بندی کی گئی ہے۔
UNOکے پس پردہ یہود ونصاریٰ کے عزائم کیا ہیں ؟ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ سلامتی کونسل ،تاکہ ویٹو کے ذریعے اجارہ داری قائم کرکے پوری دنیا پر
حکمرانی کی جا سکے۔ اور ویٹو کا حق بھی ان کے چند مخصوص گماشتوں کے ہاتھ
رہے تا کہ ہم معاملات اپنی منشاء کے مطابق ویٹو کر وا سکیں۔ اور دنیا کے
ایک چوتھائی مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا ہے صرف اس لئے کہ ان کا
سارا کھیل بھی مسلمانوں کے ساتھ ہے اگر مسلمانوں کو ویٹو کا حق ملتا ہے تو
ان کا سارا کھیل ختم ہو کے رہ جاتا ہے۔
2۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف ، اور پھر ان کے پر تاثیر شکم سے جنم لینے
والے ’’لندن کلب ‘‘اور’’ پیرس کلب‘‘ تاکہ سود کی بنیاد پر بھاری قرض دے کر
حکومتوں کو دبایا اوراپنے زیردست بنایا جاسکے ،اور تاکہ سود کی رقم سال ہا
سال سود در سود بڑھتی چلی جائے اور اس کی قوت برداشت سے باہر ہو جائے ا ور
تاکہ وہ ہمیشہ کیلئے ان کے ماتحت اور زیر فرمان بن کررہیں ۔
3۔ مزدوروں کا عالمی ادارہ International Labor Organization تاکہ مزدوروں
کے ذریعے عالمی صنعت پر کنٹرول حاصل کیاجا سکے ۔یہ مزدوروں کی خرید کا
عالمی ادارہ ہے۔
4۔ یونی سیف ، تاکہ تعلیم اور بہبود اطفال کے خوبصورت نام سے دوسری (پس
پردہ) کاروئیوں کیلئے ماحول سازگار بنایا جا سکے۔
5۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( World Health Organization ) تاکہ صحت، تندرستی
کے خوبصورت نام سے گوئم (غیر یہود یوں) کی صحت پر موثر حملے کیے جاسکیں ۔
6۔ ایف ۔ا ے ۔او ( ( Food And Agriculture Organizationتاکہ پوری دنیا کی
خوراک و زراعت پر کنٹرول حاصل کرکے عام لوگوں کو بھی اپنا دست نگر بنایا جا
سکے۔
7۔ ’’انٹر نیشنل ریڈ کراس ‘‘ کا بے ضرر ادارہ ، جس کا نفع نقصان سے کئی گنا
زیادہ خطرناک ہے۔
8۔ عالمی تجارتی ادارہ WTO ( World Trade Organization)جس نے حال ہی میں
جنم لیاہے تاکہ اس کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آٹوپس سے دنیا کے ہر ملک
پر حکمرانی کی جا سکے۔
9۔ جوہری توانائی کا عالمی ادارہ (IAEA) International Atomic Energy
Agency تاکہ کسی بھی اسلامی ملک کو اس شعبے میں آگے آنے اوراپنا دفاع مضبوط
بنانے سے روکا جا سکے تاکہ وہ ہمارے اہل مغرب کے سامنے سر نہ اٹھاسکیں اور
تاکہ طاقت کا توازن ہمیشہ غیر مسلم ممالک کے حق میں رہے اور وہ دنیا پراپنی
من مانیاں کرتے پھریں۔
10۔ عالمی عدالت انصاف ،جو آج تک شفاف ترین انصاف کی خود محتاج رہی کہ ظلم
و فساوات کی جڑ امریکہ، انڈیا اور فلسطین پر قابض یہودیوں کا کچھ نہ بگاڑ
سکی اور ہمیشہ بے گنا ہ لوگوں کاخون چوسا۔
UNO، سلامتی کونسل اوردیگر ذیلی اداروں کی چھتری تلے 20 ویں صدی کے آغاز سے
لے کر آخرتک دنیا میں جو بدامنی اورجنگ و جدل کے جو حالات رہے اور عالمی
امن جن خطرات سے دوچار رہا اور 21ویں صدی کے شروع میں اس میں جو مزیدتیزی
دیکھنے میں آئی اس کی حقیقت مندرجہ ذیل اقتباس سے دیکھی اور سمجھی جا سکتی
ہے کہ یہودی ’’ربی ایمانول رابن وچ‘‘نے 12جنوری 1952ء کو بوڈاپسٹ میں یورپ
کے ربیوں کے اجلاس میں کہا تھا:
’’مبارک ہو میرے بچو! آپ کو یہاں بلانے کامقصد اپنے نئے پروگرام کا اعادہ
کرنا ہے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ ہم دوسری اور تیسری
عالمگیر جنگوں کے درمیان کم و بیش 20سال کے اندر اندر ہم دوسری جنگ عظیم کے
ثمرات سمیٹ لیں گے مگر ہمارے ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مسائل کے
پھیلاؤ نے اسے ممکن نہیں رہنے دیا۔ اب ہمیں زیادہ شد و مد کے ساتھ مقاصد کے
حصول کی خاطر محنت کرنی ہے تاکہ آئندہ پانچ سالوں میں تیسری عالمگیر جنگ
ممکن ہو سکے ۔ پانچ سال کے عرصہ میں ہم اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے، کیونکہ
ہمار ا پروگرام ایسا ہی ہے جس سے تیسری عالمگیر جنگ تباہی و بربادی کے
سابقہ عالمی ریکارڈ توڑ دے گی، یقیناًاسرائیل اس جنگ میں غیر جانبدار رہے
گا اور جب جنگ کے فریق تباہ وبرباد اور تھک ہار کر چور ہو چکے گے تو ہم
مصلحت کندہ بن کر آگے بڑھیں گے ،تباہ حال ممالک کی تعمیر و ترقی کیلئے
ہمارے لوگ وہاں جائیں گے یہ وہ وقت ہو گا جب ہمارا مقصد پورا ہو گا ۔‘‘
(کھیل کے مہرے۔ صفحہ نمبر106،از ولیم گوئکر)
جنرل البرٹ پائیک کی منصوبہ بندی کے مطابق تیسری جنگ عظیم ہونا ابھی باقی
ہے۔ اگرچہ منصوبہ بندی کے مطابق یہ 20 ویں صدی کے آخر میں طے تھی مگر بدلتے
ہوئے عالمی حالات اسے 21 ویں صدی میں دھکیل لائے اور پھر ابھی دور تک اس کا
کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا تو یہود نے اس جنگ کا جواز پیدا کرنے کیلئے
بڑے سائنسی انداز میں منصوبہ بندی کی اور اپنے ’’تعمیر کیلئے تخریب ‘‘ کے
عقیدے پر عمل کرتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ڈرامہ رچایا اور اس کا ملبہ
مسلمانوں پر ڈال دیا تاکہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں طویل جنگ شروع ہوجائے
۔ جنرل پائیک کا نقطہ نظر تھا کہ تیسری جنگ عظیم یہود کی منزل کیلئے فیصلہ
کن ہوگی اور عالمی سطح پر حکومتوں اور مذاہب کا خاتمہ کردے گی ،جس کیلئے
صہیونیت نے ہمہ وقت اور ہمہ جہت اپنی بے شمار تنظیموں کے ذریعے کام کروانا
شروع کیا تاکہ جلد از جلد تیسری عالمی جنگ کاجواز پیدا کرکے اپنی منزل کے
قریب پہنچا جاسکے۔
شطررنج کی بساط پر بیٹھے گذشتہ کئی صدیوں سے یہود پوری دنیا کو اپنی
انگلیوں پر نچا رہے ہیں ۔یورپ و امریکہ کو قرض کی زنجیروں میں جکڑکر اپنا
غلام بنایا اور پھر ان کی مدد اور تعاون سے ایسے ادارے تشکیل دئیے جو دنیا
کے باقی ممالک کو بھی ان کی غلامی کے جوئے تلے لے آئے۔ سونے کے مالکان یہود
کے بڑوں کی منصوبہ بندی ہر لحاظ سے کامیاب رہی ۔مسلم ممالک بھی دین و دانش
کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے شوق میں اپنے قدموں پر
کھڑا ہونے اور اپنا عالمی ادارہ تشکیل دینے کی بجائے یہاں دُم کٹوانے
پہنچے۔
مسلمانوں کی نااتفاقی اور بصیرت کے فقدان سے یہود کی لونڈی ( یو ۔ این۔ او
) اپنی سلامتی کونسل اور دیگر ذیلی اداروں کے ذریعے یہودکی عالمی حکمرانی
کو لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر لارہے ہیں ۔ملت اسلامیہ اور ان کے روحانی
مراکز ’’مکہ مکرمہ ‘‘اور ’’مدینہ منورہ ‘‘ پر ایٹم بم گرانے کے مشورے سامنے
لائے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی مغرب کی طرف سے ایک فلیئر’’ ظہورِ مہدی ‘‘
نامی ناولٹ کے ذریعے چھوڑا جاچکا ہے جس کی قربانی کو امریکی سیارے کے لیزر
کے ذریعے بھسم کرکے دعویٰ مہدویت کی صداقت کو ثابت کرنے کے بعد پانچ جہازوں
کے ذریعے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ایٹم بم گرائے جائیں گے ۔
اتنا کچھ سننے اور دیکھنے کے بعد بھی مسلم حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے بلکہ
ستم بالائے ستم عوام کو بھی کھل کر احتجاج کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ
نہیں بلکہ عوام کو یہ کہہ کر ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے کہ امریکہ دنیاکی
سب سے بڑ ی طاقت ہے ہم تو کیا ساری دنیا مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر
سکتی ۔ اے بزدلو ! بتاؤ ، اللہ عزوجل واحد القوی القہار اور اس کے عظیم قوت
والے رسول ﷺ کی مدد اور جذبہ ایمانی و شہادت کے آگے امریکہ کیا چیزہے ؟ جب
اللہ عزوجل کی مدد آن پہنچے اور سینے جذبہ ایمانی سے سرشار ہوں تو امریکہ
کیا امریکہ کا باپ بھی آ جائے وہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔مگر
ضرورت صرف ایما ن اور اخلاص کی ہے ۔ حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے کیاخوب
فرمایا
آج بھی ہوگر ابراہیم کا سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
اہل مغرب خاص طور پر امریکہ اوراس کے حلیفوں اور یہود کی لونڈی(یو۔ این
۔او) اور دیگر ذیلی اداروں سے مسلمانوں کو کبھی خیر کی توقع نہیں رکھنی
چاہیے جو گذشتہ نصف صدی سے مسلمانوں کو سوائے تباہی و بربادی اور ذلت و
رسوائی کے سوا اور کچھ نہ دے سکے و ہ آئندہ مستقبل میں ہمیں کیا دیں گے مگر
یہی ذلت و رسوائی؟ اسی طرح اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے بھی کسی قسم کی
کوئی توقع رکھنا بے معنی ہے کیونکہ معدودے چند کے سوا، سب کے سب امریکہ اور
یو۔ این۔او کے حلقہ بگوش ہیں یابے بس ہیں ۔ لہٰذا یہودی لابی اور امریکی
جارحیت کے خلاف عوام ہی کو آگے بڑھنا ہو گا، عوام کو ہی ہمت کرنا ہو گی ۔
دین حق کی عظمت و سربلندی کی خاطر جذبے اور حوصلے جواں کرتے ہوئے عوام کو
ہی میدان میں نکلنا ہو گا۔
|