اپنے شہر کے مرکزی بازار سے گزرتے ہوئے چند نوجوانوں کی
ایک دوسر ے کی پارٹیوں اور انکے رہنماؤں کو دی جانے جانے والی عجیب و غریب
گالیوں نے میرے سنجیدہ سوچوں میں الجھے، متلائے ہوئے زہن کو زبردستی اپنی
جانب متوجہ کر لیا جو ایک انٹر نیٹ کیفے میں جمع تھے او ر اتنی اونچی آواز
میں مغلظات بک رھے تھے جو بازار میں پیدا ہونے والی انسانی اور مشینی ساری
آوازوں پر بھاری محسوس ہو رھی تھیں یہاں تک کہ ایک نوجوان ایک جماعت کے
سربراہ اور انکی بیٹی جو ان د نوں پابند سلاسل ہیں کا نام لیکر ایسی گالیاں
دے رھا تھا جن سے میری سماعتیں آدھی صدی پر محیظ زندگی گزارنے کے باوجو د
ابھی تک ناواقفہیں ۔ میں کچھ لمحوں کے لیے وہیں رک گیا اس ارادے سے کہ اپنے
نوجوانوں کی منت سماجت کر کے انھیں اپنی معاشرتی ، اخلاقی و روایتی اقدار
کو یوں سرعام رسوا کرنے سے روک سکوں مگر انکے چہروں پر پھیلی جنونیت اور ہر
گالی اور بہتان کے بعد حیوانی انداز میں قہقہوں نے مجھے میرا اراداہ ترک
کرنے پر مجبور کر دیا اور میں اپنی مجروع سماعتوں اور زخمی احساسات کو
بمشکل تمام سنھبالا دیکر آگے بڑھ گیا ۔مجھ سے چند قدم آگے ایک بزرک جنکی
عمر 75سال سے زائد محسوس ہو رہی تھی اپنی خمیدہ کمر کو جھکائے چھڑی کے
سہارے رینگ رینگ کر چل رھے تھے اور زبان سے کچھ بڑبڑا رھے تھے جو نوجوانوں
کی آوازوں میں دب گئی تھیں مگر انکے لرزتے ہونٹ اور چھلکتی انکھیں انکے
اندر کی کیفیت کو بیان ضرور کر رہی تھیں ۔ میں اپنے بزرگ کے کرب کو محسوس
کر چکا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ بزرگ کے ساتھ آنکھ ملا کر زہن میں برپا
محشر کی شدت میں اضافہ نہی کرنا چاہتا تھا اسلیے دامن بچا کر ان سے آگے
بڑھنے کی کوشش کی مگر انکی لرزتی آواز جو اس لمحے بہت اونچی ہو چکی تھی نے
میرے قدم روک دیے ۔ تم کس گلی میں رھتے ہو ؟بزرگ نے میری آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر ناراضگی اور مایوسی سکے انداز میں پوچھا ۔ میں نے انکے ہاتھ کو تھام
کر ان سے نظریں ملائے بغیر ہاتھ سے سامنے والی گلی کی طرف اشارہ کیا انھوں
نے میرے ہاتھ کو جنبش دیکر پوچھا یہ کون لوگ ہیں اور اس سے پہلے یہ لڑکے
کہاں رھتے تھے؟ میں نے عرض کیا بابا جی آپ کس دنیا میں رھتے ہیں ، دینا بدل
گئی ہے اور مجھے اور آپ کو اب نئے پاکستان میں رھنے کے طور ظریقے سیکھنے
ہوں گے ۔یہ سنکر بزرگ پر جیسے لرزہ سا طاری ہو گیا جسے بھانپتے ہوئے میں نے
ایک ہاتھ انکے کندھے پر رکھ کر دوسرے سے انکا ہاتھ تھام کر انکے چہرے کی
جانب دیکھا اور انھوں نے مجھے آنکھ کے اشارے سے ایک طرف کھڑے ہونے کا حکم
دیا ۔کھڑے ہوتے ہی کہنے لگے تم جب میٹرک کا امتحان دینے اس شہر میں آئے تب
میری سروس پجیس سال ہو چکی تھی اور میں 42سال درس و تدریس میں گزار کر سولہ
سال پہلے ریٹائر ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہو ا ہوں اور تم کو میٹرک کے زمانے سے
جانتا ہوں ۔تم یونیورسٹی میں پڑھاتے ہو کیا یہی تعلیم دے رہے ہو بچوں کو ؟
میں نے ، جھجکتے ہوئے عرض کیا آپ کے دور میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نہیں
تھا نہ کسی نے نیا پاکستان بنانے کا سوچا تھا مگر گزشتہ چند سالوں سے ایک
67سالہ "نوجوان" نوجوانوں کا قائد بن کر نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد کر
رھا تھا جس میں وہ کچھ حد تک کامیاب ہو گیا ہے اور یہ لڑکے پہلے بھی اسی
ماحول و معاشرے میں رھتے تھے مگر انکے قائد نے محسوس کیا کہ درسگاہوں میں
دی جانے والی تعلیم انکے لیے ناکافی ہے کہ وہ ان میں وہ جنون اور جزبہ
بیدار نہیں کرتی جو سونامی کی مانند اٹھ کر پورے معاشرے اور اسکی اقدار کو
لپیٹ میں لے لے لہذا چند سال پہلے اس نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دارا لحکومت
کی ایک شاہراہ پر جمع کر کے ایک "تربیتی کورس"کروایا تھا جو 126دنوں تک
جاری رہا اور آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ اسی موثر تربیت کا شاخسانہ ہے
جو نوجوانوں نے شب و روز اکٹھے گزار کر حاصل کی تھی۔بزرگ استاد نے مجھے
دیہاتی زبان میں مخاطب کر کے پوچھا ، تم نے ایسی گالیاں کبھی پہلے سنی ہیں
؟ میرے نفی میں پلتے سر کو دیکھ کر پوچھا تم کو معلوم ہے یہ ملک حاصل کرنے
کے لیے ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیاں دی تھیں ؟ میں نے عرض کیا استاد جی
میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ انسانی معاشروں میں جب دلیل و منظق کی جگہ ہٹ د
ھرمی اور گستاخی لے لیں ، برداشت اور رواداری کی جگہ قطع رحمی اور تشدد لے
لیں تو ایسے معاشروں میں کشت و خون اور دھشت گردی عام ہو کر جلد ہی انھیں
عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا کرتی ہیں ۔ آپ پاکستان کے کسی بھی گلی محلے
میں چلے جائیں ، معاشرے کے افراد کے درمیان ہونے والے سیاسی مباحثوں کابغور
مشاہدہ کریں ان میں گالیاں ، بہتان تراشی ، دشنام پردازی ، عدم برداشت ایک
دوسرے کی توہین غالب نظر آئیں گی ۔ جو جس جماعت کا حمایتی ہے اسکے سامنے
کسی دلیل ، منطق یا ثبوت کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اگر آپ کسی جماعت کے کارکن
سے بحث کرنے اور بالخصوص اس سے اختلاف کرنے کی غلطی کر بیٹھیں تو اگلے کئی
دن تک آپ کو اپنے پاگل ہونے کا احساس ستاتا رھے گا ، آپ صحیح طرح سے سو
نہیں سکیں گے ۔ جہالت، عدم برداشت، افترا پردازی اور بہتان تراشی صرف
نوجوانوں کو نہیں بلکہ ہر عمر کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جسکے
عملی مظاہر دیکھ کر ان لوگوں کے دلوں کا رنجیدہ ہو جانا فطری بات ہے جو
اپنے اجداد کی طرح اس دیس کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے سپنے دیکھتے
چلے آرھے ہیں مگر سونامی تو ایک ایسے طوفان کا نام ہے جو راستے میں آنے
والی ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جایا کرتا ہے۔اپنی معاشرتی ،
اخلاقی و مذھبی روایات کو سونامی میں بہتا دیکھ کر انکے لیے بے اختیار دل
سے بد دعا نکلتی ہے جنھوں نے تبدیلی کے نام پر بد تمیزی ، بے حیائی اور
جہالت کا زہر میرے دیس کے نوجوانوں کی رگوں میں اتار کر انکو انسانیت کی
حدوں سے اتنا نیچے گرا دیا ہے کہ انکی زبانوں سے گالی ، بہتان ، الزام کے
سوا کچھ نکلتا ہی نہیں مگر اس جعلی سونامی کو حرکت میں لانے والی" غیبی
قوتوں" کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 1970میں بھی ووٹ کی طاقت سے اپنے
نمائیندے منتخب کرنے کے خواہاں "کیڑے مکوڑوں"کے مینڈیٹ کو ملیا میٹ کرنے کے
لیے دھونس اور دھاندلی کا ایک سونامی برپا کر کے یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ
ووٹوں سے حاصل کردہ اکثریت کوطاقت سے اقلیت میں بدل کر "لاڈلے"کو کرسی پر
بٹھا دینے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی مگر سونامی کو چلانے والوں سے بھی بے
قابو ہو جانے والے طوفان نے ہمارا آدھے سے زیادہ ملک نگل لیا تھا جس پر آج
تک ہم ہاتھ مل رہے ہیں اور بد قسمتی کی انتہا دیکھیے کہ جن حرکتوں کی وجہ
سے ملک ٹوٹا آج انھیں کو دہرا کر مختلف نتائج کی توقع کی جا رہی ہے جو
حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
۔میری اور بزرگ استاد کی آوازیں ایک مرتبہ پھر دب گئیں کیونکہ اسی دکان پر
بہت اونچی آواز سے یہ گانا بج اٹھا تھا جس پر سارے نوجوانوں نے رقص شروع
کردیا جس سے میں اور بزرگ استاد ایک مرتبہ پھر ناواقف تھے ۔ "روک سکو تو
روک لو تبدیلی آئی رے "
|