آج ہم جنسیت کے حا می جس طرح جوش و خروش سے خوشی منارہے
ہیں اور میڈیا Media والے ان کی خوشی کو دکھا کر داد و تحسین حاصل کر رہے
ہیں، استغفراللہ، استغفر اللہ تو بہ ہزار بار توبہ - ذرہ ذہن کے پر دے
پرزور ڈالیں قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی
اسی طرح خوش ہو رہی تھی اور بے حیائی کا مظاہر ہ کر رہی تھی جب اللہ نے
عذاب کے فرشتوں کو حضرت لوط علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور پھر اللہ کی
پکڑ ہوئ اور وہ قوم نیست و نا بو دکر دی گئی - 6 ستمبر 2018 کو ملک کی
اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی خواہش کو آزادی کے نام پر
پوری کردی - پانچ رکنی بنچ نے 158سالہ پرانے قا نون انڈین پینل کوڈ کی دفعہ
377 کوختم کر نے کا فیصلہ سنا دیا، جس میں ہم جنسیت کو قابل تعز یر قرار
دیا گیا تھا چیف جسٹس دیپک مشرا نے اپنا فیصلہ سنا تے ہوئے کہا :"جنسی
رجحان ایک طبعی مظہر ہے - اس کی بنیاد پر کوئی تفریق دستوری حقوق کے خلاف
ہے -" ایک اور جج اندو ملہو ترا نے اپنا فیصلہ ان الفاظ میں سنا یا :"تاریخ
معذرت پیش کر تی ہے کہ ہم جنسیت کے حامیوں کو ان کے حقوق ملنے میں دیر ی
ہوئی -" تفصیل کے لیے پورا فیصلہ ضرور پڑھیں، اللہ کا غضب کب نا زل ہو گا،
اللہ توبہ اللہ توبہ توبہ اللہ بچائے -
مذہبِ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رہنمائی
فراہم کی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور کامل دستورِ زندگی ہے جو
اپنے ماننے والوں کو زندگی کے کسی موڑ پر بے لگام نہیں چھوڑتا کہ جیسے بھی
چاہیں اپنی زندگی گزاریں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ بلکہ وہ اپنے ماننے
والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کے قانون کے خلاف زندگی گزارنے پر
سراسر ذلت و نقصان ہے۔ جو چیزیں انسان کی شخصیت یا سماجی زندگی کے لئے
فائدہ مند ہوں انھیں لازم اور ضروری قرار دیتا ہے اور جن چیزوں سے انسان کو
اپنی نجی زندگی یا معاشرتی زندگی میں نقصان پہنچنے کااندیشہ ہو، اسلام ان
چیزوں کی حوصلہ شکنی کرتاہے۔ معاشرہ کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے
لئے اور اسے شروفساد، بے حیائی، بدکرداری سے محفوظ کرنے کے لئے مذہبِ اسلام
نے جو فطری قانون عطا فرمائے ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔
انسانی نسل کی افزائش اور انسانوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مرد اور عورت
کے باہمی تعلق پر ہے۔ جس معاشرے میں یہ تعلق جتنا مضبوط ہوگا وہ معاشرہ
انتہائی پر امن اور خیرو برکت کا حامل ہوگا اور جس مذہب و معاشرے میں اس
تعلق سے ضوابط نہیں ہوں گے اس معاشرے کی مثال اس جنگل کی سی ہوگی جہاں
جانور بغیر قاعدہ کلیہ کے اختلاط( جنسی ملن) کے عمل سے گزرتے ہیں۔
اسی لئے مذہبِ اسلام نے عورتوں اور مردوں کی مجرد( بن بیاہا) زندگی کو عیب
قرار دیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے۔ نکاح کو آسان
سے آسان کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ غلاموں اور باندیوں کے نکاح کی
بھی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیاکہ نکاح معاشی اور اقتصادی پریشانیوں کا
بھی خاتمہ کرتا ہے ارشاد باری ہے۔ وَ اَنْکِحُواالْاَیَامٰی مِنْکُمْ
وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ0 اِنْ یَّکُوْنُوْا
فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ0 وَاللّٰہُ وَاسِعٌ
عَلِیْمٌ0(سورۃ النورآیت32)(ترجمہ: نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح
ہوں اور اپنے لائق بندوں (غلاموں ) اور کنیزوں کا، اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ
غنی کردے گا)
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا۔ ’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت
رکھتا ہو، اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا اور شرمگاہ
کی حفاظت کرتا ہے۔ اور جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا ہو
اسے چاہئے کہ شہوت کا زور کم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً روزہ رکھا کرے۔
اغلام بازی غیر فطری عمل ہے
آ ج کل یہ بحث بہت زوروں پر ہے کہ ہم جنس پرستی آیا فطری ہے یا غیر فطری؟
2؍جولائی 2009 کو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اجیت پرکاش اور جسٹس ایس مرلی
دھرن نے section-477Aکے تحت یہ فیصلہ دیاکہ مرد، مردسے اپنی جنسی خواہش
پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرح عورت، عورت سے اپنی جنسی خواہش پوری کر سکتی ہے،
کوئی جرم نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ)
چند ہوس پرستوں کا حوصلہ اس فیصلہ سے بڑھا ہے اور وہ سپریم کورٹ جا پہنچے۔
سپریم کورٹ نے 11؍دسمبر 2013 کو دفعہ 377کے تحت اسے غلط قرار دیا اور یہ
فیصلہ دیا کہ ہم جنس پرستی نہ صرف غلط ہے بلکہ جرم بھی۔ دفعہ 377کے تحت ہم
جنس پرستی غیر قانونی ہے اور اس فعل میں ملوث لوگوں کو اس دفعہ کے تحت
سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔ فیصلہ آنا تھا کہ میڈیا (جیسا کہ ہمیشہ ہوتاہے)
اس کو لے اڑا اور یہ کہ طرح طرح سے یہ لوگوں کی آزادی پر حملہ ہے وغیرہ
وغیرہ۔ اور اب تو حد ہوگئی کہ اس فیصلہ کے خلاف ملک کے بڑے بڑے لیڈران نے
بھی واویلا مچارکھا ہے۔ ( اللہ خیر کرے)
اللہ نے ہر جاندار کے نر و مادہ جوڑ ے پیدا فرمائے ہیں۔ یہ نر و مادہ جوڑے
نسل کی بقاکے لئے ہیں۔ ان کا آپس میں جنسی ملاپ (Sexmatual) قدرت کے قانون
کے عین مطابق ہے۔ یادرہے انسانی قانون کسی حال میں قانونِ الٰہی کا بدل
نہیں ہو سکتا اور قوانینِ الٰہی کے فائدے، حسنات و برکات کو کسی انسانی
قانون کے ذریعہ حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ دنیا میں برپا فساد کا
جائزہ لیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔
لواطت حرام و سخت گناہ ہے
ہم جنسی پرستی خواہ وہ مرد مرد سے ہو (Homo Sexual -Boy & Boy -Gay)یا پھر
عورت عورت سے ہو(Homo Sexual -Girl & Girl -Lesbian) دونوں ہی حرام و گناہ
ہے جاور فعلِ قبیح(گندہ کام) ہے۔ لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی میں
مبتلا تھی۔ اسی فعل قبیح کی وجہ کر ان پرعذاب آیا۔ قرآن فرما رہا ہے۔
(ترجمہ: اور لوط کو بھیجا، جب اس (حضرت لوط علیہ السلام) نے اپنی قوم سے
کہا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی۔ تم تو مردوں
کے پاس جاتے ہو شہوت کے ساتھ عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزرگئے)۔ اس قوم
کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہی کہنا ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ
پاکیزگی چاہتے ہیں تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی
عورت رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہہ (پانی) برسایا۔ تو
دیکھو کیسا انجام ہو امجرموں کا(القرآن سورۃ الاعراف، آیت 79 تا 84)
حضرت لوط علیہ السلام اردن میں اترے۔ اللہ نے اہلِ سدوم (ایک قوم و علاقہ)
کی طرف آپ کو مبعوث فرمایا۔ لوط علیہ السلام پانچ بستیوں کے نبی تھے۔ آپ
نے دین حق کی دعوت دی اور قوم کو فعلِ باطل، بد فعلی سے روکا۔ عورت کو چھوڑ
کر مرد کے ساتھ فعلِ بد کرتے ہو۔ ایسے فعل بد کا ارتکاب کرکے حد سے گزر
گئے۔ یہ حرکت فطرت کے خلاف ہے۔ یہ حرکت انتہائی خبیث اور گندی ہے۔ اپنے
قیمتی سرمایہ کو برباد کیا۔ مرد کونہ حمل رہتا ہے نہ وہ بچہ جنتا ہے۔ مرد
کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے۔ عورت کے رحم میں بچہ دانی
کو رکھا ہے جس میں منی جذب کرنے کی طاقت ہے، مرد میں نہیں۔ مرد میں یہ غلط
کام کرنے والے کرانے والے کو سخت بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جریان، سوزاک،
آتشک، ایڈز(AIDS) وغیرہ وغیرہ۔
آج ایڈز نے نہ صرف دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ امریکہ، یورپ بلکہ
ہندوستان میں بھی یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ حال ہی میں
محکمہ صحت کے وزیر مسٹر غلام نبی آزاد کا بیان کہ ایڈز کی بیماری ہندوستان
کو بھی تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے، اخبار بینوں کی نظر سے گزرا ہوگا۔
خدا بیزار ذہنیت و تہذیب کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کیا ایڈز خدائی عذاب
نہیں ؟ یقینا یہ خدائی عذاب ہے۔
سب سے سخت عذاب قومِ لوط پر آیا
قومِ لوط کی بستیاں نہایت ہی سرسبز شاداب تھیں۔ وافر مقدار میں غلہ او رپھل
کثرت سے پیداہوتے تھے۔ زمین کا دوسرا خطہ اس کے مثل نہ تھا۔ اسی لئے ہر طرف
سے لوگ یہاں آتے تھے اور اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ ایسے میں ابلیس
بوڑھے شخص کی صور ت میں نمودار ہوا اور لوگوں کو ورغلا یاکہ اگر تم مہمانوں
کی کثرت سے نجات چاہتے ہو تو جب لوگ آئیں تو یہ خبیث کام یعنی بدفعلی کرو۔
اس طرح بدفعلی انھوں نے شیطان سے سیکھی اور ان میں رائج ہوئی۔ قومِ لوط
اپنے مہمانوں سے بد فعلی کرنے لگے تو مہمان آنا بند ہوگئے۔ مہمانوں کے نہ
آنے سے برکت ختم ہوگئی۔ (خزائن العرفان صفحہ289)
آج بھی جو لوگ اس کو کرتے کراتے ہیں اور اس کی آزادی چاہتے ہیں وہ شیطان
کے کام کو کر رہے ہیں۔ قرآن میں دوسرے مقام پر عذابِ الٰہی کا ذکر ہے۔
ارشاد ربانی ہے فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا
وَاَ مْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ
سِجِّیْلٍ5مَّنْضُوْدٍ0مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ ط وَمَاھِیَ مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ0 (سورۃ ہود، آیت 82 تا 83)(ترجمہ: حکم آپہنچا،
ہم نے اس بستی کو زیر و زبر کر دیا۔ اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر
کنکریاں، نوکیلے پتھر کی بارش کی جو تہہ بہ تہہ تھے۔ یعنی مسلسل تیرے رب کی
طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ دور نہ تھے۔ پتھروں کامینہہ
یعنی مسلسل نوکیلے پتھر برستے رہے۔ ہر شخص کا نام پتھروں پر لکھا ہوا ہوتا۔
وہ شخص جہاں ہوتا خواہ سفر میں، بستی کے باہر بھی وہ نوکیلا پتھر اسی پر
جاکر لگتا اور وہ لہو لہان ہو کر ہلاک ہوجاتا۔ اللہ نے عجیب طرح کی بارش
فرمائی کہ ایسے پتھر برسے جو گندھک(Sulpher)اور آگ سے مرکب تھے۔ ایک قول
یہ بھی ہے کہ بستی میں رہنے والے زمین میں دھنسا دیے گئے اور جو سفر میں
تھے وہ پتھریلی بارش سے ہلاک ہوئے۔ مجاہد نے کہا کہ حضرت جبرئیلعلیہ السلام
ناز ل ہوئے اور انھوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کراس
خطہ کو اکھاڑ لیا اور چوتھے آسمان پر اٹھا لیا اور ایسا اٹھایا کہ برتنوں
کا پانی تک نہ چھلکا۔ سونے والے سوتے رہے جاگ نہ سکے اور آسمان کے قریب
پہنچ کر تمام بستیوں کو اَوندھا کرکے گرا دیا، جوزمین میں میلوں اندر دھنس
گئے۔ قومِ لوط کی پانچ بستیاں تھیں۔ پانچوں پر عذاب آیا اور پتھروں کی سخت
بارش ہوئی۔ قومِ لوط پر جو عذاب آیا وہ کسی قوم پر نہ آیا۔ اغلام بازی کی
وجہ کر اتنا سخت عذاب آیا۔ (تفسیرنور العرفان جلد اول صفحہ 255)
مسلمانوں کو انتباہ(Warning)
اسلامی معاشرہ کو اس گندی، خبیث، گھناؤنی عادت سے بچانے کے لئے اللہ کے
رسول نے اس جرم کے کرنے والے کے لئے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ
کا فرمان ِ عالیشان ہے۔ من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوالفاعل و
المفعول( یعنی جس کو قوم ِ لوط کا فعل کرتے دیکھو تو فاعل[کرنے والا] اور
مفعول[کرانے والا] دونوں کو قتل کردو) ( ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، ترمذی
شریف اور دار قطنی)۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت
خالدرضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں خط لکھااور پوچھا۔ ایسے مجرم (لوطی)
کی کیا سزا ہے ؟ آپ نے تمام صحابہ کرام کو مشورہ کے لئے طلب کیا۔ تمام
صحابہ نے سخت سزائیں تجویز فرمائی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز دی
کی ایسے دونوں شخص کو تلوار سے قتل کر دیا جائے۔ دونوں لاشوں کو جلا دیا
جائے۔ تمام صحابہ کرام نے آپ کی رائے کی تائید و حمایت کی۔ چنانچہ حضرت
خالد رضی اللہ عنہ کو یہی جواب لکھا گیا اور انھوں نے اسی کے مطابق عمل
کیا۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ حاکم وقت کو اختیار ہے کہ
ایسے مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے تاکہ کسی اور کو اس کے ارتکاب کی جرأت
نہ ہو۔
ہم جنس پرستی قطعی حرام ہے اس کا منکر کافر ہے
فاحشہ وہ گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے۔ کفر اگرچہ بد ترین گناہِ کبیرہ ہے
مگر اسے رب نے فاحشہ نہ فرمایا۔ کیونکہ نفسِ انسانی اس سے گھن نہیں کرتی۔
مگر لواطت تو ایسی بری چیز ہے کہ جانور بھی اس سے متنفرہیں سوائے خنزیر
(سور) کے۔ سور بھی یہ فعل بد کرتاہے۔ لوطی شخص بیوی کے قابل نہیں رہ جاتا۔
یہ بد کاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے۔ مردمیں گھناؤنا کام کرنے کرانے والے
کو سخت بیماریاں پید اہوتی ہیں۔ ان ہی وجوہ سے مذہبِ اسلام میں اس کی سخت
سزا ہے۔ امامِ اعظم کے یہاں دونوں کو بہت اونچا مقام پہاڑ یا اونچی عمارت
سے گراکر اسے پتھر سے مارمار کر ہلاک کردے۔ زنا سے بھی سخت سزاہے۔ کنوارے
کے لئے 100 ؍کوڑے زانی کے لئے ہیں۔
یہ غلط کام شیطان نے ایجادکرایا۔ ایک روز حسین وجمیل لڑکا بن کر آیا اور
باغ میں گھس گیا اور باغ والے کودعوت دی کی ایسی حرکت کرو۔ اس نے کیا۔ پھر
اس نے لوگوں کو بتایا اور اس وبا کو پھیلا دیا۔ یہ بات کفر سے بھی گری ہوئی
ہے۔ کفر سے لوگ گھن نہیں کرتے مگر اس سے سب گھن کرتے ہیں۔ اس فعل کے کرنے
والے کو جوع البقر (ایک بیماری کانام)بھی کہتے ہیں۔ زیادہ کھانے والی
بیماری ہے۔ جتنا کھانا بھی کھالے بھوک باقی رہتی ہے۔ پورے کنواں کا پانی
بھی پی لے گا تو پیاس نہیں بجھے گی۔ یہی حال نفس کا ہے۔ (تفسیر نعیمی اشرف
التفاسیر جلد 8 صفحہ 698، تفسیر ضیاء القرآن جلد2صفحہ 654، تفسیر خزائن
العرفان صفحہ289)امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ظالم
اور متکبر و بد فعلی کرنے والا اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم و بدفعلی کی
کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتاہے اور ذلت و نامرادی کا منھ دیکھتا ہے۔ چنانچہ
ظالم و مظلوم اور بد فعلی کرنے والوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی کی
داستانیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
بے حیائی بہت بری چیز ہے
مذہبِ اسلام میں ناموس و عزت کی بہت اہمیت ہے۔ اس لئے قرآن نے عزت و ناموس
کے لٹیروں کے لئے سخت سزاؤں کا اعلان فرمایا۔ وَلَا تَقْرَبُواالزِّنٰی
اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلًا0 (سورۃ بنی اسرائیل آیت32)
(ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت بری راہ
ہے) آج کی نو جوان نسل جو کھلے عام NDTV، BBC، دوردرشن میں مباحثہ(Debate)
میں حصہ لیتے ہوئے اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم بالغ ہیں ہمیں
آزادی سے اپنی زندگی جینے کا حق ہے۔ میں مسلم نوجوانوں کیلئے مذہبِ اسلام
کا نقطہ نظر واضح کر رہا ہوں۔ اسلام کے ماننے والے ہیں، خداکے واسطے اسلام
کو سمجھئے، مانیے، عمل کریئے، اسی میں عافیت و فلاح اور بھلائی ہے۔ اسلام
بے حیائی کی روک تھام کے واضح احکام کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد
فرما رہا ہے۔ ’’ وہ لوگ جو مسلمانوں میں بے حیائی پھیلنے کو پسند کرتے ہیں
ان کے لئے دردناک عذاب ہے، دنیا اور آخرت میں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔ (سورۃ النورآیت 19)
حیا و شرم تہذیب اسلامی کا اہم جز ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے
کہ کھلے عام میڈیا میں قبیل فعل کی طرفداری آزادی کے نام پر کریں۔ (اللہ
ایمان سلامت رکھے۔ آمین!)
لوطی شخص حکیم اور ڈاکٹر کی نظر میں
اطبا اسے بتلاتے ہیں سب امراض کی جڑ
قبر میں بھیج دے انسان کو اگر جائے بگڑ
ہم جنس پرستی تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس کا کرنے والا مہلک بیماریوں کا
شکار ہو جاتا ہے جو لاعلاج ہوتی ہیں۔ خدائی عذاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا
شخص عورت کے لائق نہیں رہ جاتا نہ ہی عورت کو خوش کر سکتا ہے۔ اس کی طبیعت
عورت کی طرف بالکل مائل نہیں ہوتی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس
کی قوتِ باہ (Sex)ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔ (حکیم جرہانی)آپ یعنی حکیم
جرہانی نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے۔ اس فعل سے مفعول کا دل ضعیف
ہوجاتا ہے اور اس کی منی غیر محرک ہوجاتی ہے۔ بہت سے حکماء کا قول ہے کہ اس
عادت والے کی آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے
ہیں۔ جنسی ماہرین کاکہنا ہے دونوں کو کیڑے (جراثیم) پڑ جاتے ہیں۔ فاعل(کرنے
والا) مفعول(کرانے والا) دونوں کو ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا خطرہ سو فیصد
بڑھ جاتاہے۔ شیخ الرئیس بو علی سینا کا قول ہے کہ ہم جنس پرستی مرض نہیں
بلکہ یہ علت(عادتِ بد) ہے جو وہمی و کسبی ہے اور ایسے لوگوں کا علاج کرنا
فضول ہے۔ بلکہ ضرب سے کام لینا چاہئے۔ حکیم گیلانی جو ماہر جنسیات بھی تھے،
نے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کوبھری مجلس میں شرمندہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی
اس عادت بد سے باز آجائیں۔ حکیم ذکریا صاحب، حکیم اعظم خان صاحب اور حکیم
گیلانی نے اس فعل کی سخت مذمت کی ہے اور ایسے مریضوں کے علاج کومنع کیاہے۔
اکثر اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ ہم جنس پرستی خواہ وہ نر کے درمیان ہو یا
مادہ کے درمیان دونوں صورتوں میں فاعل، مفعول انزال کے بعد انتہائی ندامت و
شرم محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ عمل غیر فطری ہے۔ جبکہ نر ومادہ اور
انسان کے نرو مادہ کے جائز ملاپ پر انزال کے بعد طرفین فرحت و خوشی محسوس
کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ فطری عمل ہے۔
موجودہ معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں
معاشرے میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے، اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت
دلوں میں اتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے، اس بات کو دل و دماغ میں
بٹھایا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی
ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طورپر زندگی گزاری جائے اور آخرت بھی
سنواری جائے۔ غیر اسلامی کاموں اور گندے فعل سے پرہیز کیا جائے ورنہ اس کا
انجام بھیانک اور خطر ناک ہے۔ عذابِ الٰہی سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔
یہ ذہن نشیں کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت
و بقا اور انسان کے فطری جذبات کی تسکین کے لئے جائز اور مناسب طریقہ ہے جو
رب کریم نے بندوں کے لئے بنایا ہے۔ نکاح شریعت کی نگاہ میں ایک پاکیزہ،
ٹھوس، پائیدار اور دیرپا رشتہ ہے، جو دیگر مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل
میں موجود ہے۔ نیز اس کے لئے الگ الگ قوانین اور ضابطے بھی ہیں۔ تمام مذاہب
نے اسے صرف ایک رسمی تفریح اور دنیاوی ضرورت کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن
مذہب اسلام میں نکاح کو دنیاوی ضرورت کے ساتھ ایک دینی ضرورت بھی بتایا اور
قربِ الٰہی کا سبب بھی بتایا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اذ تزوج العبد
و فقداستکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی النصف الباقی(ترجمہ: جب بندے نے نکاح
کر لیا تو اس نے آدھا دین مکمل کر لیا اور باقی آدھا کے لئے وہ اللہ سے
ڈرتا رہے۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 286)
نکاح کرنے سے انسان اپنی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ گناہوں سے بھی بچتا ہے
اور سماج میں عزت کی زندگی گزارتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تمام باتیں
لوگوں تک پہنچائی جائیں۔ پمفلٹ بانٹے جائیں، جلسے منعقد کئے جائیں، نجی
مجلسوں اورہوٹلوں، کلبوں میں بھی ان خیالات و نظریات کو عام کیا جائے۔
کمیٹیوں اور انجمنوں، علمائے کرام، دانشور حضرات اس پیغام کو گھر گھر
پہنچائیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی طاقت و قوت عطا فرمائے۔ آمین!
|