ہمارا سب سے بڑا بے یقینی کا دور دورہ ہے۔یہ دور کبھی ختم
نہیں ہوا۔اگر کبھی چاردن اچھے گزرگئے تو اس کا خمیازہ آگے چل کر کئی مہینے
عذاب کے کاٹنے کی صورت میں بھگتناپڑا۔سب چلے گئے مگر نہ گئی تو یہ بے
یقینی۔کچھ بھی یقینی نہیں۔نہ کسی گروہ کا اعتبارہے نہ کسی دھڑے پر بھروسہ
کوئی بھی کہیں بھی جاکر دھوکہ دے جاتاہے۔ نہ کسی فردکااعتبار ہے ر نہ کسی
ادارے پر یقین سبھی مرضی کے مالک ہیں۔ان کی مرضی کبھی بھی بدل جاتی ہے نہ
کوئی قاعدہ نہ کوئی اصول بس بے یقینی ہے ۔بڑی بھیانک بے یقینی ہے۔صدارتی
نظام بھی نامراد کرتا ہے اورپارلیمانی نظام بھی کچھ کمال نہیں دکھا
پاتا۔جمہوریت زخم مدمل نہیں کر پاتی اور آمریت بھی مرہم رکھنے سے عار ی
رہی۔کوئی کرے تو کیا کرے۔سیاسی دھڑے ملکی نظام اور اداروں کی تعمیر وتطہیر
کے ضامن ہوتے ہیں۔معاشرے کے یہ چنیدہ لوگ آگے تو اس لیے لائے جاتے ہیں کہ
وہ قانون اور مساوات کی مثال بنیں مگر یہاں ایسے ایسے نمونے بھی پائے جاتے
ہیں جو ایک باوردی شخص کو دس دس بار متنخب کروانے کو جمہوریت قراردیتے
ہیں۔ا ن کی نظر میں جمہوریت وہ نہیں جو عواہم کے محبوب لوگوں کے قانون اور
آئین کے مطابق حکومت بنانے سے قائم ہوتی ہے۔بلکہ یہ اسی نظام کو جمہوریت
سمجھتے ہیں جن میں انہیں بندر بانٹ کاحصہ دار بنایا جائے۔ادارے بنائے جاتے
ہیں کہ وہ عوام اور ریاست کے مفاد کو یقینی بنائیں۔یہ ادارے الٹا ریاست کو
بدنام کرنے اور عوا م کے لیے پیر تسمہ پابننے کا فریضہ نبھارہے ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے شرجیل میمن کیس ٹیسٹ کیس بن رہا ہے۔انہیں احساس
ہورہا ہوگا کہ معاملات کتنے بگڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے کبھی آوے کا آوہ بگڑا
ہونے کا سنا ہوگا۔آج دیکھ رہے ہیں۔ سوچتے ہونگے کہ ایک چیف جسٹس کے چھاپے
کا انجام یہ ہے تو چھوٹے موٹے افسرشاہی احکامات کا کیا بنتاہوگا؟ ان کے
سامنے ڈرے سہمے شرجیل میمن تینوں بوتلوں سے لاتعلقی پر بضد تھے۔اب حکومت
سندھ یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ ان بوتلوں میں کچھ ایسا نہ تھا جسے
چھپایا جاتا۔جناب ثاقب نثار کو حیرانگی ہے کہ کسی طرح تمام ادارے ایک شخص
کو بے گناہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اتنازبردست ٹیم ورک کیا گیا کہ
پولیس ۔صحت ۔جیل اور دیگر تمام محکمے یکسو اور یک زبان نظر آئے۔اصل ذمہ دار
کی تلاش مشکل ہوچکی۔جن سرکاری اہلکاروں پر چیف جسٹس کو زعم تھا۔وہ اپنی
وفااداریاں عوام اور ریاست کے مفاد کی بجائے کسی اور کے لیے نبھارہے
ہیں۔چیف جسٹس کو خود اپنے ادارے کے کردارپر بھی عدم اطمینان ہے۔شرجیل میمن
جیسے لوگ جس طرح کسی نہ کسی عدالتی حکم نامے پر ضمانت پالیتے ہیں۔یا قید
کاٹنے کے لیے جیل یا حوالات کی بجائے کسی ہسپتال کے نام پر فائیوسٹار ہوٹل
میں مزے کرتے ہیں۔ججز ایسی سہولتیں مہیا کرنے کا حکم نامہ جاری کرنے میں
وقت نہیں لگاتے۔یہ حضرات چاہیں تو جھوٹے گواہوں اور بے تکی دلیلوں کو
باآسانی مسترد کرکے مجرموں کی راہ مسدود کرسکتے ہیں۔مگر ایسا نہیں کرتے
۔خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔اس خاموشی کی معقول قیمت ملتی ہے۔
تبدیلی ضرروی ہے مگر کیسے آئے گی۔یہاں ایک ایسا دھڑا مسلط ہوچکاجو بالادست
ہے۔ناقابل تسخیر بھی۔اسے روکنا بڑا مشکل ہے شاید ناممکن ، وجہ یہ کہ یہ
دھڑا کچھ خاص بناوٹ نہین رکھتا۔اس کی شکل ۔اس کا نام بدلتے رہتے ہیں۔کبھی
اسے کوئی نام دیا گیا۔اور کبھی کوئی ۔کبھی یہ کسی صورت کا نظر آیا کبھی کسی
اور صورت کا۔ا س کی شناخت مشکل ہے۔اس کا یہ بے چہرہ وجو د ہی اس کی سب سے
بڑی طاقت بنا ہو اہے۔اس رنگا رنگی کا سبب بھی سمجھ میں آتاہے۔اس میں کسی
ایک سوچ کی نمائندگی نہیں۔یہاں ہر سوچ کے لوگ موجود ہیں۔ہر ادارے کے
متعلقین اس کا حصہ ہیں۔اسے کچراگھر بھی کہا جاسکتاہے۔ہر شعبے ہر طبقے کے
برے اور کرپٹ لوگ اس دھڑے میں شامل ہیں۔شعبہ سیاست کے کچھ گندے انڈے کچھ
برکردار جج اور کچھ بدنیت جرنیل ۔اس دھڑے میں بڑے بڑے صنعت کاروں۔زمینداروں
اور دیگر اہم شعبوں کی نمائندگی ہے۔ان شعبوں کے بدکردار اور برے لوگ اس دھڑ
ے کا حصہ ہیں۔یہ سب باری باری اپنا رول نبھاتے ہیں۔ڈرائیونگ سیٹ پر کبھی
کوئی بیٹھا نظر آتا ہے۔کبھی کوئی دوسرا۔اس کچراگھر کو کسی شعبے سے موسوم
کرنا ممکن نہیں ۔کبھی اس ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی سیاست دان بیٹھانظرآیا۔کبھی
اس کی باگ دوڑ کسی جرنیل کے ہاتھ رہی ۔اور کبھی کوئی جج اس کو لیڈکرنے آگے
آگیا۔کبھی بڑا زمین دار کبھی کوئی بڑا صنعت کار اس ڈرائیونگ سیٹ پر چہرے
بدلتے رہے۔ہر شعبے کی کالی بھیڑیں اس بے شکل وجود کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔جب
تک یہ کالی بھیڑیں ڈھونڈکر الگ نہ کردی جائیں گی۔تبدیلی نہ آئے گی۔ |