میرا کیا قصور ھے !

موجودہ پاکستانی سیاست پر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بڑی گہری نظرھے۔اور لمحہ بہ لمحہ بیانات،تقریروں، تقرریوں، تبادلوں کونہ صرف سنتے ھیں بلکہ اپنی عقل، تجربہ اورعلم سےنہ صرف تجزیہ بلکہ بحث بھی کرتے ھیں۔موجودہ وزیرِاعظم جناب عمران خان کی اکنامک ایڈوائیزری کونسل میں ڈاکٹرعاطف میاں کی تقرری کا سُن کرفرنٹ فٹ کے فیصلےاورپاکستانی آہین کے آرٹیکل (1- 27) کی پاسداری مثبت فیصلہ لگا اور نام واپس لینے پرایسالگاجیسے ھم سب بیک فٹ پر چلے گیےھوں۔

گزشتہ روزاپنی فیس بک پیج پر ایک ھندو پاکستانی نوجوان دوست کے کمنٹ پرجواب یا صفائدینے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ اور سوچ میں ڈوب گیا۔

زندگی کی چار دھاہیوں سے زیادہ د یکھنے کے ساتھساتھ ، بہت سے تعلیم یافتہ، تجربہ کار، معاشی ، سماجی ، سیاسی، معاثرتی شخصیات سے ملنے اور سیکھنے کا بھرپورموقع ملا۔پورے پاکستان کے علاوہ کچھ ممالک بھی دیکھے ، مگر خود کواب بھی طفلِ مکتب ھی گردانتا ھوں۔ اور یہ سمجھنے سے قاصر ھوں،
کہمیرا کیا قصور ھے؟

میرے رنگ، میری زبان، میرے مذھب، میرے عقیدہ، میرے خاندان، میری نسل، میرے گروہ اور میرے مرد ھونے کے ساتھ ساتھ ، غرض کسی بھی خصوصیت یا عیب پر میرا ھرگزھرگزاختیار نھیں اور نہ ھو سکتا ھے۔ میرے والدین اور ھم سب بہن بھاہیوں نے بہت محنت ، انتھک اور مسلسل جہدوجہد کے بعد صرف تعلیم اور محنت کی وجہ سے اپنی زندگی اورموجودہ حالات نسبتابہترکیے اوریہ کوشش جاری رھے گی۔ اس ساری تبدیلی میں بھی ھمارا عمل دخل صرف کوششکی حد تک ھی ھے۔ حقیقت میں ساراکمال اللہ کی زات کا ھے، وہ بھلے مال کی شکل میں ھو یا اولاد کی شکل میں! رھی بات شخصیت یا قابلیت کی تو، پاکستان میں افراد کو انکے پہناوے ، گاڑی کے ماڈل، رہائیش کی لوکیشن اور خاندانی پسِ منظر کو دیکھ کرعزت و توقیردی جاتی ھے ۔ مگر مغرب میں رھنے نے سوچ کو180 کے زاویے سے تبدیل کیا۔

میں یہاں اقلیت میں ھوں اور "کفار" اکثریت میں!

یہاں مجھے میرے رنگ، نسل، مزھب، فرقہ، زاہری حالت یا حلیے، خاندانی پس منظر، زبان یا قوم سے نھیں بلکہ تعلیمی قابلیت، معاشرے میں حسنِ اخلاق، بول چال، روزمرہ کے لین دین اور چہرے پر موجود مسکراہٹ سے تکریم ملتی ھے۔ اکثریتی حلقے مجھے ھمیشہ اپنے برتن میں ھی کھانا دیتے ھیں، میرے کام کی جگہ پہ میرا گلاس علہدہ نہیں کیا گیا۔یہاں ھوسکتا ھےکہ بہت سے لوگ اس بات سے اختلاف کریں، مگر زیادہ تر یہی دیکھا گیاھے اور جب بات ملک اور ملت کی آتی ھے تو مغربی حکومتیں یہ نہیں دیکھتی کہ آپ کون ہیں اور آپکا تعلق کہاں سے ھے۔بلکہ وہ اپنے ملک اور ملت کے وسعی تر مفادات میں اپنے قوانین کو بھی تبدیل کر کے آپکی تعلیمی قابلیت، ھنر اور تجربے سے مستفید ھوتے ھیں۔ اسکی ایک مثال آسٹریلیاءمیں مقیم پاکستانی نژاد کرکٹر فواد خان کی ھے، جسکو آسٹریلین کرکٹ ٹیم میں شامل کرنے کے لیے آسٹریلین امیگریشن لاؔ میں نہ صرف تبدیلی کی گی، بلکہ ٹیم کے ساتھ ٹور پرجانے کے لیے اس عمل کو تیز بھی کیا گیا۔یہاں مجھے بھاری بھرکم سَرتھامس رو بھی یاد آگے جنہوں نے جہانگیر بادشاہ کے بیٹے کا علاج کیا اور بادشاہنے خوش ہوکر اسکے وزن کے مطابق سونے سے نوازنے کا حکم صادرکیا۔ مگر اُس مغربی سرتھامس رونے سونے کے بجاے مشرقی بادشاہ سے انگلستان اور ھندوستان کے درمیان تجارت کی درخواست کی اور اپنے زاتی فائیدے کو بالاِ تاک رکھتے ھوے اپنے ملک کے وسیع ترمفاد کو ترجھح دی ۔ یہ افراد کی نسبت مملکت کے مفادات کو فوقیت دینے کی ایک بہترین مثال ھے۔ درج بالا دونوں واقعیات میں گو کہ صدیوں کا فرق ھے مگرانفرادی اوراجتمائ توازن اور فاہیدہ یک طرفہ ھی ھے۔

حال ہی میں پاکستان میں ھمارے وزیرِاعظم جناب عمران خان نے اپنی کابینہ میں معاشی ماہرڈاکٹرمیاں عاطف کو شامل کرنے کا اعلان کیا اور ھر طرف شور و غوغہ برپا ھو گیا۔ اور بہت سے ایسے لوگ سوشل میڈیا پر بحث اور فتوئے صادر کرنے لگے جنکے اپنے تعلیمی معیار اور تجربے کی کہانی شروع ھونے سے پہلے ھی ختم ھو جاتی ھے۔ اور انہی میں سے بہت سے آنے والے ماہِ محرم میں اپنے فرقہ کا دَفع انہی لوگوں سے کر رھے ھونگے۔ اس شور اور ماتم میں، میں یہ سمجھنے سے قاصِرہوں کہ اِن تمام معاملات میں ھماری قوم کس کا مفاد دیکھ رھی ھے، اورڈاکٹرمیاں عاطف کے مزھب اور فرقے میںڈاکٹرمیاںعاطف کا کیا قصور ھے؟

کیاھمیں بطور قوم، پاکستان کا اجتماعی اور وسیع تر مفاد دیکھنا ھے، یا کسی کا مزھب، مسلک، نسل اور رنگ؟ کیا بائیس کروڑعوام یا تمام اسمبلی ممبران کا ایما ن صرف ایک شخص سے خطرے میں پڑتا یا اِسکے برعکس بھی ھوسکتا تھا؟

اگر ایسا ھی ھے تو، آنے والے وقت میں تمام تعلیم یافتہ اور تجربہ کار آفراد اپنے آپ کو اِن تمام معاملات اور محبِ وَطنی کی پہنچ سے دور رکھیں گے۔ کیونکہ کب آپ پہ کفر کا فتواء اور کافر ھونے کا لیبل لگ جاےؑ، کچھ پتہ نہیں۔ زیادہ بہتر یہی ھوگا کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی خدمت کے لیے آپکواپنی کمپنی تبدیل کرنی ھو گی۔ اپنے علم اور تجربے کے علاوہ اپنے ماتھے پر کچھ مہریں ثبط کرناھونگی۔ تاکہ محبِ وطن ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ اقلیت اب بھی اقلیت ھی ھے۔ میں موجودہ حکومت سے درخواست کروں گا، کہ آپکی مسلسل کوششوں نے ھمیں بھی زبان دی، لحاظہ پاکستانی اداروں میں شمولیت کی شرائط پہلے ھی تفصیلا" درج کر دی جاہیں تاکہ تجربہ کار، ھنرمند،تعلیم یافتہ اورتجربہ کار اقلیت اپنا وقت زائیع نہ کریں اورپاکستان انکی پہنچ سے دور رھے۔ رھی بات محبِ وطن پاکستانیوں کی تو، آج اگرآکثریت کواپنی شناخت بدلنے کا موقع ملے تو وہ اقلیت بننے میں بلکل آر نہیں سمجھیں گے۔

اگر کسی کے بھی بس میں ہوتا تو وہ اپنے آپ کو ھرگزاقلیت میں شامل نہ کرتا، کیونکہ اس فیصلے میں اسکا کوئ قصورنہیں ھے!

Amir Ali
About the Author: Amir Ali Read More Articles by Amir Ali: 2 Articles with 1264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.